استاد نصرت فتح علی خان صاحب 13 اکتوبر 1948 کو فیصل آباد میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد جناب فتح علی خان صاحب اپنے وقت کے مشہور قوال تھے۔ موسیقی کے گھرانے میں آنکھ کھولنے کی وجہ سر اور راگنیاں آپ کے گھٹی میں پڑیں تھی۔ کم عمری میں ہی جناب فتح علی خان صاحب نے نصرت کو بطور گلوکار نامنظور کرتے ہوئے طبلہ سکھانا شروع کر دیا تھا کہ نصرت کی آواز اتنی اچھی نہیں کہ یہ کبھی لیڈ سنگر بن سکے گا ۔ بہرحال نصرت مرحوم کی والدہ کے احتجاج پر نصرت فتح علی کو موسیقی کی تعلیم دی گئی اور نصرت اپنے شوق ، لگن محنت اور صلاحیتوں کے با عث اُس مقام پر پہنچے کہ جس پر آج تک کوئی دوسرا قوال نہیں پہنچ سکا۔
نصرت کے فن کو پوری طرح سمجھنے کے لیئے کچھ بنیادی باتیں
قوالی کے بارے میں علم ہونا
قوالی اصل میں ہے کیا؟ اسلامی نقطہ نظر سے چشتیہ سلسلہ کا یہ طریق ہے کہ ایک خاص لے اور تال پر رقص کرنے سے انسان میں خالص پن آتا ہے، اور اگر انسان اس روحانی کلام میں ڈوب جائے تو پھر وہ کسی اور ہی دُنیا میں ہوتا ہے۔
ہمارے برِصغیر میں قوالی کے موجد امیر خسرو کو کہا جا سکتا ہے اور انہوں نے قوالی میں کئی نئی جہتیں متعارف کروائیں۔
آج کی قوال پارٹی میں عام طور پر ایک مرکزی گلوکار اور ایک یا دو ثانوی گلوکار ہوتے ہیں۔ ایک شاگرد گلوکار بھی ہمیشہ موجود ہوتا ہے۔ روائتی قوالی میں دو ہارمونیم ہوتے ہیں۔ایک طبلہ نواز اور کبھی کبھی ایک ڈھولی بھی شامل ہوتا ہے۔ پانچ یا سات کورس گانے والے اور تال دینے والے موجود ہوتے ہیں۔ مرکزی قوال الفاظ کی تکرار سے اور ایک ہی شعر کو مختلف انداز سے گا کر ایک تاثر قائم کرتا ہے اور لوگ بے خود ہو جاتے ہیں۔
نصرت فتح علی نے اپنے وقت کے مشہور قوالوں کی موجودگی میں اپنا ایک الگ انداز بنایا اور اس میں بے انتہا کامیابی حاصل کی، نصرت کے ووکل رینج کسی بھی انسان سے ذیادہ تھی، بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ کسی بھی ساز سے زیادہ تھی، آواز کو پلٹنے اور تاثر بدلنے میں مختلف ٹونز کا استعمال نصرت کا خاصہ تھی۔ نصرت کی قوالی سنتے ہوئے اکثر یہ محسوس ہوتا تھا کہ نصرت بے خودی میں گا رہے ہیں اور اپنے ہوش و حواس میں نہیں ہیں ۔ اس کا اثر ماحول پر بہت ہی ذیادہ ہوتا اور لوگ بھی اس بے خودی میں نصرت کے ساتھ شریک ہو جاتے۔ در اصل نصرت ایک سچے فنکار تھے۔ اگر آپ ان کی ویڈیوز یا قوالی کی ریکارڈنگزکو غور سے سنیے تو صاف محسوس ہو گا کہ یہ ایک فنکار مجمع میں ایک تاثر ابھارنے کے لیئے ایک جوش بھرنے کے لیئے بے خودی کا تاثر انتی کامیابی سے دے رہا ہے کہ اس پر حقیقت کا گماں ہوتا ہے۔
نصرت کی کئی قوالیاں ایسی ہیں کہ انسان کو بکھیر کر رکھ دیں۔ روح جسم کا ساتھ چھوڑ دے اور انسان اپنے ہی بدن سے نکل کر کسی دوسری دُنیا کی سیر کر آئے ۔
نصرت گینز بکس میں درج ہیں بطور قوال سنگر کیونکہ ان کے البمز کی تعداد 125 ہے جو کہ کسی بھی قوال کے سب سے زیادہ المبمز ہیں۔ نصرت کے ہاں صرف تعداد ہی نہیں ہے معیار کا بھی بہت خیال رکھا گیا ہے، نصرت کے مشہور گانوں کی تعداد بھی سینکڑوں ہزاورں میں بنتی ہے۔
نی میں جانا جوگی دے نال، آنکھ اُٹھی محبت نے انگڑائی لی، ہیرے نی رانجھا جوگی ہوگیا، پھروں ڈھونڈتا مےکدہ توبہ توبہ، پیار اکھیاں دے بوہے تے کھلو کے ، تم ایک گورکھ دھندہ ہو اور حق علی علی جیسی بے شمار قوالیاں نصرت کے اچھوتے پن کا ثبوت ہیں۔
غزل، پاپ ، کافی، بھجن، گیت، کلاسیکل یا نیم کلاسیکل نصرت نے جو بھی گیا بے مثال گایا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
16 اگست 1997 کو نصرت ہم سے ہمیشہ کے لیئے رخصت ہوئے ۔ مگر موسیقی کا جو خزانہ نصرت ہمارے لیئے چھوڑ گئے ہیں وہ اتنا ہے کہ انسان ساری زندگی بھی سنے تو بھی دل نہ بھرے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بشکریہ خالد محمود