رات کو امریکی ایبٹ آباد آئے۔ کس طرح آئے؟ ہماری سرحدوں کے محافظ کہاں تھے؟ اتنا عرصہ اسامہ بن لادن کیسے چھپا رہا؟ یہ سب سوال ایک طرف رکھ دیتے ہیں اور اُس صبح کی بات کرتے ہیں جو اُس رات کے بعد طلوع ہوئی تھی۔
ایک ہنگامہ تھا، تہلکہ تھا، حیرتیں تھیں۔ الیکٹرانک میڈیا پر شعلے تھے، دھواں تھا، بھانت بھانت کی آوازیں تھیں۔ کالم نگار چینل پر چینل بدل رہا تھا۔ قرار نہیں آ رہا تھا۔ بنیادی انفارمیشن وہی تھی جو پہلے ہی سے موجود تھی! اب جو کچھ میڈیا پر ہو رہا تھا، وہ اندازوں پر مشتمل تھا۔ اندازے، مزید اندازے؛ تبصرے، مزید تبصرے۔
ایک چینل نے روک لیا۔ عوام کا ردِعمل پیش کیا جا رہا تھا۔ ٹی وی والا مختلف لوگوں کے سامنے مائک لے جاتا اور پوچھتا کہ آپ کا کیا خیال ہے؟ ان میں راہگیر تھے، دکاندار تھے، گاہک تھے۔ مولانا لوگ تھے، بے ریش افراد تھے۔ پڑھے لکھے تھے، نیم تعلیم یافتہ تھے، ان پڑھ تھے۔ جوابات اِس طرح کے تھے:
یہ امریکی سازش ہے۔
حکومت نے اسے خود ہی چھپایا ہوا تھا۔
اسامہ بن لادن اس مکان میں موجود ہی نہیں تھا، سب جھوٹ ہے۔
ایسا واقعہ سرے سے پیش ہی نہیں آیا۔
یہ امریکہ‘ بھارت اور اسرائیل کا پاکستان کے خلاف گٹھ جوڑ ہے۔
اسامہ بن لادن ہمارا ہیرو ہے، جو کچھ ہوا غلط ہوا۔
اسامہ زندہ ہے اور کہیں روپوش ہے۔
اسامہ افغانستان کے پہاڑوں میں چھپا ہوا ہے۔
اچانک ٹیلی ویژن والے کا مائک ایک سفید فام شخص کے سامنے آیا۔ کوئی غیر ملکی تھا۔ اُس نے جو کچھ انگریزی میں بتایا اُس کا مطلب تھا: ’’میرے پاس ابھی کوئی
Evidence
نہیں، اس لیے رائے نہیں دے سکتا‘‘!
یہ انٹرویو ختم ہو گئے۔ چینل بدل گیا۔ وہ دن گزر گیا۔ مگر ایک موازنہ ذہن پر ثبت ہو گیا جو مدھم ہونے میں برسوں بعد بھی نہیں آ رہا۔ ہمارا اندازِ فکر! اور اُن کا اندازِ فکر جو آگے بڑھ گئے! یہ اور بات کہ ہم ان کی سبقت تسلیم نہیں کرنا چاہتے!رائے دیتے وقت شہادت دیکھنی، ثبوت پر غور کرنا، صرف وہ بات نہ کہنی جو پسند ہو، یہ ہے وہ اندازِ فکر جو ہمیں ساری دنیا سے الگ کر رہا ہے۔ دنیا آنکھوں سے بقائمیء ہوش و حواس جو کچھ دیکھ رہی ہے، وہ ہمیں نظر نہیں آتا، اس لیے کہ ہم اسے دیکھنا نہیں چاہتے۔ اس کی مثال یوں ہے کہ آنکھیں بند کر کے، فیصلہ اگر کر چکے ہیں کہ کل عید منانی ہے تو آنکھیں کھولنے پر نفسیاتی حوالے سے دُور، افق سے کچھ اُوپر، چاند ضرور نظر آئے گا!
