محترمہ ثریا حیا صاحبہ کا شمار ایسی شاعرات میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنا مقصد حیات جاننے کے لیے اپنی ذات کی تلاش شروع کردی اور اس تلاش کےلئے انہوں نے شاعری کا راستہ ڈھونڈ نکالا ان کا کہنا ہے کہ شاعری اپنی ذات کو تلاش کرنے کا بہترین ذریعہ ہے ۔ ثریا صاحبہ کی شاعری کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ نامسائداور مشکل حالات سے کبھی نہیں گھبرائیں، نہ مایوس ہوئیں اور نہ ہی کبھی حوصلہ ہارا بلکہ ہر طرح کے مشکل حالات کا صبر اور حوصلے سے مقابلہ کیا ۔ انہوں نے اپنی شاعری میں پورے معاشرے کی ترجمانی کی ہے اور مشکلات کا شکار انسانوں کو صبر اور حوصلے کی تلقین کرتےہوئے اندھیروں اور تاریکیوں کے مٹ جانے اور ان کی جگہ صبح، روشنی اور اجالوں کی آمد کی قوی امید دلانے کی کوشش کی ہے ۔ ان کی شاعری کا سب سے بڑا اور روشن پہلو یہ ہے کہ وہ کبھی اور کہیں بھی مایوسی اور ناامیدی کا شکار نہیں ہوئی ہیں یہی پیغام انہوں نے عام کر کے محروم و محکوم اور مظلوم طبقات تک پہنچانے کی کوشش کی ہے ۔
ثریا حیا صاحبہ 26 جون 1946 کو دہلی میں ایک دیندار و مذہبی گھرانے میں ایک علمی و مذہبی شخصیت محمد کامل دہلوی کے گھر میں پیدا ہوئیں ۔ان کے والد صاحب کا شمار دہلی کے شرفا میں ہوتا تھا ۔ وہ 7 بہن بھائی ہیں جن میں سے 4 بھائی اور 3 بہنیں ہیں ۔ ان کے نانا احمد بیگ صاحب بھی ایک نامور علمی اور سماجی شخصیت تھے جن کا شمار دہلی کی جامع مسجد کے علاقہ کی نہایت معزز اور بااثر شخصیات میں ہوتا تھا جبکہ ان کے تایا اخلاق احمد دہلوی ایک بڑی علمی اور ادبی شخصیت تھے ان کی 2تصانیف ہیں جن میں ایک " اور پھر بیاں اپنا " اور دوسری تصنیف " یادوں کا سفر " یہ دونوں کتابیں بہت مقبول ہوئیں وہ کافی عرصہ ریڈیو پاکستان لاہور کے چیف انائونسر بھی رہے ہیں ثریا صاحبہ کو ان کی بھی خصوصی سرپرستی حاصل رہی ہے ۔ جس دور میں تعلیم عام نہیں تھی اس دور میں ثریا صاحبہ کی والدہ میٹرک پاس خاتون تھیں اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کا خاندان ایک قابل فخر علمی اور مثالی حیثیت کا حامل رہا ہے ۔ ثریا صاحبہ کا اصل نام ثریا پروین اور قلمی نام ثریا حیا ہے ۔ قیام پاکستان کے بعد ان کے والدین سب کچھ دہلی بھارت میں چھوڑ کر پاکستان ہجرت کر آئے اور کراچی میں سکونت اختیار کر لی ۔ والد صاحب نے ثریا صاحبہ کو کراچی کے بہترین مشینری اسکول میں داخل کرایا ۔ 1961 میں اپوا اسکول سے میٹرک اور اپوا کالج سے گریجویشن جبکہ 1967 میں کراچی یونیورسٹی سے سیاسیات میں ایم اے کیا۔ وہ شروع سے ہی امتیازی نمبروں میں تعلیمی مدارج طئے کرتی گئیں ۔ گھر میں علمی ماحول اور کتابوں کے ذخیرے کے باعث ان کے مطالعے سے ان کو شاعری سے دلچسپی پیدا ہو گئی۔ دوران تعلیم وہ مضمون نویسی اور بیت بازی کے مقابلوں اور ادبی سرگرمیوں میں بھرپور حصہ لیتی رہیں اور کامیابیاں سمیٹتی رہیں ۔ انہوں نے ایک مشہور شاعر کے ایک کلام کی پیروڈی کی جس کو بہت پسند کیا گیا یہیں سے حوصلہ پا کر انہیں نے شاعری کا آغاز کر دیا ۔ والد صاحب نے ان کی حوصلہ افزائی کی ۔ 25 سال کی عمر میں 1971 میں والدین کی پسند اور مرضی پر ان کی شادی ایک دیندار و مذہبی شخصیت کے مالک نسیم الدین قریشی صاحب ہوئی ۔ شادی کے فوری بعد وہ سینٹ جوزف کالج میں لیکچرر تعینات ہو گئیں ۔
