اردو اور ہندی زبانیں گنگا جمنی تہذیب کی علمبردار ہیں۔یہ عوام میں اتحاد اور بھائی چارے کی فضاہموار کرنے میں معاونت کرتی ہیں۔ خاص بات یہ ہے کہ یہ زبانیں ہندوستانی ماحول میں پیدا ہوئیں اور یہیں بامِ عروج تک پہنچیں ۔اردو اورہندی کے ادیبوں اور شاعروں نے عوام کے دکھ درد کو اپنے فن پارے میں جگہ دے کر انسانیت کی فضا سازگار کی اور سماج کی اصلاح کا کام انجام دیا۔ایسے ہی اردو اور ہندی کے دو عظیم فنکاروں کی تخلیق اور احساسات کا موازنہ اس مضمون میں کیا گیا ہے۔ نرالاؔ کی کویتا ‘‘وِہ توڑتی پتھر’’ اورجوشؔ ملیح آبادی کی نظم ‘‘حسن اور مزدوری’’ ایک جیسے خیالات اور رجحانات کی ترجمانی کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔
نرالاؔ کا تعلق ہندی کویتا کے چھایا وادی یگ سے ہے۔انھوں نے اپنے عصری صاحبِ قلم اور تخلیق کاروں سے ہٹ کر ایک الگ راہ نکالی۔انھوں نے اپنی کویتاؤں میں زندگی کی حقیقی تصویر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔۱۹۱۶ ء کے اردگردہندی ادب میں ایک نئی لہر اُٹھی جس کو ہندی ادب کے نقادوں نے چھایا وادی یگ کا نام دیا۔ چھایا وادی یگ نے ہندی ادب کو ایک نئی فضا سے ہمکنار کیا۔کویوں نے اپنی شاعری میں تخیل اور جزبات کا بھر پور استعمال کرنا شروع کیا جو قدیمی ہندی شاعری سے الگ تھا۔پرانی ہندی کویتاؤں کے مقابلے ان کویتاؤں میں الگ بھاشا،بھاؤؤ،شیلی،چھند،النکارکا استعمال کیا گیا ۔جدید ہندی شاعری کا سب سے بہترین دور اسی کو تصوّر کیا جاتا ہے اسی دور میں بہترین جدید ہندی کویتاؤں کی مثالیں ملتی ہیں جن کو ہندی ادب میں اہم مقام حاصل ہے۔ چھایا وادی یگ کے چار اہم ستون کے طور پر مہادیوی ورما، جے شنکرپرساد، سمِترانندن پنت اورسوریہ کانت ترپاٹھی نرالاؔ کا نام لیا جاتا ہے۔
سوریہ کانت ترپاٹھی نرالا ؔ ۱۱فروری ۱۸۹۶ء میں بنگال کی ریاست مہشادل (ضلع مدن پوری) میں پیدا ہوئے۔ان کی کویتاؤں میں سب سے بڑی خصوصیت لفظوں کے ذریعے کی گئی منظر کشی ہے جس سے قاری کی نگاہوں میں اُس مخصوص ماحول کی پوری تصویر کھنچ جاتی تی ہے جس کا بیان ان کویتاؤں میں ہوتا ہے ۔وہ الفاظ کے جادو سے احساسات کو گرمانے کا ہنر بھی خوب جانتے ہیں ان کی کویتاؤں کے کردار جیتے جاگتے اور زندہ معلوم ہوتے ہیں ایسا لگتا ہے ان کرداروں اور مناظر سے ہم بخوبی آشنا ہیں۔وہ اکثر اپنی تخلیقات میں سماج کے پس ماندہ طبقوں کے حالاتِ زندگی یعنی ان کی مفلسی اور ان کے ساتھ کئے جا رہے نا روا رویوں کو بغیر کسی تردد کے بیان کرتے ہیں۔