کتنے ہی اقلیم دیکھے اور انکے رنگ رنگ کے بلد۔ ہر ایک کا سرما نرالا ہی جلوہ لئے ہوئے تھا۔ میں آج تک نہیں بھول پایا۔ دسمبر کی ایک رات تھی اور میں تاشقند میں تھا۔ برفباری ختم ہونے کے تھوڑی دیر بعد چاند نکلا تھا۔ میں نے دو سال کی پیلالا کو اٹھایا ہوا تھا اور شاہراہ پر چلتا، سرائے کی طرف واپس جا رہا تھا۔ روس سے آئے ہوئے ولایتی درختوں کی شاخوں پر برف یوں لگ رہی تھی جیسے آسمان سے کسی طاقت ور بازو نے ہر طرف چاندی چھڑک دی ہو۔
شبیں تھیں اطلس کی، دن تھے چاندی کے تار جیسے
بہشت اْترا ہوا تھا جیچوں کے پار جیسے
میں نے بحرِ روم کے ساحلوں پر ناپولی کا سرما بھی دیکھا ہے اور سوادِ روم کا بھی۔ بارشوںاور دھند میں لپٹی ہوئی اداسی لیکن زندگی اسی تیز رفتاری سے بھاگتی ہوئی! ہسپانیہ کے دلکش، سحر طاری کر دینے والے شہر بار سلونا کا سرما بھی دیکھا۔ شہر کے وسط سے گزرتی ہوئی شاہراہ جسے رم لاس کہتے ہیں اور جس پر صرف پیدل چلا جاتا ہے۔ بحرِ مراد کے کنارے بیٹھ کر اْس پار سے نظر آنیوالے اسرائیل کا سرما بھی دیکھا۔ خوں رنگ اور سفاّک!
کتنے ہی اقلیم دیکھے اور انکے رنگ رنگ کے شہر۔ ہر ایک کا سرما اپنا ہی رنگ لئے ہوئے تھا۔ لیکن سرما جو دل گیر اداسی پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں ہر طرف بکھیرتا ہے اسکی کوئی مثال کہیں نہیں دیکھی۔ شاہراہوں کے کناروں پر، پارکوں اور باغوں میں، گرین ایریا میں، ہر طرف سرخ پتوں والے درخت۔ جو خزاں زدہ ٹنڈ منڈ درختوں کے درمیان کھڑے ہیں اور دیکھنے والے کی نظر میں اپنی سرخی اتار دیتے ہیں۔ ان درختوں کے پتوں کا رنگ لہو جیسا ہے۔ سرخ لیکن یہ سرخی حنا کی نہیں ہے، اْس خون کی ہے جو ہر طرف بہہ رہا ہے!
سرما میں اسلام آباد ہر طرف اْداسی بکھیرتا ہے، ایسی اداسی جس کا کوئی علاج نہیں، ایسا زہر جس کا کوئی تریاک نہیں۔ دوپہر کی دھوپ میں تھوڑی دیر کیلئے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے تمازت سے آرام پہنچانے والی یہ دھوپ امن کی پیغام بر ہے لیکن جلد ہی سائے لمبے ہو جاتے ہیں۔ دھوپ ڈھلنے لگتی ہے۔ اور پھر کچھ ہی دیر میں سرد ہوا، بڑھتا ہوا اندھیرا اور ہر طرف لگے ہوئے ناکے اس شہر کو مقتل بنا دیتے ہیں اور درختوں کے سرخ پتے وہ دہشت گرد لگتے ہیں جن کی پرورش کرنیوالے آج قیمتی سوٹ پہنے پردۂ سیمیں پر قوم کو اپنی مسکراہٹیں دکھاتے ہیں اور دنیا بھر کے موضوعات پر خیال فرمائیاں کر کے ہر وقت ’’اِن ‘‘ رہنے میں مصروف ہوتے ہیں!۔
یہ شہر کتنا عجیب ہے جو بنا تو سرکاری ملازموں کیلئے تھا لیکن آج اس میں سرکاری ملازم بے گھر اور در بدر ہیں۔ ان سرکاری ملازموں میں قصر ہائے شاہی کے وہ بلند مرتبہ داروغے شامل نہیں جو گذشتہ حکومتوں میں آمروں کے گھٹنوں پر بیٹھے رہے، اپنے رومالوں سے آمروں کی مونچھوں پر لگی لسی صاف کرتے رہے اور آج مارگلہ روڈ سے لیکر ایف سکس تھری تک اور آئی ایٹ سے لیکر ایف ایٹ تک پھیلے ہوئے محلات میں متمکن ہیں کبھی اسلام آباد کے ماحول کا درد انہیں شاہراہوں پر لے آتا ہے اور کبھی مرحوم اقتدار کے خواب انہیں اخبارات کے صفحے کالے کرنے پر اْکساتے ہیں۔
یہ شہر جو سرکاری ملازموں کیلئے بنا تھا، آج سیاست دانوں اور جرنیلوں کے محلات سے بھرا ہوا عجائب گھر بن گیا ہے۔ وہ فہرست کب شائع ہوگی جس میں ان محلات کے طول و عرض میں سجے ہوئے نوادرات، ان میں رکھے ہوئے بیش بہا فرنیچر اور ظروف، اور ان میں برپا سرگرمیوں کی تفصیل ننگے بھوکے عوام کو بتائی جائے گی! یہ شہر جو سرکاری ملازموں کیلئے بنا تھا، آج اس میں سرکاری ملازم کئی کئی گھنٹے بسوں میں سفر کرکے پہنچتے ہیں‘ اس لئے کہ زمین اس شہر میں چار کروڑ روپے کنال ہے اور وہ ملتی ان خواص کو ہے جن کے پاس پہلے ہی محلات کی کمی نہیں۔
