ایک نامبارک ساعت میں بوساطتِ شوشل میڈیا اداکار شوشانت سنگھ کی تحدیثِ اَتم گھات زینتِ دید و رصد ہوئی تو غمگین و اندوہ گین،مغموم و ملول اور آزردہ و حرماں زدہ ہو کہ انگشت بہ لب ہو گیا تکلیف مالایطاق کے عالم میں ذہن نے کچھ ہمت سی باندھتے ہوئے سوچ کے دروازے کھولے تو کچھ سوچنے کی، سمجھنے کی، قلم اُتھانے کی استطاعت حاصل ہوئی۔ اس واقعہ کے بعد میرے ذہن میں دوسرا واقعہ آیا جو غالباً ستمبر کے ایام میں میرے عزیز و اقارب کے ہاں رونما ہوا شام کا وقت تھا کہ مجھے اطلاع کی میرے عزیز جس کی عمر دس سال تھی اُس کی وفات ہوگئی ہے۔ حیف و گریہ زاری کے عالم کا طاری ہونا تو اصولی اور عمومی بات تھی مگر جس بات نے مجھے ورطہ حیرت کے قعر و قلزم میں ڈبو کر انگشتِ بدنداں کردیا وہ یہ تھی کہ میرے عزیز نے اَتم گھات، خود سوزی کی۔
ششدر و حیرانی کے بادلوں نے مسلسل بے چینی و بیتابی،تشویش و تذبذب، جزع و خلفشار اور اضطراب و حیرت نے دل پر ڈیرے ڈالے رکھے کہ آخر کیا وجہ ہوگی جس نے دس سالہ بچے کو خودکشی پر مجبور کردیا۔ جب حقیقت طشت از بام ہوئی تو پتہ چلا کہ اُس کے چچا زاد بھائی کے پاس موبائل تھا اور اس کو موبائل استعمال کرنے کا شوق تھا اپنے والد صاحب سے موبائل مانگا جس سے والد صاحب نے احتراز برتا اور یہی چیز بچے کو پسند نہیں آئی وہ گیا اور پھندے سے لٹک کر جان دے گیا۔ اتنی چھوٹی سی بات پر خودکشی کر لی حیرت میں مبتلا کرنے والی بات ہے۔
میں ایک روز دوست کی دکان پر براجمان تھا کہ وہاں پر ایک شخص بتلا رہا تھا کہ اس کے خاندان میں دو بھائیوں کے درمیان حجت و تکرار پر دنگ و ستیزہ ہوگئی۔ برادرِ اصغر جس کی دنگ و ستیزہ ہوئی تھی برادرِ اکبر کے ساتھ۔ اس کی زوجہ اور تین ماہ کا بیٹا تھا۔ اب اس رنجوری کے عالم میں وہ خود سوزی کا مرتکب ہو گیا۔
پیچھے حالات یوں خراب کہ اس کی بیوہ بھی محض پندرہ دن کی مہمان بنتے ہوئے خود سوزی کر گئی۔
ایک اور جگہ ایسا ہوا کہ ایک گھر میں بھابھی نے دیور پر چوری کا الزام عائد کر دیا اور اس الزام کی رنجش کی بناء پر دیور نے خود کشی کر لی ہم کس معاشرے میں زندہ رہ رہے ہیں۔ بہت صدمہ پہنچانے والی بات ہے۔
ایسے ہی روز اخبارات میں کئی لوگوں کی خود کشی کر جانے کے واقعات سامنے آتے ہیں اور بندہ حیف و ملال کی تصویر بن کر رہ جاتا ہے جیسے بھکر میں فرسٹ ایئر کے طالب علم نے مارکس کم آنے کی وجہ سے خود سوزی کرلی۔ اور یہ سندیسا اپنے والدین کی طرف منسوب کر کے گیا کہ میں نے اپنی پوری کوشش کی کہ آپ کی امیدوں پر پورا اترتے ہوئے اچھے مارکس حاصل کروں۔ مگر میں ایسا کرنے میں ناکام ہوگیا۔ جس وجہ سے اپنی جان دے رہا ہوں۔