اِس اندازِ فکر، اس رویے کو تبدیل کرنے کے لیے کچھ سر پھرے کوشش کر رہے ہیں۔ ہدفِ ملامت انہیں خوب بنایا جا رہا ہے۔ کوئی امریکی ایجنٹ کہتا ہے۔ کوئی دشمن دین، کوئی کہتا ہے بِکے ہوئے ہیں، کوئی لبرل کہہ کر دل کی بھڑاس نکالتا ہے۔ مگر یہ سر پھرے اپنے کام میں مگن ہیں۔ لوگوں کو سوچنے کی،
evidence
دیکھنے کی اور انصاف کرنے کی تلقین کیے جا رہے ہیں۔ یاسر پیرزادہ بھی انہی سرپھروں میں سے ایک ہے۔ اس کی تازہ تصنیف ’’بیانیے کی جنگ‘‘ اسی اندازِ فکر کے خلاف ایک قلمی جہاد ہے۔ رَو کے مخالف بہنا آسان نہیں ہوتا۔ سچائی عام ہوتی تو جھگڑا ہی کیا تھا۔ ہجوم آنکھیں بند کر کے، ایک دوسرے کے پیچھے چلنے والوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ کوئی کوئی ہوتا ہے جو چیخ کر بتاتا ہے کہ غلط سمت جا رہے ہو، راستہ دوسرا ہے ۔
قرطاس و قلم سے تعلق یاسر کو ورثے میں ملا ہے مگر یہ ورثہ اس کے والد عطاء الحق قاسمی تک محدود نہیں۔ جدِّ امجد اور ان کے بزرگ علماء دین تھے۔ آج کی نسل کو یہ سن کر اور جان کر تعجب ہو گا کہ ایک زمانہ تھا جب علماء واقعی علما تھے۔ دین کا علم انہیں کیا سکھاتا تھا؟ لاجِک! سوچنے کا منطقی انداز!
Rational
اندازِ فکر!
Evidence
کے بغیر رائے نہ دینا! حوالے اور ثبوت کے بغیر فتویٰ دینے سے اجتناب کرنا اور اختلاف کرنے والے کو اُس کا حق دینا۔ یاسر پیرزادہ کی تازہ تصنیف بتاتی ہے کہ وہ اس ورثے کو نبھا رہا ہے۔ کتاب کا مرکزی موضوع دہشت گردی کے حوالے سے ہمارا عمومی رویہ ہے۔مثلاً ہم یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں دہشت گردی ڈرون حملوں کی وجہ سے شروع ہوئی۔ یاسر اعداد و شمار اور تاریخ و ارواقعات سے اس تاثر کی تردید کرتا ہے ۔
یاسر کے یہ مضامین ہمیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔ بنیادی نکتہ غور کرنے کا یہ ہے کہ ایک ملک میں فوج ایک ہی ہو گی۔ کسی نے کہا تھا کہ ہر ملک کو ایک فوج رکھنا ہی پڑتی ہے۔ اپنی نہیںتوکسی دوسرے ملک کی! ہمارے ہاں معاملہ اس کے الٹ جا رہا ہے۔
یوں تو ملک میں اس قدر اسلحہ ہے کہ لشکروں کے لشکر مسلح کیے جا سکتے ہیں مگر فوج کے علاوہ لشکر حقیقت میں بھی موجود ہیں۔ بعض گروہوں نے اپنے نام تبدیل کر لیے ہیں مگر عوام الناس کو ان کے پرانے یعنی اصل نام یاد ہیں۔