وہ سماج کو جگانا چاہتے ہیں اور ایک ایسے ماحول کو سازگار کرنا چاہتے ہیں جہاں لوگ ایک دوسرے سے محبت کریں اور امن و امان کے ساتھ رہیں۔وہاں کوئی کسی کا استحصال نہ کرے اورنہ ایک دوسرے پر ظلم ہو۔ انھوں نے اپنی کویتاؤں میں مارکسی نظریات کی ترجمانی کی۔مارکسی نظریات ہی کی دین تھی جس کے سبب ہندی ادب میں پرگتی واد تحریک کا چلن عام ہوا۔اس نظریہ کی حمایت کرنے والوں نے عوام کے ساتھ ہونے والے ہر ظلم وجبر کے خلاف آواز بلند کی۔ پرگتی واد کے مطابق سماج دو حصّوں میں تقسیم تھا۔ ایک پونجی وادی طبقہ جوسماج کے دوسرے طبقے یعنی مزدور پیشہ افراد یا غریب عوام کا استحصال کرنے پر آمدہ تھا۔
ہندی ادب میں پرگتی واد کی ابتداء ۱۹۳۶ء سے مانی جاتی ہے۔نرالاؔ کے ذریعہ لکھی گئی کویتا وِہ توڑتی پتھراسی وچار دھارا کی ترجمان ہے۔نرالاؔ نے اس کویتا کے ذریعہ ایک متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی ایک مزدور صنفِ نازک کی خوبصورت منظر کشی کی ہے اور بتایا ہے کہ کس طرح سماج کے ذریعہ اس کااستحصال ہو ا ہے۔نرالاؔ چاہتے تو ‘‘وِہ توڑتی پتھر’’ کی جگہ ‘‘وِہ توڑتا پتھر’’ کے عنوان سے کوئی نظم لکھ سکتے تھے جس میں کسی مرد مزدور کی حالتِ زار کا بیان کیا جا سکتا تھا۔ لیکن اس میں وہ جاذبیت نہ پائی جاتی جو‘‘وِہ توڑتی پتھر’’کے عنوان میں ہے۔وہ سماج اور معاشرے میں صنفِ نازک کی بیقدری اور بدحالی کی تصویر کشی کرنا چاہتے تھے جس کے لئے ‘‘وِہ توڑتی پتھر’’ کے عنوان سے کویتا لکھنا ضروری تھا۔پوری کویتا کا مرکز ایک مزدور صنفِ نازک ہے جو غربت اور افلاس کے ساتھ ساتھ سماج کی نا انصافی کا بھی شکار ہے۔
اس کویتا میں ہمیں دو کردارنظر آتے ہیں ایک بہ ذاتِ خود کوی کا ہے۔ اور دوسری وہ مزدور صنفِ نازک جو کویتا کا مرکزی کردار ہے۔کویتا اس طرح شروع ہوتی ہے۔
वह तोड़ती पत्थर
देखा मैंने इलाहाबाद के पथ पर —
वह तोड़ती पत्थर ।
نرالاؔ نے الہ آباد میں تپتی ہوئی زمین پر دہکتی ہوئی دھوپ میں ایک خوبصورت مزدور صنفِ نازک کو پتھر توڑنے کے عمل میں مصروف دیکھا تو ان کا دل بیقرار ہو اٹھا۔ ایک سچا اور اچھا کوی نہایت حساس ہوتا ہے وہ اپنے گردو پیش کے مناظر کو اپنی تخلیق میں سمیٹ کر اہلِ نظر کے حوالے کرتا ہے۔ یہاں بھی یہی عالم ہے کوی یہ منظر دیکھ کر بیچین و مضطرب ہو اُٹھتا ہے اور برجستہ اس کے ذہن پر کویتا اُترنے لگلگتی ہے ۔