عفان نے اپنی درسی کتاب میں دیکھا کہ ایک پیلے رنگ کے پھول کا نام سورج مُکھی لکھا ہے۔ پہلے تو وہ نام ہی ٹھیک سے نہیں پڑھ سکا۔ امی نے اسے بتایا ۔" یہ سورج مُکھی پھول ہے،اسے انگریزی میں سن فلاور کہتے ہیں۔ اس کے بیج سے کھانے کا تیل بنایا جاتا ہے۔
یہ تیل ہماری صحت کے لیے مفید ہوتا ہے ،کیونکہ سورج مکھی کے بیج غذائی ریشہ ، پروٹین ، وٹامن ای اور وٹامنز ، میگنیشیم ، پوٹاشیم ، آئرن ، فاسفورس ،کیلشیم اور زنک جیسے اہم غذائی اجزا کا اچھا ذریعہ ہیں۔ ان میں کولیسٹرول کو کم کرنے والے فائیٹو سٹیرول مرکبات بھی پائے جاتے ۔ "
یہ سب سن کر عفان کو بڑی حیرت ہوئی۔ پھر اسے کچھ یاد آیا۔" امی اپنے باورچی خانے میں پکانے کے تیل کا ڈبہ ہے اس پر بھی سن فلاور آئیل لکھا ہے، تو کیا یہ سورج مکھی کا تیل ہے۔ " امی نے وضاحت کی۔" ہاں، بیٹا یہ سورج مکھی کے بیج کا تیل ہے۔"
عفان نے پھر ایک سوال کیا." امی، یہ پھول سورج کی جانب ہی اپنا رخ کیے رہتا ہے، اسی لیے اسے سورج مکھی کہتے ہیں نا؟۰" امی نے کہا۔ " بالکل صحیح ہے، یہ سورج کی جانب دیکھتا رہتا یے اور اس سے مثبت توانائی حاصل کرتا ہے۔ " عفان نے تجسس کا اظہار کیا۔ " امی، پھر جب بارش کے موسم میں کالے کالے بادل چھا جاتے ہیں اور سورج چھپ جاتا ہے، تو ایسے میں، سورج مکھی کے پھول کا رخ کس جانب ہوتا ہے؟ "
امی نے عفان کے علم میں اضافہ کیا۔" جب سورج بادلوں کی اوٹ میں چھپ جاتا ہے، گھنگھور گھٹاؤں سے اندھیرا چھانے لگتا ہے، تو اس وقت سورج مکھی کے پھول ایک دوسرے کی جانب رخ کر لیتے ہیں اور ایک دوسرے کو دیکھ کر مثبت توانائی حاصل کرتے ہیں۔یہ نظام قدرت ہے، جو ہمیں بہت کچھ سکھاتا ہے۔ "
عفان نے کچھ نہ سمجھتے ہوۓ پوچھا۔ " امی، سورج مکھی سے ہمیں کیا سیکھنا چاہئے؟ "
امی نے بڑی شفقت سے سمجھایا۔ " دیکھو بیٹا گزشتہ سال سے ہماری زندگی پر کورونا وبا کے گہرے بادل چھائے ہیں، جس سے کاروبار ٹھپ ہو گیا ہے، لوگوں کے دلوں میں وبا کا خوف ہے، بچوں کے اسکول بند ہیں، ایسے میں آمدنی کے ذرائع بند ہیں، تو ان حالات میں توانائی حاصل کرنے کا ذریعہ یعنی آمدنی کے ذرائع بھی بند ہیں، اس لیےہمیں بھی سورج مکھی کی طرح ایک دوسرے سے توانائی کا تبادلہ کرنا چاہیے۔ "
عفان نے پھر سوال داغ دیا۔
" وہ کس طرح ؟ "
امی نے وضاحت کی۔" وبا سے خوفزدہ نہیں ہونا اور جو بیمار ہیں ان سے فون پر اچھی حوصلہ افزائی باتیں کرنا، ابھی جو حالات ہیں اس میں مل جل کر ایک دوسرے کی مدد کرنا،اچھی اور مثبت سوچ رکھنا اور اس کا اظہار کرنا۔ نیک اعمال اور عبادت کرنا۔ یہ سب ہماری توانائی کے ذرائع ہیں، اسی مثبت توانائی کے ذریعے ہم اس وبائی دور کا مقابلہ کر سکتے ہیں، جب تک کہ یہ وبا ٹل نہ جانے۔ اس وبا کو لوٹ جانا ہے اور اس کے بعد پوری دنیا کے حالات معمول پر آئیں گے، مگر اس وقت تک ہمیں اپنی توانائی کا مثبت استعمال کر کے اس دنیا کو وبا کے شر سے بچانا ہے۔ سمجھے بیٹا؟؟؟
جب یہ وبا نہیں تھی اس وقت کیا لوگ انتقال نہیں کرتے تھے؟ موت برحق ہے وہ کسی بھی بہانے سے آ سکتی ہے۔ جب الله کی جانب سے کسی کا وقت پورا ہو جائے، تو ایک سانس زیادہ نہ کم، اسے لوٹنا ہی ہے۔ اس وبا سے خوفزدہ ہونے کے بجائے ہمیں مثبت سوچ اور توانائی سے مقابلہ کرنا ہوگا، جب تک کہ وبا کا اندھیرا چھٹ نہیں جاتا۔ "
امی نے مزید کہا."ایک بات اور بلا وجہ گھر سے نہ نکلیں، ماسک کا استعمال کریں اور صفائی کا خیال رکھیں۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...