سورج میں بھی کبھی زحل کی طرح حلقے ہوتے تھے۔
سورج کے گرد مٹی کے ان حلقوں نے زمین کو “سپر ارتھ” بننے سے روک لیا تھا۔ورنہ آج زمین کہیں زیاہ بڑی اور جسامت والی ہوتی۔
ایک نئی تحقیق کے مطابق، زمین اور ہمارے نظام شمسی میں دیگر سیارے بننے سےپہلے، سورج ، زحل کی طرح دھول کے بڑے حلقوں سے گھرا ہوا تھا ، اور یہ کافی بڑے حلقے تھے۔
ناسا کے مطابق، مٹی کے ان حلقوں نے زمین کی تشکیل کے وقت اس کو ایک “سپر ارتھ” میں بڑھنے سے روکا تھا – سپر ارتھ Super Earth ایک قسم کا سیارہ ہوتا ہے جو زمین سے تقریباً دوگنا بڑا اور اس کی کمیت سے 10 گنا زیادہ ہوسکتی ہے۔ ماہرین فلکیات نے ہماری کہکشاں میں سورج جیسے قریبا 30 فیصد ستاروں کے گرد چکر لگانے والے سیاروں میں ایسے کئی “سپر ارتھ” سیارے دریافت کیے ہیں۔ یعنی ہماری اپنی کہکشاں میں بہت سے ایسے سیارے موجود ہیں جو سپر ارتھ کی کیٹیگری میں آسکتے ہیں۔
بہت سارے دوسرے نظام شمسی میں سپر ارتھز کی موجودگی نے ماہرین فلکیات کو کچھ جواب طلب سوالات کے ساتھ چھوڑ دیا: یعنی، “اگر سپر ارتھز انتہائی عام ہیں، تو ہمارے اپنے نظام شمسی میں ایک بھی کیوں نہیں ہے؟” آندرے ایزیڈورو André Izidoro ، ہیوسٹن، ٹیکساس میں رائس یونیورسٹی کے ماہر فلکیات نے ایک بیان میں یہ بات کہی۔
یہ جاننے کے لیے، پروفیسر Izidoro اور اس کے ساتھیوں نے نظام شمسی کی تشکیل کا ایک کمپیوٹر سمولیشن ماڈل بنایا، جو دھول اور گیس کے منہدم بادل کی راکھ سے نکلا جسے شمسی نیبولا کہا جاتا ہے، اس عمل کو لائیو سائنس (سائنسی جریدہ) نے پہلے رپورٹ کیا تھا۔
ان کمپیوٹر سیمولیشن نے تجویز کیا کہ ایک مخصوص دباؤ کے “ٹکرانے” یا گیس اور دھول کے زیادہ دباؤ والے علاقوں نے سورج کی پیدائش کے ساتھ ہی اس نوزائدہ سورج کو گھیر لیا ہوگا۔اس زیادہ دباؤ کے ان علاقوں کا نتیجہ ممکنہ طور پر اس وقت ہوا جب گرد غبار کے یہ ذرات سورج کی طرف اس کی مضبوط کشش ثقل کی طرف بڑھے، گرم ہو گئے اور بڑی مقدار میں بخارات والی گیس خارج کی۔
ان سمولیشن سے مزید یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ نئے تشیکل شدہ سورج کے ارد گرد ممکنہ طور پر تین الگ الگ علاقے تھے جہاں ٹھوس ذرات بخارات بن کر گیس بن جاتے ہیں، جسے “سبلیمیشن لائنز sublimation lines ” کہا جاتا ہے۔ سورج کے قریب ترین لائن میں، یا گرم ترین زون میں، ٹھوس سلیکیٹ گیس میں بدل گیا؛ درمیانی لکیر میں، برف اتنی گرم ہو چکی ہو گی کہ گیس میں بدل جائے۔ اور سب سے دور کی لکیر میں، کاربن مونو آکسائیڈ ایک گیس بن گئی۔