اس شہر میں ہر سیاستدان نے محل بنایا ہے۔ ایک سیاستدان نے چار سو کنال کا گھر تعمیر کیا ہے۔ سنا ہے اس میں کتے زیادہ اور ملازم کم ہیں۔ بھارت سے آئے ہوئے کھلاڑی (یا شاید فلمی ستارے) اس گھر کو دیکھ کر بہت متاثر ہوئے تھے۔اس شہر کی بھول بھلیاں اتنی پیچ دار ہیں اور اسکی شاہراہیں اتنی زِگ زیگ ہیں کہ اربوں کھربوں کے معاملات کرنے والے یہاں آ کر محفوظ ہوجاتے ہیں۔ یہاں میڈیا کے وہ فرشتے بھی اپنے نورانی پروں کیساتھ جلوہ گری کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ جنکے بارے میں خبریں ملتی ہیں کہ فلاں کے اتنے لاکھ ڈالر باہر کے بینکوں میں محفوظ ہیں اور فلاں کی پروازثریا تک ہے۔ کیا شہر ہے یہ بھی جس میں سی ڈی اے پر حکومت کرنے والے یہ شاطر اپنی اگلی منزلوں پر پہنچ چکے ہیں اور مزید آگے جانے کیلئے کمر پر بندھی ہوئی پیٹیوں کو کس رہے ہیں اور اسلام آباد کے ناکوں پر دھکے کھاتے عوام جہاں تھے، وہیں کھڑے ہیں!۔
میں اس شہر کو جب بھی دیکھتا ہوں مجھے وہ پاکستانی دوست یاد آ جاتا ہے جس نے لندن میں مجھے اپنے گھر کھانے پر بلایا تھا۔ اسکا گھر، گھروں کی ایک لمبی قطار میں واقع تھا جس میں سارے گھر ایک جیسے تھے۔ ان گھروں میں تین تین کمرے تھے۔ جن میں مشکل سے دو دو چارپائیاں بچھائی جاسکتی تھیں۔ جس ڈرائنگ روم میں ہم بیٹھے تھے، وہاں سے گزرنا بھی مشکل تھا۔ میرے دوست نے بتایا کہ گھروں کی اسی قطار میں خاکروب بھی رہتا ہے اور پارلیمنٹ کا ممبر بھی اور سارے گھر ایک جیسے ہیں اور اس شہر کو دیکھئے اور اس میں پارلیمنٹ کے ارکان کی رہائش گاہوں اور مراعات کو دیکھئے اور وزرا کی رہائشی کالونی دیکھئے اور بلوچستان ہاؤس، پنجاب ہاؤس اور دوسرے ہاؤسز کو دیکھئے، اور انکے روزانہ کے اخراجات کو دیکھئے۔ اور ان گاڑیوں کے سائز دیکھئے جن پر سوار ہو کر عوامی نمائندے اپنا فرضِ منصبی ادا کرنے آتے ہیں اور پھر وہ قطاریں دیکھیے جن میں ٹیکس ادا کرنے والے بوڑھے اور عورتیں گھنٹوں نہیں پہروں کھڑی ہو کر دو کلو آٹے اور ایک کلو چینی کیلئے بھکاریوں کی طرح ہاتھ پھیلائے رکھتی ہیں۔ اپنے ہی وطن میں جیب سے قیمت ادا کرکے بھکاری! زکام کا علاج بیرون ملک سے کروا کر لاکھوں ڈالر خرچ کرنے والے وزیر اور عوامی نمائندے اسی شہر ہی میں گھومتے پھرتے ہیں! اور ضلعی شہروں میں جعلی دواؤں کی فیکٹریاں رات دن چلتی ہیں اور مگرمچھ دریا میں ہوں یا سمندر میں، یا دارالحکومت میں کبھی پکڑے نہیں جاتے!۔
مجھے برسوں پہلے پڑھی ہوئی وہ خبر آج تک نہیں بھولتی جس میں بتایا گیا تھا کہ ہماری شمالی ’’آزاد‘‘ ریاست کے پارسا سربراہ کے بیرون ملک دانتوں کے علاج پر اٹھارہ لاکھ روپے خرچ ہوئے اور یہ اٹھارہ لاکھ حکومت نے ادا کئے۔ یہ اٹھارہ لاکھ اس وقت کے اٹھارہ لاکھ تھے جب لاکھ آج کا کروڑ تھا۔ اب تو بیٹا چھوڑ کر پوتا بھی سیاست میں آنے کی تیاری کر رہا ہے۔سیاست کیسی نفع آور صنعت ہے جس میں آمدنی ہی آمدنی ہے، کبھی کواپریٹو کمپنیوں کے ذریعے آمدنی! کبھی این آر او کے ذریعے آمدنی، کبھی معاف کرائے ہوئے قرضوں کے ذریعے آمدنی، کبھی ملازموں کے شناختی کارڈوں پر لئے گئے قرضوں کی آمدنی، کبھی قرض اتارو ملک سنوارو کی آمدنی، کبھی زلزلوں پر باہر سے آئی ہوئی امداد کے ذریعے آمدنی اور پھر یہ آمدنی کبھی جرمنی کے دوروں میں دکھائی دیتی ہے اور کبھی دبئی جدہ لندن اور نیویارک کی جائیدادوں کی صورت میں جلوہ فرما ہوتی ہے!
سرما میں اسلام آباد کی شاہراہوں کے کناروں پر، اور پارکوں میں، درختوں کے سرخ لہو رنگ پتیوں کو کوئی غور سے دیکھے تو سہی۔ سب کچھ نظر آنے لگتا ہے۔