نرالاؔ کا احساس یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ ایک حسین صنفِ نازک کو مفلسی اور مزدوری کے عالم میں نہیں دیکھ سکتے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے یہ منظر دیکھا کہ الہ آباد میں تپتی ہوئی دوپہر میں ہاتھ میں ہتھوڑا لئے ایک صنفِ نازک پتھر توڑ رہی ہے ۔ ذرا ٹھہر کر غور کیا جائے تو واضح ہوگا کہ یہاں پتھر توڑنے کا عمل بھی بڑا معنی خیز ہے۔نرالاؔ پتھر کو علامت کے طور پر استعمال کر رہے ہیں جس سے مراد وہ صنفِ نازک ہے جسے حالات نے پتھر توڑنے پر مجبور کردیا ہے۔ اور وہ خود بھی پتھر کی طرح ہے جس پر وقت کے ہتھوڑے کی ضرب لگا تار پڑرہی ہے۔ پتھر توڑنا محاورہ بھی ہے جو مشکل عمل انجام دینے سے عبارت ہے۔ گویا کہ مزدور صنفِ نازک پتھر توڑنے کے عمل میں اپنے حالات اور مفلسی سے ایک قسم کا جہاد کر رہی ہے اور مشکلات کے آگے بھی ہمت و حوصلے کے ساتھ مستعد ہے۔یہاں الہ آ باد کا استعمال بھی خوب ہے کیوں کہ یہ کویتا پرگتی واد تحریک سے متاثر ہو کر لکھی گئی ہے اور اُس وقت الہ آباد پرگتی وادی وچار دھارا کا اہم مرکز تھا۔
कोई न छायादार
पेड़, वह जिसके तले बैठी हुई स्वीकार;
श्याम तन, भर बँधा यौवन,
صنفِ نازک پتھر توڑ رہی ہے لیکن وہاں کوئی چھایا دار پیڑ نہیں ہے جس کے نیچے وہ بیٹھ کر آرام کر سکے۔یہاں ان پنکتیوں میں نرالاؔ نے لفظ سویکار (स्वीकार) کا استعمال کیا ہے جس کا مطلب ہوتا ہے‘‘قبول کرنا‘‘جس سے پتا چلتا ہے کہ اس نازک ہستی نے کس طرح تمام تر مشکلات کو قبول کر لیا ہے۔‘‘شیام (श्याम) ‘‘ لفظ اس بات کی ترجمانی کرتا ہے کہ وہ کسی اونچے کُل یا خاندان سے نہیں بلکہ کسی پسماندہ طبقے سے تعلق رکھتی ہے‘‘भर बँधा यौवन ‘‘اس بات کی ترجمانی کرتا ہے کہ یہ ایک ایسی دوشیزہ ہے جس کی شادی نہیں ہوئی ہے جو صحت مند ہے،خوبصورت ہے پھر بھی وہ ان خصوصیات رکھنے کے باوجود اپنی آنکھوں کو جھکا کر اپنے کام میں مصروف ہے اس کو دنیا سے کچھ غرض نہیں اُسے تو اس کا کام عزیز ہے۔
गुरु हथौड़ा हाथ
करती बार बार प्रहार;
सामने तरु – मालिका, अट्टालिका, प्राकार ।
نرالاؔ ان پنکتیوں میں کہتے ہیں کہ اس کے سامنے گھنے سائے دار پیڑ ہیں اونچی اور عالی شان عمارتیں اور محل ہیں۔جہاں پُرسکون زندگی کی تمام تر چیزیں موجود ہیں اسے بھی کسی ایسے ہی محل کی زینت ہونا چاہئے تھا جہاں اس کو خوشیوں کے سائے ملتے۔لیکن اس کے برعکس وہ جلتی ہوئی دھوپ میں کام کرنے کے لئے مجبور ہے۔