دھول جیسے ٹھوس ذرات ان تین جامع، دبے ہوئے اور سکڑے ہوئے علاقوں میں گھس گئے اور وہاں جمع ہونا شروع ہو گئے، پروفیسر ایزوڈورو کے بنائے ہوئے سمولیشن نے یہ دکھایا۔ رائس یونیورسٹی میں طبیعیات اور فلکیات کی ایک ایسوسی ایٹ پروفیسر، شریک مصنف اینڈریا اسیلا Andrea Isella نے اسکی ایک وضاحتی بیان میں کہا، “دباؤ کے ٹکرانے کا اثر یہ ہوتا ہے کہ یہ دھول کے ذرات کو جمع کرتا ہے، اور اسی وجہ سے ہم حلقے دیکھتے ہیں۔”
اگر یہ دباؤ کے ٹکرانےوالے غبار و ڈسٹ کے زرات موجود نہ ہوتے تو سورج تیزی سے ایسے ذرات کو اکٹھا کر دیتا اور سیاروں کے بڑھنے کے لیے کوئی بیج نہیں چھوڑتا۔ پروفیسر اسیلا نے کہا، “کسی خلائی جسم کو انہیں روکنے کے لیے کسی چیز کی ضرورت ہے تاکہ انہیں سیاروں میں بڑھنے کا وقت دیا جا سکے۔”
گزرتے وقت کے ساتھ، سورج کے ارد گرد گیس اور دھول ٹھنڈی ہوگئی اور سبلیمشین کی لکیریں سورج کے قریب آتی گئیں۔ اس عمل نے دھول کو سیاروں میں جمع ہونے کی اجازت دی، یا سیاروں کے ایسٹراوئیڈ کے سائز کے سیارے بنانے والے بیج، جو پھر کوئی سیارے بنانے کے لیے اکٹھے ہو سکتے ہیں۔ ایزیڈورو نے کہا، “ہمارے ماڈل سے پتہ چلتا ہے کہ دباؤ کے ٹکرانے والے عوامل ان خلائی گرد و غبار اور دھول کے زرات کو اکٹھا کر سکتے ہیں، اور یہ حرکت پذیر دباؤ کےآپسی ٹکرانے والے زرات، سیاروں بنانے کی فیکٹریوں کے طور پر کام کر سکتے ہیں۔”
پروفیسر ایزیڈورو نے اپنے بیان میں کہا کہ دباؤ کے ٹکرانے والے زرات اس بات کو کنٹرول کرتے ہیں کہ نظام شمسی میں سیاروں کی تشکیل کے لیے کتنا مواد دستیاب ہوتا ہے۔
کمپیوٹر سمولیشن کے مطابق، سورج کے قریب ترین حلقے نے کچھ اندرونی نظام شمسی کے سیارے بنائے ہیں -جیسے عطارد، زہرہ، زمین اور مریخ۔ درمیانی حلقہ بالآخر بیرونی نظام شمسی کے سیارے بن گئی تھی ، جب کہ سب سے باہر کی حلقے نے نیپچون کے مدار سے باہر کے علاقے کیپر بیلٹ Kuiper Belt میں کچھ دمدار ستارے یعنی comet ، کچھ برے ایسٹرائیڈز اور دیگر چھوٹے چھوٹے خلائی اجسام بنائے۔
مزید یہ کہ محققین نے پایا کہ اگر انہوں نے درمیانی حلقے کی تاخیر سے بننے والی شکل کی نقالی کی تو نظام شمسی میں اسطرح کئی سپر ارتھز بن سکتے ہیں۔ ایزیڈورو نے کہا، “جب ان صورتوں میں دباؤ کا ٹکرانا بنتا ہے، بہت زیادہ کمیت پہلے ہی اندرونی نظام پر حملہ آور ہو چکا تھی اور سپر ارتھ بنانے کے لیے اس وقت دستیاب تھی۔” “لہذا وہ وقت جب یہ درمیانی دباؤ کا ٹکرانا نظام شمسی کا ایک اہم پہلو ہو سکتا تھا۔” لیکن بعد میں سورج کے بننے والی کشش ثقل کے باعث وہ دوبارہ سورج کے اندر گر پر منہدم ہوگئے اور مزید دوسرے سیارے یا کوئی سپر ارتھ بننے سے رک گئے۔
ترجمہ و تحریر: حمیر یوسف
The findings were published Dec. 30 in the journal Nature Astronomy.
Originally published on Live Science.
اوریجنل آرٹیکل
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...