اگر ہم اس حزن و ملال کے ساتھ لکھنے بیٹھیں تو قلم تھک جائیں مگر واقعات ہیں کہ ختم ہونے کو نہ آئیں۔ یہ تو بیت الحزن ہے مڈل کلاس کا مگر یہ بات تو اَپر کلاس کے افراد میں بھی نظر آتی ہے۔
قریب ایک سال پہلے جس تحدیث نے مجھے ورطہ حیرت میں مبتلا کیا تھا وہ یہ تھی کہ مقابلے کا امتحان پاس کر کے SSP کے عہدے پر فائز ہونے والے شخص جس کا تعلق مڈل کلاس سے تھا اُس نے محض تین سالہ سروس کے بعد خود سوزی کرلی جو یقیناً حیرت میں مبتلا کرنے والی بات تھی۔
اب یہ قصہ ہے کہ دنیا کی شہرت یافتہ فلم انڈسٹری بالی ووڈ سے تعلق رکھنے والے شہرت یافتہ فرد نے خود کشی کر لی جو یقیناً حیران کردینے والی بات ہے۔ عزت ہوتے ہوئے، شہرت ہوتے ہوئے آخر کونسے عناصر نے اُس کو ایسا کرنے پر مجبور کر دیا۔
جیسے انسان کو کچھ جسمانی بیماریاں ہوتی ہیں جو اُس کو بسترِ مرگ پر لے جاتی ہیں اور اس کی زندگی کے اختتام کا باعث بنتی ہیں ویسے ہی کچھ ذہنی بیماریاں ہوتی ہیں جو انسان کو خود کشی تک لے جاتی ہیں۔ ڈپریشن ایک بہت ہی تکلیف دہ مرض ہے۔ ڈپریشن کی کئی اقسام ہیں۔ ایک ہوتا ہے تکلیف، ایذا کے ردعمل میں ہونے والا ڈپریشن جس کو عُرفِ عام میں ہم صدمہ بولتے ہیں۔ بسا اوقات انسان انسان صدمے سے باہر آجاتا ہے۔ مگر یہ صدمہ قابلِ برداشت نہ رہے اور اک عرصہ بعد بھی انسان کے ذہن پر استوار رہے تو بہتر یہی ہے کہ انسان اس کو ذہنی بیماری تسلیم کرتے ہوئے علاج معالجے کی طرف رُختِ سفر باندھے۔
اسی طرز پر موٹیویشنل سپیکرز سے جیسے سننے میں آتا رہتا ہے کہ وہ کام جو آپ کو تھکاتا نہ ہو جس میں آپ کو تھکن محسوس نہ ہوتی ہو۔ جو آپ کا پیشن ہو وہ کام کرنا چاہیے۔ دوسرا کام انسان کو نفسیاتی مریض بنادیتا ہے کیونکہ اس میں انسان کی دلچسپی نہیں ہوتی ہے۔ میں ذاتی طور پر ایسے افراد کو جانتا ہوں جو اس تکلیف میں مبتلا ہیں۔
دو پایہ والی مرض (bipolar disorder) سب سے اہم اور اذیت ناک ڈپریشن کی حالت میں جس میں مریض کی حالت مکمل طور پر تشویش ناک ہوجاتی ہے۔ جس میں مریض کے ذہن میں خود سوزی کے خیالات منڈلانے لگتے ہیں۔
آپ کا اور میرا بطورِ معاشرتی فرد یہ حق بنتا ہے کہ جب کبھی ایسے افراد کو دیکھیں جو ایسی باتیں کرتے ہیں تو اُس کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے ماہرِ نفسیات سے رابطہ کر وانے کی سعی کریں۔
ہمارے ہاں ڈپریشن کا علاج خوراک یا غذا کو بطور دوا بنا کر کیا جاتا ہے یا مذہبی عبادات کو ذریعہ بنایا جاتا ہے یاد رہے یہ محض وقتی علاج ہوتا ہے اس کا بہتر اور دیر پا علاج نفسیاتی معالج ہی کرسکتا ہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...