وہ ان پنکتیوں میں پونجی وادی طبقے پرایک زبردست چوٹ لگا رہے ہیں کیوں کہ عالی شان محل اور اونچی عمارتیں(अट्टालिका)ان پونجی وادی لوگوں کی طرف اشارہ ہے جو سماج میں رہنے والے مفلسوں کا لہو چوس کر اپنی تجوریوں کو بھرتے ہیں۔ جبکہ مزدور طبقےسےتعلق رکھنے والی صنفِ نازک سماج میں نا برابری کی تقسیم کے خلاف احتجاج کی علامت ہے۔ یہاں نرالاؔ کویتا کے ذریعے جہاں پرگتی واد تحریک کی خوبصورت ترجمانی کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں وہیں وہ سماج کے کمزور طبقے کو اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کرنے پر بھی آمادہ کر رہے ہیں۔
اسی طرح جوشؔ اپنی نظم‘‘حسن اور مزدوری ’’ میں ایک دوشیزہ کو مرکزی کردار بنا کر پوری نظم کو تحریر کرتے ہیں
ایک دوشیزہ سڑک پر دھوپ میں ہے بے قرار
چوڑیاں بجتی ہیں کنکر کوٹنے میں باربار
چوڑیوں کے ساز میں یہ سوز ہے کیسا بھرا
آنکھ میں آنسو بنی جاتی ہے جس کی ہر صدا
گرد ہے رخسار پر زلفیں اٹی ہیں خاک میں
نازکی بل کھا رہی ہے دیدۂ غم ناک میں
ہو رہا ہے جذب مہر خونچکاں کے روبرو
کنکروں کی نبض میں اُٹھتی جوانی کا لہو
مندرجہ بالا بند کو دیکھیں کہ کس طرح انھوں نے ایک خوبصورت دوشیزہ کی مفلسی کے عالم میں مزدوری کرتے ہوئے اس کے حسن کی عکاسی کی ہے ۔جوشؔ کا خاصہ یہ ہے کہ وہ بھاری بھرکم الفاظ اور استعاروں اور تشبیہات کا استعمال کرتے ہوئے اپنی شعری فکر کو آگے بڑھاتے ہیں۔ان کے یہاں ایک قسم کی ثقالت پائی جاتی ہے۔وہ بہترین لفاظی جانتے ہیں مگر جب لفظوں کا خول ہٹا کر معنی تک پہنچا جاتا ہے تو اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے کتنی سادہ بات کس قدر پُر جوش انداز میں کہی ہے۔یہاں بھی جوشؔ کا وہی رنگ غالب ہے۔کہتے ہیں کہ ایک دوشیزہ جسے محلوں کی زینت ہونا چاہئے وہ غربت کی وجہ سے پتھر توڑ رہی۔اس کی چوڑیوں کی آواز میں ایک سوز سنائی دے رہا ہے جس میں اس کی مفلسی کی داستان ہے۔اُس کی آنکھ میں آنسو ہیں جن سے اُس کی غربت اور مجبوری صاف عیاں ہے۔اس کے رخسار گرد میں اٹے ہوئے ہیں اور زلفیں خاک آلود ہ ہیں۔اور اس کی جوانی کا لہو کنکرکوٹنے میں صرف ہو رہا ہے۔
اب پھر نرالاؔ کی کویتا دیکھیں توثابت ہوگا کہ دونوں فنکاروں کی فکر میں کس قدر یکسانیت ہے۔
चड़ रही थी धूप
गरमियों के दिन
दिवा का तमतमाता रूप;
उठी झुलसाती हुई लू
रुई ज्यों जलती हुई भू
गर्द चिनगी छा गयी
प्रायः हुई दुपहर,
वह तोड़ती पत्थर ।
گرمی کے موسم میں شدت کی دھوپ جب اپنا زوردکھاتی ہے توجسموں کو جھلساکر رکھ دیتی ہے اور اس کے ساتھ چلنے والی لو کا تھپیڑامزید قیامت خیز ہوتاہے۔اس شدیدگرمی کے ماحول میں وہ روئی جیسی نازک بدن مزدوری میں لگی ہوئی ہے۔یہاں دھوپ کو پریشانیوں کے استعارے کے طور پر بھی لیا جا سکتاہے۔ جو مزدور صنفِ نازک کی زندگی کی مصیبتوں کی عکاس ہے۔ یعنی کس طرح اس پر پریشانیوں کی دھوپ چھائی ہوئی ہے اور وہ پھر بھی ان مصیبتوں کو برداشت کر کے اپنے کام کو انجام دے رہی ہے۔
