چھوٹا سا قصباتی ریلوے سٹیشن شام ہوتے ہی ویران ہو گیا ہے۔شدید سردی کے عالم میں ہر طرف ہو کا عالم ہے۔دور شاہراہ پر سے گزرتی ہوئی کوئی لاری یاٹرک کبھی کبھی اس خاموشی کو رفع کر نے کا باعث بن جاتے ہیں۔ اسٹیشن ماسٹر جو ٹکٹ بھی خود فروخت کرتا ہے اپنے چھوٹے سے دفتر نماٹکٹ گھر میں موٹا ساا ونی کوٹ لپیٹے ایک خالی کاغز پر کچی پنسل سے لائینیں کھینچ رہا ہے۔ ریلوے کے دو ملازم اسٹیشن سے ملحقہ اپنے کھنڈر نما کوارٹروں میں جا چکے ہیں۔ دسمبر کی یخ بستہ ہوائیں خزاں رسیدہ خشک پتوں کو ادھر ادھر دوڑا رہی ہیں۔ چاروں طرف گھپ اندھیرا ہے۔دور سامنے سکیسر کی پہاڑیوں پر روشنی کا ایک ننھاسا دائرہ ٹمٹما رہا ہے، جیسے سینکڑوں جگنو ایک ہی مقام پرجمع ہوں۔ یہ روشنی تیس چالیس کلو میٹر دورچھوٹی سی آبادی کے گھروں میں جلنے والی بتیوں کی ہے۔
ریلوے سٹیشن چاروں طرف سے کھلا ہوا ہے۔سامنے تیسرے ٹریک پر نمک سے لدی ایک بوگی کئی دنوں سے چپ چاپ کھڑی ہے۔ ایسی ہی نمک بھری بوگیاں سالوں پہلے بھی موجود ہوتی تھیں جب میں ابو کے ساتھ لاہور یا فیصل آباد جانے والے رشتہ داروں کو اسٹیشن چھوڑنے آتا تھا۔گاڑی کے آتے ہی ایک عجیب سا شور بلند ہوتا ۔ چاروں طرف خاموش پری چپ کی چادر اوڑھے گہری نیند سو رہی ہوتی۔ اور اس کے درمیان میں چھوٹے سے پلیٹ فارم پر انتہائی مختصر وقت کے لیئے رونق جنم لیتی۔ اس رونق کا خاتمہ گارڈ اور گاڑی کی روانگی کی وسل سے ہو جاتا۔گاڑی اپنے ساتھ سب کچھ لے جاتی۔شوربھی، روشنی بھی اور لوگ بھی۔ خاموشی، اندھیرا اور سکوت ہمیں دے جاتی۔ دور اندھیروں میں غائب ہوتی ہوئی ٹرین اور اس کی آخری بوگی کی بیک سائڈ پرٹم ٹم کرتی سرخ بتی انتہائی پر اسرار معلوم ہوتی۔ رات کی وحشت ناک خاموشی ، تاریکی اور ویرانگی میں آہستہ آہستہ گم ہوتی ہوئی سرخ بتی میرے کمسن دل و دماغ میں یہ تاثرچھوڑ جاتی کہ اس آخری ڈبے میں خون ہوا ہے۔ اور وہ خون لائٹ کے شیشوں میں سے باہر نکلنے کی کوشش کر رہا ہے۔