’’سرخ سیاست‘‘
پاکستان میں بائیں بازو کی سیاست کی تاریخ برصغیر میں غدر پارٹی کے زمانے سے جا ملتی ہے۔ 1947ء کی آزادی کی تحریک کو جہاں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا نے تسلیم کیا، وہیں سابق سوویت یونین نے پاکستان کے قیام کی حمایت کی۔ 1947ء کے بعد پاکستان میں بائیں بازو کی سیاست اتارچڑھائو کے ساتھ اپنا وجود برقرار رکھتی نظر آتی ہے۔ سرد جنگ کے آغاز نے پاکستان میں بائیں بازو کی سیاست کرنے والوں کے خلاف گھیرا تنگ کرنا شروع کردیا۔ 1966-67ء کی عوامی تحریک جس کی قیادت ذوالفقار علی بھٹو نے کی، درحقیقت برصغیر میں بائیں بازو کی سیاسی تاریخ سے جا ملتی ہے۔ یہ تحریک طلبا اور مزدوروں کی تحریک تھی، اسی کے بطن سے پاکستان پیپلزپارٹی نے جنم لیا جوکہ مین سٹریم کی ایک پاپولر بائیں بازو کی جماعت بن کر ابھری۔ اسے ہم پاکستان میں بائیں بازو کی سیاست کی معراج قرار دے سکتے ہیں۔ پاکستان پیپلزپارٹی اور ذوالفقار علی بھٹو کی مقبولیت بائیں بازو کی فکر کی بنیاد پر ہوئی۔ سوشلزم ایک مقبول نعرے کے طور پر مقبولِ عام ہوا۔ لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا، اس سیاست کا وجود محدود ہوتا چلا گیا۔ آج ہمارے ہاں بائیں بازو کی سیاست ایک انہونی بات ہے۔ مگر اہم بات یہ ہے کہ اس سیاست نے پاکستان کی سیاست، سماج، ثقافت اور ریاست پر اپنے اثرات مرتب کیے۔ اس سیاست، جسے میں سرخ سیاست قرار دیتا ہوں، کے کئی پہلو ہیں۔ مین سٹریم کی سیاست، زیرزمین سیاست اور دوسری جماعتوں کے اندر داخل (Entryism) ہوکر اپنے سیاسی افکار کی کامیابی کی جدوجہد کرنا شامل ہے۔ اس پر کم ہی مواد دستیاب ہے، اس لیے اس حوالے سے ایک کتاب عام قارئین کے لیے بہت اہمیت رکھتی ہے۔ حال میں پاکستان کے ایک معروف ترقی پسند دانشور جناب عبداللہ ملک مرحوم کے بھائی جناب عبدالرئوف ملک نے ایک آپ بیتی بہ عنوان ’’سرخ سیاست۔ زیست کے چند کٹے پھٹے اوراق‘‘ کے نام سے شائع کی ہے جو اس سیاست کے چند مخفی ابواب پر روشنی ڈالتی ہے۔
’’سرخ سیاست‘‘ ایک ایسے دانشور کی کتاب ہے جو پچھلے ستر سالوں سے اس سیاسی عمل کا باقاعدہ حصہ رہا ہے۔ رئوف ملک صاحب، پاکستان میں بائیں بازو کے اہم ترین اور بانی رہنما سجاد ظہیر مرحوم کے نوجوان ساتھیوں کی حیثیت سے اُن کے ساتھ رہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ انہی افکار کی بنیاد پر قائداعظم محمد علی جناح ؒ کے ہمراہ بھی رہے اور اس کتاب میں اُن کی ایک نایاب ترین تصویر موجود ہے جس میں وہ 1945-46ء میں ورکنگ کمیٹی پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے طالب علم رہنما کی حیثیت سے بحیثیت جوائنٹ سیکریٹری قائداعظم محمد علی جناحؒ کے ہمراہ دیگر طالب علم رہنمائوں کے ہمراہ کھڑے ہیں جو اس بات کی ایک اہم دلیل ہے کہ پاکستان کے بائیں بازو کے لوگ کس طرح عوام کے ساتھ جدوجہد کرتے اپنا سیاسی کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ جناب رئوف ملک صاحب پاکستان کی ترقی پسند تحریک کے ایک ایسے منفرد کردار ہیں جنہوں نے عملی سیاسی کارکن کے ساتھ ساتھ پاکستان میں دہائیوں ترقی پسند اشاعت کاری کرکے اس سیاسی عمل میں اپنا حصہ ڈالا۔ اُن کا ادارہ پیپلز پبلشنگ ہائوس، پاکستان کی ترقی پسند سیاست کے اہم کردار کے طور پر اپنا وجود برقرار رکھتے ہوئے حصہ ڈالتا رہا۔
’’سرخ سیاست‘‘ ایک دلچسپ اور نہایت معلوماتی کتاب ہے۔ وہ اپنی سوانح عمری جوکہ درحقیقت پاکستان کے بائیں بازو کی سوانح عمری ہے، میں لکھتے ہیں:’’زندگی کی بیتی تقریباً نو(9) دہائیوں کے تجربات و مشاہدات کے تمام احوال لکھنے کا خیال مجھے اپنے برطانوی دوست، سکول آف ایشن اینڈ افریقن سٹڈیز (SOAAS) کے پروفیسر، رالف رسل کی سوانح پڑھنے سے آیا۔ اس باکمال کتاب کا نام Findings