ہم جتنی معلوم تاریخ کو جانتے ہیں، انسانوں کو نام دئے جاتے رہے ہیں اور ان سے پکارا جاتا رہا ہے۔ اقوامِ متحدہ میں بچوں کے متفقہ حقوق میں سے ایک اس کو نام دئے جانا ہے۔ لیکن نام کیسے ہو گا؟ اس کا طریقہ ایک نہیں۔
نام کے تجزئے اور تاریخ کا شعبہ علم Onomastics کہلاتا ہے۔ انسانوں کو نام دینے کا سٹرکچر وقت اور علاقے کے حساب سے بدلتا رہا ہے۔ کوئی یکساں سسٹم نہیں رہا۔ اس وقت پاکستان میں تقریباً تمام لوگوں کا پورا نام دو یا اس سے زیادہ ناموں پر مشتمل ہوتا ہے۔ مثلاً، “بشیر احمد” کو بشیر سے پکارا جاتا ہے لیکن اس کا سرنیم احمد بھی اس کے مکمل نام کا حصہ ہے۔
ایک نام والے لوگ ہمیں تاریخ میں بہت سے نظر آتے ہیں۔ جب یورپی امریکہ آئے تو مقامی آبادی میں ایک ہی نام دئے جانے کا رواج تھا۔ ماکٹیزوما، آٹاہوالپا، کانگاپول، ڈیریآنگین، گواما جو بادشاہ یا سردار تھے، ان کا کوئی دوسرا نام نہیں تھا۔ انیسویں صدی کی اپاچی جنگوں میں زیادہ تر چیف ایک نام والے تھے۔
جاپان میں اشرافیہ کا سرنیم ہوا کرتا تھا۔ عام لوگوں میں اس کو رکھنے کی روایت انیسویں صدی سے شروع ہوئی۔
یورپ میں سرنیم کی روایت بہت مختلف رہی ہے۔ کچھ علاقوں میں ہزاروں سال پرانی، کچھ میں حالیہ صدیوں میں۔ طریقے اپنے اپنے رہے ہیں۔
چین میں سرنیم کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ اس کو رکھنے کا طریقہ بدلتا رہا ہے۔ مثلاً، چین میں بڑے ہو کر ایک انگریزی نام اپنانے کا رواج نیا ہے (ایسا چینی زبان کے تلفظ کی وجہ سے ہے)۔
ہند میں سرنیم ولدیت، پیشے، جگہ یا ذات کو ظاہر کرتا تھا۔ مظہر رنگ والا، شیریں لاکڑا والا، فیقا گجر، اشوک گنگلی، کلیان بینرجی، نریندر مودی (مودی ویشیا ہیں اور تیل نکالنے والے تھے)۔ روایتی نظام میں بینرجی (برہمن) کی ذات مودی (تیلی) کی ذات سے بلند تھی۔ سکھ مذہب کا یہ ایک اہم نکتہ تھا۔ تمام مرد سنگھ کہلائے اور خواتین کور۔ یہ ذات کو فرد سے الگ کر دینے کے لئے تھا۔
عرب میں ایک نام رکھنے کا رواج رہا ہے۔ بن یا بنت میں والد کا نام یا پھر ابو یا امِّ کے آگے اولاد کا نام لگانے کا طریقہ عام رہا ہے۔
پیدائش کے بعد نام میں تبدیلی یا اضافے کی روایتیں بھی مختلف کلچرز میں رہی ہیں۔ عرفیت سے پکارے جانا یا اس کا نام میں اضافہ۔ “ندیم چھوٹو”، لقب اختیار کر لینا یا دے دئے جانا اس کی مثالیں ہیں۔ ان سب روایات میں بھی بہت تنوع ہے۔ شادی کے بعد خاتون کا نام بدلنے کی روایت کئی ممالک میں رائج رہی ہے۔ شادی کے بعد خاتون کے سرنئم کی تبدیلی کا تعلق بھی علاقے اور وقت سے ہے۔ عرب یا چین یا کئی دوسری جگہوں پر یہ روایت نہیں۔ اگر موجودہ پاکستان کے اکثر اس روایت کی تاریخ کو دیکھنا ہو تو یہ رواج کالونیل دور کے وقت کا ہے۔
جاپان میں کسی کے انتقال کے بعد اس کا نام تبدیل کئے جانے کی روایت ہے۔ مثلاً، جاپانی بادشاہ ساگا کا نام ان کی زندگی میں کامینو تھا۔ شوگن راج ختم کرنے والے میجی کا نام مٹسیہیٹو تھا۔ آج بھی مرنے کے بعد جاپانی نام کا انتخاب کرتے ہیں۔
ان مثالوں کو ضرورت سے زیادہ سادہ کر کے لکھا ہے لیکن یہ پس منظر لکھنے کا مطلب یہ ہے کہ کلچر کے سوالات کی طرح اس سوال کا کوئی ایک سادہ سا جواب نہیں۔