اسی طرح جوشؔ نے دھوپ میں کا م کر رہی دوشیزہ کا خاکہ کھینچا ہے۔
دھوپ میں لہرا رہی ہے کاکل عنبر سرشت
ہو رہا ہے کمسنی کا لوچ جزو سنگ و خشت
پی رہی ہے سرخ کرنیں مہر آتش بار کی
نرگسی آنکھوں کا رس مے چمپئی رخسار کی
غم کے بادل خاطرِ نازک پہ ہیں چھائے ہوئے
عارضِ رنگیں ہیں یا دو پھول مرجھائے ہوئے
چیتھڑوں میں دیدنی ہے روئے غمگینِ شباب
ابر کے آوارہ ٹکڑوں میں ہو جیسے ماہتاب
اف یہ ناداری میرے سینے سے اُٹھتا ہے دھواں
آہ اے افلاک کے مارے ہوئے ہندوستاں!
حسن ہو مجبور کنکر توڑنے کے واسطے
دست نازک اور پتھرتوڑنے کے واسطے
فکر سے جھک جائے وہ گردن تف اے لیل ونہار
جس میں ہونا چاہئے پھلوں کا اک ہلکا سا ہار
ان اشعار میں بھی جوشؔ اور نرالاؔ کی فکرمیں ایک تعلق قائم نظر آتا ہے۔ ان کے یہاں جہاں ایک جیسے احساسات اورنظریات نظر آتے ہیں وہیں دونوں ہی حسن پرست بھی ہیں۔ دونوں کے یہاں ایک احتجاجی لہجہ کارفرماء ہے۔ دونوں ہی سماج کے نچلے طبقے کے حامی نظر آتے ہیں اور دونوں ہی کی نگاہوں میں سرمایہ دارانہ نظام قابلِ مزمت ہے۔
देखते देखा, मुझे तो एक बार
उस भवन की ओर देखा छिन्न-तार
देखकर कोई नहीं
देखा मुझे उस दृष्टि से
जो मार खा रोयी नहीं
सजा सहज सितार,
सुनी मैंने वह नहीं जो थी सुनी झंकार ।
ان پنکتیوں میں نرالاؔ اپنے قاری کواسی احساس سے منسلک کرنا چاہتے ہیں جو پتھر توڑتی ہوئی صنفِ نازک کے دل پر طاری ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے وہ اس کا انٹرویو لے رہے ہیں اور اس کی روداد قلم بند کر رہے ہیں۔اُس نے جب کوی کی ہمدردی کو محسوس کیا تو پہلے اس کی نظر ان بلند عمارتوں کی طرف گئی کے کہیں اس کو کوئی دیکھ تو نہیں رہا۔جب اس کو یقین ہوگیا کہ کوئی اس کو دیکھ نہیں رہا ہے تب اس نے کوی کی طرف دیکھا اور ثابت کیا کہ وہ صبر و تحمل کا دامن دقتوں اور پریشانیوں میں گرفتار ہونے کے بعد بھی تھامے ہوئے ہے۔وہ صنفِ نازک ہے حسین و جمیل ہے سماج کو چاہئے تو یہ تھا کہ وہ اس کی قدر کرتا لیکن وہ نا قدری کا شکار ہے مگر یہ نا قدری اور پریشان حالی اُس کے عزم و حوصلے کو ختم نہیں کرسکتیں۔اگرچہ نظم کی نایکا نے کچھ زبان سے نہیں کہا لیکن اس کی حالتِ زار نے وہ سب بیان کردیا جس کی لفظوں میں بھی وضاحت ممکن نہیں۔
