ایک بڑی سلطنت کی فوج جنوب سے حملہ کرنے کے لئے بڑھ رہی تھی۔ یہ سلطنت اپنے ان دشمنوں کو ماپوچے (وحشی) کہتی تھی۔ اس نے اپنے دشمن کو الٹی میٹم بھجوایا۔ ہتھیار ڈال دو یا موت کے لئے تیار ہو جاوٗ۔ اگر جھک جاوٗ گے تو ہم تمہیں غلام بنا کر جان بخشی کر دیں گے۔ اگر لڑو گے تو ہم تہمارا اور تمہاری پوری تہذیب کا صفایا کر دیں گے۔ ماپوچے نے لڑنے کا فیصلہ کیا۔ ان بیرونی حملہ آوروں کے آگے جھکنے کے بجائے مرنا بہتر ہے۔ اور ہم انہیں بتائیں گے کہ وحشی کا اصل مطلب کیا ہوتا ہے۔
چھ روز کی خونریز لڑائی کے بعد ماپوچے اس لڑائی سے بھاری جانی نقصان کے باوجود فاتح نکلے۔ وہ اس باہر سے آنے والی حملہ آور سلطنت کے غلام نہیں بنے۔ نہ اس روز۔ نہ اس کے بعد کبھی بھی۔ سورج کی سلطنت شکست کھا گئی تھی۔ یہ اِنکا کی سلطنت تھی جسے ان وحشیوں نے آگے بڑھنے سے روک دیا تھا۔
سو سال بعد، ان ماپوچے کو ایک اور سلطنت کا سامنا تھا۔ اس بار یہ ہسپانوی حملہ آور تھے۔ ایک بار پھر انہیں یہ جنگ لڑنا تھی۔ اپنے خون کے بدلے اپنی آزادی کی۔ جہاں پر انہوں نے سورج کی سلطنت کو روکا تھا، انہوں نے اس سے چند سو کلومیٹر دور اس سلطنت کو بھی روک دیا جہاں پر سورج کبھی غروب نہیں ہوا کرتا تھا۔ جس طرح انکا نے پچھلی دفعہ بڑا نقصان اٹھایا تھا، اس طرح اس بار ہسپانویوں نے۔ ان کی چلی میں پیش قدمی رک گئی۔ ایک طرح سے تاریخ نے اپنے آپ کو دہرایا تھا۔ کوئی بھی دو واقعات ایک سے نہیں ہوتے لیکن تاریخ کسی نہ کسی طریقے سے اپنے آپ کو اس لئے دہراتی ہے کہ انسانی فطرت یکساں رہتی ہے۔ سلطنتوں کی زیادہ سے زیادہ زمین کی خواہش انسانی معاشرت کا ایک بہت پرانا حصہ رہی ہے۔ آج عام طور پر قدیم تہذیبوں کو دلچسپ لیکن بے ضرر سمجھا جاتا ہے۔ سلطنت کے تصور کی دنیا بھر میں الگ الگ ایجاد اور ان کی پھیلنے کی خواہش کے پیچھے انسانی فطرت ہے۔ وسائل، دولت، زمین یا اثر و رسوخ کے لئے جنگ کا تصور انسانی معاشرت جتنا قدیم ہے اور کسی علاقے یا وقت سے خاص نہیں۔ اس تصور کو نظرانداز کرنے کا مطلب فاتح قوموں کو غیرانسانی حد تک پرتشدد سمجھنا اور مفتوح اقوام کو غیرانسانی حد تک بزدل یا لڑنے کے قابل نہ سمجھنا ہے۔ تاریخ کی روشنی بتاتی ہے کہ دونوں تصور درست نہیں۔ پھیلتی سلطنتوں کا تعلق مشرق سے ہو یا مغرب سے، ان کے پھیلنے کے ساتھ افسوسناک داستانیں موجود ہیں۔ قتل و غارت اور تباہی کی۔ سینکڑوں اقوام کے صفحہ ہستی سے مٹ جانے کی۔ اپنے مفتوحین کی زندگی کے طریقے کو تباہ کرنے کی۔ اور تباہی کی راکھ سے نئی تہذیبوں کے جنم لینے کی۔
