سپریم کورٹ کا انسانی حقوق سیل اور سائلین کی دادرسی
آئینِ اسلامیہ جمہوریہ پاکستان کے تحت سپر یم کورٹ آف پاکستان میں قائم انسانی حقوق سیل عوام کے بنیادی حقوق کے تحفظ کی ذمہ داری نبھارہا ہے ۔آئین نے عدلیہ کو اختیار دیا ہواہے کہ وہ اُن لوگوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرے جو اپنا دفاع خودنہیں کرسکتے تاکہ عوام کو انصاف کی فراہمی ہو تاکہ اُن کا اعتماد اور بھروسہ عدلیہ پر قائم ہوسکے۔
گذشتہ کئی سالوں سے سپر یم کورٹ اپنے انسانی حقوق سیل کے ذریعے اِس فریضے کو سرانجام دے رہا ہے مگر موجودہ چیف جسٹس ثاقب نثا رنے جب سے ازخود نوٹس لینے کا سلسلہ تیز کیا ہے تو اِن کو عوام میںکافی پذیرائی ملی ہے۔ اِس سلسلہ میںانہوں نے جب اسلام آبادکے علاوہ سپر یم کورٹ کی چاروں صوبائی دارلحکومتوں میں قائم رجسٹریوںمیں مختلف کیسوں کی سماعت کی تو سائلین کی ایک بڑی تعداد نے یہاں کا رخ کرنا شروع کردیا جودادرسی کیلئے اپنے ہاتھوں میں درخواستیں لائے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے بلکہ فوری انصاف کے حصول کے لئے لوگوں کا مزید رجحان اِس طرف بڑھ رہا ہے۔
عوام کا بڑھتا ہوارش دیکھتے ہوئے 25مارچ کو چیف جسٹس ثاقب نثا رنے لاہور رجسٹری کے باہر سٹرک پر اپنی گاڑی رکوائی اور خود گاڑی سے اُتر کر سائلین کی فریادیں سنیںاور موقع پر احکامات جاری فرمائے ،اِس کے علاوہ انہوں نے لاہور رجسٹری میں انسانی حقوق اور اقلیتوں کے لئے سیل قائم کرنے کا اعلان کیا اور سائلین سے کہا’’ کہ آپ سٹرک پرمت بیٹھیں بلکہ انسانی حقوق سیل میں درخواستیں جمع کروائیںمیں آپ کی فریاد خود سنوں گاــ‘‘ جس کے بعد چیف جسٹس ثاقب نثا رنے روزانہ کی بنیاد پر سینکڑوں درخواستوں پر احکامات جاری کرنے کے علاوہ ملزمان موقع پر گرفتار کروائے اِس کے علاوہ کئی سالوں سے جاری سابقہ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے صاحبزادے حمزہ شہباز شریف اور اُن کی بیوی عائشہ احد کے درمیان جاری تنازعہ کوبھی صلح صفائی سے حل کروادیا۔
چیف جسٹس ثاقب نثا رکے اعلان کے باوجود لاہور رجسٹری میں اب تک انسانی حقوق اور اقلیتوں کے لئے سیل کا قیام نہیں کیا گیااور یہاںاب دستی طریقے سے درخواستیں بھی وصول نہیں کی جاتی ہیں سائلین سے کہا جاتا ہے کہ وہ درخواستیںبذریعہ ڈاک انسانی حقوق سیل اسلام آباد کے پتہ پر ارسال کریں، اگر کوئی بذریعہ ڈاک اپنی درخواست لاہور رجسٹری بھجوادے تو وہاں کا عملہ اُس درخواست کوبھی اسلام آباد بھجوادیتا ہے۔ جس کے بعد درخواست کی باری آنے کے بعد اُس پر کاروائی کی صورت میں سائل کو اطلاع دی جاتی ہے اگردرخواست مسترد کردی جائے تو پھر سا ئل کو کسی قسم کی اطلاع نہیں دی جاتی ہے ویسے بھی دیگر شہروں کے سائلین کی رسائی یہاں تک آسان نہیں ہے ۔
آج سے تقریباً چھ ماہ بعد موجودہ چیف جسٹس ثاقب نثا رریٹائر ہونے والے ہیں مگر عوامی حلقوں میں اِس وقت اُن کی شخصیت دن بدن مقبولیت حاصل کررہی ہے جس کی خاص وجہ عوامی دادرسی سمیت موبائل فون بیلنس پر اضافی ٹیکس کو ختم کرنا، کالاباغ ڈیم کی تعمیرکے بارے میں اور پٹرول پر اضافی ٹیکس کو ختم کرنے کے متعلق ازخود نوٹس کی سماعتیں ہیں۔جہاں تک چیف جسٹس ثاقب نثار کے 25مارچ کو لاہور رجسٹری میںانسانی حقوق سیل کے قیام کے اعلان کی بات ہے تو اب یہ اقدام بہت ضروری ہوگیا ہے۔ اِس بارے میں،میں اپنی طرف سے تجاویز اپنے اِس کالم کا حصہّ بنانا چاہوں گاکہ چاروں صوبائی دارلحکومتوںیعنی کراچی ، لاہور ، پشاور ، کوئٹہ سمیت گلگت وبلتستان اور مظفر آباد میں بھی سپر یم کورٹ اسلام آبادکی طرز پر قائم انسانی حقوق سیل کے زیرنگرانی ذیلی سیل فوری قائم کیے جائیںتاکہ سائلین کی اپنی درخواستوں پر کاروائی تک رسائی آسان ہوسکے اور مسترد کی جانے والی درخواستوں کے بارے میں سائلین کو آگاہ کیا جائے اِس طرح عوام کا عدلیہ پر اعتماد بحال ہوگا کیونکہ یہ اقدام صرف عدالتِ عظمیٰ ہی کرسکتی ہے ایسے کرنے سے کئی پیچیدہ معاملات کا فوری حل نکل سکتا ہے جو ماتحت عدلیہ میں کئی کئی سالوں تک سست روی کا شکار ہوجاتے ہیں،عام انسان تک انصاف کی فراہمی عدلیہ کا ہی کام ہے بے شک سیاسی مقدمات کی روزانہ کی بنیاد پر کاروائی ہونی چاہیے مگر اِس میں تھوڑا حصّہ سائلین کی دادرسی کا بھی ہوتواِس سے عدلیہ کے وقار میں اضافہ اور انصاف کے تقاضے پورے ہوسکیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