یہاں نرالاؔ کا اس طرف بھی اشارہ ہے کہ صرف یہ ہی ایک ایسی صنفِ نازک نہیں جو سماج کے ظلم کا شکار ہے بلکہ اس جیسی کتنی ہی صنفِ نازک اور بھی ہیں جو اپنی مفلسی کی وجہ سے سخت مصیبت میں مبتلا ہیں۔
एक छन के बाद वह काँपी सुघर,
दुलक माथे से गिरे सीकार,
लीन होते कर्म में फिर ज्यों कहा —
"मैं तोड़ती पत्थर"
جب نایکا کوی کو دیکھتی ہے توکچھ پل کے لئے کام روک دیتی ہے لیکن فوراً ہی وہ اس خیال سے کانپنے لگتی کہ کہیں اُسے کسی نے لمحہ بھرکے لئے کام سے غافل تو نہیں دیکھ لیا۔یہ سوچ کر اس کی پیشانی سے پسینہ ٹپکنے لگتا ہے۔پھر وہ اپنے کام میں مصروف ہو جاتی ہے اور صرف یہ کہتی ہے ‘‘ میں توڑتی پتھر’’۔ یعنی اس کے پاس ایک لمحہ کی بھی فرصت نہیں ہے جس میں وہ اپنی روداد بیان کر سکے۔
اسی طرح جوش ؔ اپنی نظم کے آخری اشعار میں ایک پتھر توڑنے والی دوشیزہ کا خوبصورت خاکہ اس انداز میں پیش کر رہے ہیں جیسے وہ خود اس دوشیزہ کو کام کرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔یہاں نرالاؔ اور جوش ؔ کی شعری صلاحیتیں اپنے بامِ عروج پر نظر آتی ہیں جس سے قاری متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
اس جبیں پر اور پسینہ ہو جھلکنے کے لیے
جو جبینِ ناز ہو افشاں چھڑکنے کے لیے
بھیک میں وہ ہاتھ اُٹھیں التجا کے واسطے
جن کو قدرت نے بنایا ہو حنا کے واسطے
نازکی سے جو اُٹھا سکتی نہ ہو کاجل کا بار
ان سبک پلکوں پہ بیٹھے راہ کا بوجھل غبار
مفلسی چھانٹے اسے قہر و غضب کے واسطے
جس کا مکھڑا ہو شبستانِ طرب کے واسطے
فرطِ خشکی سے وہ لب ترسیں تکلم کے لئے
جن کو قدرت نے تراشا ہو تبسم کے لئے
نازنینوں کا یہ عالم مادر ہند آہ آہ
کس کے جورِناروا نے کردیا تجھ کو تباہ؟
اے خدا ہندوستاں پر یہ نحوست تا کجا؟
آخر اس جنّت پہ دوزخ کی حکومت تاکجا؟
گردنِ حق پر خراشِ تیغِ باطل تا بہ کے؟
اہلِ دل کے واسطے طوق و سلاسل تابہ کے؟
سرزمینِ رنگ و بو پرعکسِ گلخن تاکجا
پاک سیتا کے لیے زندانِ راون تاکجا
دست نازک کو رسن سے اب چھڑانا چاہئے
اس کلائی میں تو کنگن جگمگانا چاہئے
المختصر نرالاؔ کی کویتا اور جوشؔ کی نظم میں یکساں منظر کشی ، ترجمانی اورفکری پرواز ہے جو سماج کی ستم ظریفی پرصاحبانِ دل کو متوجہ کرتی ہے۔ دونوں کی تخلیقات پڑھنے کے بعد احساس ہوتا ہے کہ دونوں ایک ہی صنفِ نازک کی منظر کشی کر رہے ہیں۔ صرف فرق اتنا ہے کہ ایک ہندی میں اپنی بات کہہ رہا ہے تو دوسرا اردو میں اپنے جذبات موزوں الفاظ کی صورت میں اہلِ نظر کے سامنے پیش کر رہا ہے۔