اِنکا تہذیب سولہویں صدی میں جنوبی امریکہ میں بیس لاکھ مریع کلومیٹر کے رقبے پھیلی ہوئی تھی۔ یہ اپنے وقت میں دنیا کی سب سے بڑی سلطنت تھی۔ ان کے قلعے (پوکارا) اور نشان پہاڑوں، وادیوں، صحراوٗں اور ساحلوں میں بکھرے ہوئے ہیں۔ انکا نے بھی اس علاقے میں وہی کیا تھا جو ان کے بعد آنے والے ہسپانویوں کے کیا تھا۔ اپنی افواج کو دور تک بھیجا، ان علاقوں میں جہاں دوسرے لوگ بستے تھے۔ دوسری زبانیں بولنے والے، دوسرا کلچر رکھنے والے۔ انہوں نے اپنے مفتوحیں سے سیاسی، نظریاتی اور شخصی طور پر دب کر رہنا ڈیمانڈ کیا اور ایسا نہ کرنے پر فوج کی قوت کو استعمال کیا۔ نئی رعایا کو غلام بنایا۔ مقامی کلچر کو مٹایا۔ ٹیکس لگا کر ان کی دولت کو سلطنت کو بھیجا۔ دور دراز حکومت کرنا مشکل تھا تو مقامی لیڈروں کو قتل کر دیا اور علاقے ان میں سے اپنے وفاداروں کے سپرد کئے۔ ہسپانوی یہاں پہنچے تو انہوں نے بالکل یہی سلوک اس سلطنت کے ساتھ کیا۔ زیادہ رفتار، ایڈوانسڈ ٹیکنالوجی کے ساتھ اور مکمل بے رحمی سے۔ ان کو فرق نہیں پڑتا تھا کہ کوئی مقامی شخص سونا نکالتے ہوئے ہلاک ہو جائے۔ ہلاک ہونے پر اس کے رشتہ داروں کو اس کی جگہ نیا کام کرنے والا دینا پڑتا تھا۔ ہسپانوی ایسا اس لئے کر سکتے تھے کہ وہ زیادہ طاقتور تھے۔ ذرائع ابلاغ کی غیرموجودگی اور ہسپانیہ سے اتنا دور ہونے کا مطلب یہ تھا کہ عام ہسپانوی کو تو اس سب کا علم بھی نہیں تھا۔ انکا کے بادشاہوں کو ہسپانوی سلطنت کی بات نہ ماننے پر قتل کر دیا گیا اور اپنے وفاداروں کو سلطنت کے امور دئے گئے۔ انکا کا نظریاتی اور کلچرل طریقے سے خاتمہ کیا گیا۔ سونے اور چاندی کی صورت میں خراج وصول کیا گیا۔ انکا کی طرح نئی سلطنت بھی دولت اور موت کے کھیل سے پھیلی۔ ہسپانوی سلطنت نے یہاں پر رہنے والوں کی زندگی بدترین بنا دی۔ ان کی شناخت مٹا دی۔ ساتھ ہی اس کے ملبے سے ایک نئی تہذیب ابھری۔ جب ہم ماضی میں دیکھتے ہیں تو تاریخ اپنے آپ کو بار بار دہرانی نظر آتی ہے۔ اس لئے کہ انسانی فطرت ایک ہی رہی ہے۔
کسی نسل کی تعلیم پر اجارہ داری نہیں۔ کسی نسل کی ترقی پر اجارہ داری نہیں۔ کسی نسل کی ظلم پر اجارہ داری نہیں۔ جب ہم ماضی کو ہر طرف سے دیکھتے ہیں تو ہی سمجھ پاتے ہیں کہ انسان ایک ہی جیسے رہے ہیں۔ ماپوچے ہوں، اِنکا ہوں یا ہسپانوی، ان سب کا ماضی بھی ہمارا ایک مشترکہ ماضی ہے۔ جب ہم انسانی جینز کو دیکھتے ہیں یا عقل کو، کسی وقت اور علاقے میں ہمیں اس میں فرق نہیں ملتا۔ جب رنگدار عینک اتار کر تاریخ کو کھول کر انسانی رویوں کو دیکھتے ہیں تو ان میں بھی نہیں۔ کیا ہم ماضی کو دہراتے رہیں گے؟ اس چکر کو بدلنے کا واحد ہتھیار آگاہی ہے۔ تعلیم سے اور تاریخ کو جان کر ہم اس قابل ہوتے ہیں کہ فیصلہ کر سکیں کہ اپنے ماضی میں سے کونسی چیز کو مستقبل میں نہیں دہرائیں گے۔ تاریخ کے یہ چکر صرف ان جنگوں کے ہی نہیں۔
انسانوں کے بارے میں تاریخ کا بھی وہی سبق ہے جو سائنس کا۔ سب انسان برابر ہیں۔
نوٹ: اس میں جنوبی امریکہ کی مثال اس لئے استعمال کرنا پڑا کہ ان میں سے کسی فریق کی جذباتی وابستگی نہیں ہو گی۔