شادی کے ایک سال بعد یعنی 1976 میں اپنے خاوند محترم کے ہمراہ سعودیہ منتقل ہو گئیں جہاں وہ ایک سیکنڈری اسکول میں معلمہ تعینات ہودرس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہو گئیں ۔ 9 سال بعد 1985 میں وطن واپسی ہوئی۔ وہ اس دوران مختلف تعلیمی اداروں میں اپنی خدمات سر انجام دیتی رہیں جبکہ اخبارات و رسائل و جرائد اور ماہناموں جنگ، اخبار جہاں، نیرنگ خیال، تخلیق، حریت، نوائے وقت لیل و نہار اور نگار وغیرہ میں ان کی شاعری چھپتی رہی ۔ ان کی خوبصورت شاعری کے باعث نیرنگ خیال کے 20 سالہ غزل نمبر کی خصوصی اشاعت میں ان کی غزل بھی شامل کی گئی جو ایک اعزاز ہے جبکہ سلطانہ مہر نے ان کو اپنے آج کی شاعرات میں شامل کیا ۔ شاعری میں سلطانہ مہر، وحیدہ نسیم، سعیدہ عروج، مظہر باسط عظیم اور محسن بھوپالی ان کی حوصلہ افزائی کراتے رہے اور شعری مجموعے کی اشاعت کے لیے ان کو اپنے مخلصانہ مشورے دیتے رہے ۔ نارووال کے ایک ٹریننگ کالج میں تعیناتی کے دوران اس کالج کے سربراہ ایک علمی اور ادبی شخصیت ڈاکٹر محمود احمد کاوش نے ان کی شاعری پڑھ کر بہت متاثر ہوئے اور ثریا صاحبہ کو اپنا شعری مجموعہ شایع کرانے کا مشورہ دیا اور وہی ان کی کتاب کی اشاعت کے محرک بنے جبکہ ثریا حیا صاحبہ کی بڑی بیٹی فائقہ ارم نے ان کی ترتیب و اشاعت میں بہت محنت اور معاونت کی ۔ کتاب کی اشاعت کے بعد اکتوبر 2019 میں 160 صفحات پر مشتمل ان کے شعری مجموعہ "کشت جاں "کی تقریب رونمائی کراچی پریس کلب میں ممتاز ادیب و شاعر، صحافی اور کالم نگار محمود شام کے زیر صدارت منعقد ہوئی جس کے مہمان خصوصی ممتاز شاعر منظر ایوبی اور معروف شاعر، نقاد اور افسانہ نگار شفیق احمد تھے۔ ماشااللہ ثریا حیا صاحبہ 5 بیٹیوں اور ایک بیٹے کی والدہ محترمہ ہیں ۔ ثریا صاحبہ کے خاوند محترم 2014 میں انتقال کر گئے جن کا صدمہ ایک گہرے اور ہرے زخم کی مانند آج بھی تازہ ہے۔ اپنے جیون ساتھی کے بغیر وہ خود کو دنیا کے تھپیڑوں میں دست و پا محسوس کر رہی ہیں لیکن اس کے باوجود وہ پورے حوصلے کے ساتھ زندگی کی شاہراہ پر گامزن ہیں ۔ وہ اپنے گھر کے معاملات کےساتھ ساتھ ادبی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیتی رہتی ہیں وہ معروف ادبی ادارے حلقہ ارباب ذوق کی رکن بھی ہیں اور اس حیثیت سے بھی وہ فعال کردار ادا کر رہی ہیں ۔ ان کی شاعری کا مطالعہ کرتے قاری احساسات کی دنیا میں کھو جاتا ہے ہر ایک شعر و غزل سے باد صبا اور نسیم صبح کی مسحور کن فضا محسوس ہوتی ہے اور ہر شعر پڑھنے کے بعد دل اگلا شعر پڑھنے پر اکستا ہے اور ان کے اشعار تنہائی میں قاری کےساتھ ہمکلام نظر آتے ہیں ۔ انہوں نے 1970 میں اس وقت کے ملکی حالات کے تناظر میں ایک خوب صورت غزل کہی تھی جس کا مطلع ملاحظہ فرمائیں
حسن کمیاب کی صورت ہیں مگر ہیں تو سہی
شہر کم دیدہ میں کچھ اہل نظر ہیں تو سہی
اس غزل پر ممتاز شاعر منظر ایوبی نے تبصرہ کرتےہوئے کہا کہ اگر ثریا کوئی کتاب نہ بھی لکھتیں تب بھی وہ اپنی اس غزل کے باعث قادرالکلام شاعرہ کہلاتیں ۔ دستور کے مطابق تعارف کے اختتام پر محترمہ ثریا حیا صاحبہ کی شاعری سے 2 منتخب غزلیں غزل قارئین کی نذر ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھیلتے ہی جاتے ہیں سلسلے خیالوں کے
بے سبب خموشی میں ان گنت سوالوں کے
لاکھ بھول جاٶ تم شب مثال لوگوں کو
ہیں نشاں مگر وہی صبح کے حوالوں کے
فصلِ گل میں ا ب اپنا کون منتظر ہو گا
کون دیکھ پاۓ گا زخم خستہ حالوں کے
اک طرف سمندر تھا دوسری طرف ساحل
حوصلے مگر دیکھوڈوب جانے والوں کے
زندگی ہے سر گرداں اور عقل بھی حیراں
بھید جب سے پاۓ ہیں دشمنوں کی چالوں کے
کارزار ہستی میں کب رہے ہیں ہم تنہا
ساتھ ساتھ چلتے ہیں قافلے اجالوں کے
ثبت ہیں حیا اب بھی اس دلِ شکستہ پر
نقش خوش جمالوٕں کے نام بے مثالوں کے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مقتل سجا کے آج سردار آئے ہیں
جاں تجھ پہ وار کرنے ترے دلدار آئے ہیں
اک صبح نو کی چاہ میں ہو کر لہو لہو
کچھ لوگ بن کے نقش بہ دیوار آئے ہیں
مدت کے بعد کوچہ دل بستگاں میں ہم
دل میں چھپائے حسرت دیدار آئے ہیں
آوارگی شوق کی رسوائیاں لیے
اے عشق دیکھ تیرے گنہگار آئے ہیں
دست طلب کشا نہ ہوا بزم یار میں
کشکول لے کے یوں تو کئی بار آئے ہیں
جو ہر قدم پہ حیا تجھ سے سرگرداں رہے
وہ آج بن کے تیرے پرستار آئے ہیں
ثریا حیا