اگر آپ تالاب کے پانی میں پتھر پھینکیں تو پتھر جہاں گرے گا وہاں سے ہر طرف دائرے کی صورت لہریں پھیلیں گی۔ یہ کیا ہے؟ یہ دراصل وہ توانائی ہے جو پتھر کے ساتھ پانی میں گئی اور لہروں کی صورت ہر طرف پھیل گئی۔ گویا توانائی پانی کی سطح کے ساتھ اگے کی طرف بڑھی۔
زمین پر جب زلزلے سے آتے ہیں تو زمین کے اندر موجود ٹیکٹانک پلیٹس کی حرکت اور ٹکراؤ سے زبردست توانائی خارج ہوتی ہے۔ یہ توانائی آواز یا ارتعاش کی لہروں کی صورت زمین پر اور اسکے اندر پھیلتی ہے۔ کوئی بھی توانائی کی لہر جسے پھیلنے کے لیے میڈیم درکار ہو کو ہم آواز کی لہر کہہ سکتے ہیں۔ گویا ہوا میں، پانی میں یا کسی ٹھوس شے میں توانائی ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا ایٹموں کی یا مالیکولز کی بالعموم حرکت یا ہلنا، آواز پیدا کرتا ہے۔ آواز چونکہ لہر ہے تو اسکی مختلف فریکوئنسیز ہوتی ہیں۔ انسانی کان کو 20 Hz سے 20 کلو Hz کی آواز کی لہریں سنائی دیتی ہیں۔ زمین پر زلزلے البتہ 0.01 سے 10 Hz کی رینج میں آتے ہیں۔ جسکا مطلب یہ کہ زمین پر جس جگہ زلزلے کی لہر آئے گی وہاں تواتر سے عمارتیں یا کچھ بھی کم سے کم ایک سیکنڈ میں دس مرتبہ یا 1.6 منٹ میں ایک مرتبہ ہلے گی۔
زمین کے اندر جس جگہ سے توانائی خارج ہوتی ہے اسے زلزلے کا مرکز کہتے ہیں۔ توانائی کی یہ لہریں جنہیں ہم زلزلے کی لہریں کہتے ہیں مختلف طرح کی ہوتی ہیں۔ اور یہ مختلف طرح سے زمین کے اندر اور اسکی سطح پر پھیلتی ہیں۔ کچھ زمین کے اندر سے ہوتی ہوئی دوسری طرف کو نکلتی ہیں۔ کچھ دوسری طرف کو نکلنے کی بجائے واپس منعکس ہو کر واپس زمین کے اندر جاتی ہیں، کچھ سطح پر آکر سطح پر پھیلتی ہیں۔ کچھ سطح کے ساتھ ساتھ جبکہ کچھ سطح کو اوپر نیچے یلاتی ہیں وغیرہ وغیرہ۔ یہاں ہم ان زلزلوں کی لہروں کی تفصیل میں نہیں جاتے کیونکہ یہ ایک پیچیدہ ٹاپک ہے۔ آسانی کے لیے یوں سمجھیں کہ زلزلے کی لہریں زمین کے اندر اور زمین کی سطح پر مختلف طرح سے پھیلتی ہیں۔
زلزلے کی لہریں جب کسی میڈیم سے گزرتی ہیں تو ہم اس سے ان میڈیمز کی خاصیت جان سکتے ہیں۔ کیسے؟ پانی میں آواز کی رفتار زیادہ ہو گی۔ ہوا میں کم۔ پانی آواز کو زیادہ جذب کرے گا۔ وغیرہ وغیرہ ۔
اس طرح سے ہم زلزلوں کی لہروں اور انکی خاصیتوں کو جان کر زمین کے اندر اسکی ساخت کو جان پاتے ہیں۔اسے کہتے ہیں عقل کہ آپ نے کسی نامعلوم اور معلوم کے تعلق کو کو جان کر دیدے پھاڑے بغیر کچھ جان لیا۔ یہ سائنس اور اسکی خوبصورتی ہے۔
زمین کے علاوہ چاند، مریخ، زہرہ اور نظامِ شمسی کے دیگر اجسام حتی کہ سورج پر بھی زلزلے آتے ہیں۔ وہاں نہ ہی کوئی مرد بستے ہیں اور نہ ہی کوئی خواتین۔
چاند پر زلزلے کئی عوامل سے آتے ہیں ان میں سے ایک چاند ہر گرنے شہابیوں سے آتے ہیں، دوسرے چاند اور زمین کی کششِ ثقل کے کھچاؤ سے جب چاند ہِلتا ہے تو تب آتے ہیں۔ اسکے علاوہ چاند چونکہ اپنے محور پر نہایت سستی سے گھومتا ہے یعنی تقریباً 29.5 دن میں تو قریب چودہ دن اسکی ایک سائیڈ پر سورج کی روشنی پڑتی یے جو اسے نہایت گرم کر دیتی ہے اور جب یہ سائیڈ تاریکی میں جاتی ہے تو ٹھنڈی ہونے لگتی یے۔ اس طرح گرمی کی شدت اور پھر ٹھنڈک کے سائیکل سے چاند کی سطح پھیلتی اور سکڑتی یے۔ اس سے بھی توانائی خارج ہوتی ہے جو زلزلوں کی صورت آتی ہیں۔ چاند پر زلزے ماپنے کے لیے اپالو مشنز میں سائنسی آلات بھیجے گئے جسے 1969 سے 1972 تک چاند ہر جانے والے خلابازوں نے اسکے مختلف مقامات پر نصب کیے۔
ایسے ہی سورج پر بھی زلزلے آتے ہیں۔ سورج کی سطح سے کافی نیچے سورج کی مقناطیست اور شدید درجہ حرارت کے باعث توانائی خارج ہوتی ہے جو سورج کی سطح تک اُٹھ کر آتی ہے۔ سائنسدان اس بارے میں مکمل طور پر نہیں جانتے کہ سورج پر زلزلے کیوں آتے ہیں ۔ اس بارے میں مزید تحقیق اور ماڈلز پر کام ہو رہا ہے۔ مستقبل میں ہم یہ جان پائیں گے کہ سورج پر زلزلے کیوں آتے ہیں۔ البتہ 2011 اور اس سے پہلے سورج کے مشاہدات سے ہم سورج پر ویسے ہی توانائی کی لہروں کو وقتاً فوقتاً پھیلتا دیکھ چکے ہیں جو زلزلے ہوتے ہیں۔ جیسے پتھر کے تالاب میں پھینکنے سے لہریں پھیلتی ہیں۔
سو زلزلے ایک قدرتی عمل ہیں۔ انہیں نہ ہی کسی ٹیکنالوجی سے پیدا کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اسکا تعلق انسانوں یا معاشروں سے ہے۔ فطرت سب کے لیے یکساں اچھی اور بری ہے
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...