کسی بھی ایسے ملک میں امن قائم نہیں ہو سکتا جہاں قومی فوج کے علاوہ بھی مسلح گروہ موجود ہوں! خلفائِ راشدین کے زمانے میں بھی یہ ناممکن تھا کہ کوئی گروہ اٹھے اور اپنی طرف سے جہاد کا کوئی محاذ کھول لے۔ ڈیگال کا فرانس کے بارے میں دلچسپ قول ہے کہ اُس ملک کو آپ کیسے چلا سکتے ہیں جس میں 246اقسام صرف پنیر کی ہوں! بالکل اسی طرح اُس ملک میں امن کیسے قائم ہو سکتا ہے جہاں نجی لشکروں کی بھر مار ہو۔ ملک وہی پھل پھول سکتے ہیں ہیں جن میں ایک حکومت ہو ایک فوج ہو‘ ایک پارلیمنٹ ہو اور ایک عدلیہ ہو! حکومت قوم کی توقعات پر پوری نہ اترے تو اس کا حل یہ نہیں کہ ایک متوازی حکومت قائم کر لی جائے۔ اسی حکومت کو ‘ اُسی بیورو کریسی کو‘ اُسی پولیس کو درست کرنا ہو گا۔ جن ملکوں نے دوسرے ملکوں سے شکست کھائی انہوں نے بھی یہ نہیں کہا کہ ایک متوازی فوج بنالیں جو دشمن کا مقابلہ کرے۔ ہاں!سزائیں دی جاتی ہیں !تطہیر کی جاتی ہیں۔
ترائن کی جنگ میں شکست ہوئی تو محمد غوری نے شکست خوردہ کمانڈوں کے مونہہ پر تو بڑے باندھ دیے جو گھوڑوں کے مونہہ پر باندھے جاتے ہیں مگر فوج وہی رہی! ہم اپنی پارلیمنٹ سے مطمئن نہیں! ہمارے عوامی نمائندوں میں سے کچھ ایسے ہیں جو ٹیکس نہیں ادا کرتے‘ گوشوارے غلط پیش کرتے ہیں۔ کچھ مجرموں کی پشت پناہی کرتے ہیں۔ کچھ کے ڈیرے مفروروں کو پناہ دیتے ہیں۔ کچھ تعلیم یافتہ تک نہیں‘ مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم شریف‘ قانون پسند اور اعلیٰ تعلیم یافتہ پاکستانیوں پر مشتمل ایک متوازی پارلیمنٹ بنا لیں! عدلیہ میں خامیاں ہیں تو وہ دور کرنا ہوں گی! متوازی عدالتیں! خواہ انہیں جو نام بھی دیا جائے‘ انارکی کو جنم دیں گی! آخر کسی نجی عدالت یا دارالقضا کو مبینہ طور پر سمن جاری کرنے اور فون کر کے لوگوں کو طلب کرنے کا حق کیسے دیا جا سکتا ہے؟ اگر ہر مکتب فکر‘ ہر ہر فرقہ اپنی الگ عدالتیں یا ’’مصالحتی پنچایتیں‘‘ قائم کرنا شروع کر دے تو معاملہ کہاں جا پہنچے گا؟ بجائے اس کے کہ پہلے سے قائم پنچایتیں جو چھ چھ سال کی بچیوں کے نکاح ستر ستر سال کے بوڑھوں سے کرتی پھرتی ہیں‘ ختم کی جائیں‘ مزید متوازی نظام کھڑے کیے جا رہے ہیں۔ ملک میں وفاقی شرعی عدالت پہلے سے موجود ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کام کر رہی ہے۔ پارلیمنٹ میں علماء کی کثیر تعداد تشریف فرما ہے جو ہر مسئلے پر شرعی نقطہ نظر بے خوفی سے واضح کر رہی ہے!
پانی نکلنا شروع ہو تو شاید آنکھ میں سرمہ ڈالنے والی سلائی سے بھی بند ہو جائے مگر جب پتلی دھار‘ چشمہ بن جائے‘ جب چشمہ ندی کی اور ندی دریا کی شکل اختیار کر جائے تو پھر ہاتھی کے لیے بھی گزرنا مشکل ہو جائے گا!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“