سپریم کورٹ کا موڈ کیا ہے؟ ،نااہلی یا نیب ۔۔۔۔
شہر اقتدار میں یعنی اسلام آباد میں پاناما کیس کے حوالے سے سماعت جاری و ساری ہے ۔یاد دہانی کے لئے یہ بات لکھ دیتا ہوں کہ جسٹس اعجاز افضل خان،جسٹس عظمت سعید اور جسٹس اعجازالحسن اس کیس کی سماعت کررہے ہیں ۔گزشتہ روز کے ججوں کے ریمارکس یہ indications دے رہے کہ فیصلہ کیا سامنے آسکتا ہے ۔عدالت نے کہا ہے کہ شریف خاندان کو فلیٹس کی ملکیت ثابت کرنا ہو گی ۔عدالت نے مزید یہ کہا کی اس بات کہ ثبوت انہیں دیئے جائیں یا ٹرائل کورٹ کے حوالے کئے جائیں ۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ اب یہ مقدمہ ہوسکتا ہے آئندہ چند روز کی سماعت کے بعد نیب یا ٹرائل کورٹ کے حوالے کردیا جائے گا ۔عدالت نے گزشتہ روز کی سماعت کے دوران یہ indication دے دی ہے ۔عدالت نے یہ بھی کہا کہ وہ تو روز اول سے ان فلیٹوں کی خریداری کی منی ٹریل کا انتظار کررہے ہیں ۔اس سے تو یہ لگتا ہے کہ قطری خطوط کے باوجود عدالت آج بھی منی ٹریل کا انتظار فرمارہی ہے ۔دیکھا جائے تو عدالت شریف فیملی کے وکیل کو پورا موقع فراہم کررہی ہے ۔عدالت نے تو گزشتہ روز کی سماعت میں یہاں تک فرمادیا ہے کہ جے آئی ٹی کی سفارشات ابھی تک سفارشات ہی ہیں ،ضروری نہیں کہ ان سفارشات پر کلی یاجزوی طور پر عمل در آمد کیا جائے ۔عدالتی ریمارکس میں کہا گیا کہ ثبوت کے بعد قانون کے تناظر میں معاملات کو دیکھا جائے گا ۔لگتا ہے عدالت کا فوکس اب بھی ڈاکومنٹس ہی ہیں ۔عدالت نے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ نواز شریف کی نااہلی ہوگی یا نہیں ،اس حوالے سے شواہد اور قانون کو ہی دیکھا جائے گا ۔عدالت کی طرف سے یہ بھی کہا گیا کہ فیصلہ دیتے وقت جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے والے افراد کے رویوں کا بھی جائزہ لیا جائے گا ،جو رویہ جے آئی ٹی کے سامنے لایا گیا ،اس کا بھی مشاہدہ کیا جائے گا ۔بقول عدالت کے بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ شریف خاندان سے جو کچھ پوچھا گیا ،اس سے لگ رہا تھا کہ شریف خاندان نے فیصلہ کیا ہوا تھا کہ عدالت کو کچھ نہیں بتانا ۔سپریم کورٹ کی جانب سے یہ ایک سنجیدہ observation ہے ،اس سے عدالتی موڈ کو جج کیا جاسکتا ہے ۔جے آئی ٹی کے سامنے بقول عدالت ایسے جوابات دیئے گئے کہ ۔۔مجھے کچھ نہیں معلوم ۔۔۔۔میں یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتا ۔۔۔عدالت کے بقول ایسے جوابات کی روشنی میں کیسے ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ بات شریف خاندان کے حق میں جائے گی ۔یہ تو ہے عدالتی موڈ جو ان کے ریمارکس سے واضح جھلک رہا ہے ۔عدالت نے یہ بھی کہا کہ وزیراعظم نواز شریف نے شروع میں کیا کہ وہ قطری خطوط سے واقف نہیں ،پھر کہا کہ شاید یہ خطوط انہوں نے دیکھے ہوں گے ۔تو یہ جو عدالتی موڈ ہے یہ شریف خاندان کے حق میں نہیں جاتا ۔عدالت نے یہ بھی کہا کہ جب وزیر اعظم نے اسمبلی میں کھڑے ہو کر یا قوم سے خطاب کے دوران کاہ کہ ہم رکارڈ دیں گے ،شاید اسپیکر کو رکارڈ دیا ہو ،جے آئی ٹی کے سامنے یہ کہا گیا ۔عدالت نے کہا کہ انہیں تو منی ٹریل چاہیئے تھی ،پہلے دے دیتے یا اب دے دیں ،منی ٹریل مل جاتی تو جے آئی ٹی بنانے کی ضرورت ہی نہ پڑتی ۔۔یہ بات تو ایک حقیقت ہے کہ سپریم کورٹ ٹرائل کورٹ نہیں ہے ۔اب ایسا لگ رہا ہے کہ عدالت مطمئن نہیں ہے ،اس لئے شریف فیملی کا یہ کیس نیب یا ٹرائل کورٹ میں جائے گا ۔ایسا بھی عدالتی موڈ سے ل رہا ہے کہ سپریم کورٹ براہ راست نواز شریف کو نااہل قرار دے ۔یہ بھی حقیقت ہے کہ نواز شریف کو نااہل قرار دینے کا اصلی فورم الیکشن کیمشن ہے ۔نااہلی کا براہ راست فورم عدالت نہیں ہے ۔کسی بھی صورت نواز شریف کو نااہل قرار دیا گیا چاہے وہ باسٹھ ترسٹھ ہو یا کوئی اور اس کے لئے الیکشن کمیشن سے رجوع کرنا ہوگا ۔یہ ہو سکتا ہے کہ عدالت الیکشن کیمشن کو حکم دے کہ وہ نواز شریف کو نااہل قرار دے ۔بظاہر مجھے ایسا لگ رہا ہے عدالتی موڈ یہی ہے کہ کیس ٹرائل کورٹ یا نیب میں جائے گا اور مختصر ججمنٹ یہ ہوگی کہ الیکشن کمیشن نواز شریف کو نااہل کرے ۔کیس نیب میں گیا تو سمندر میں گیا ۔اس سے کیس لمبا ہوگا ،کھنچے گا مزید کئی ماہ لگ جائیں گے ۔نیب تو تحقیقات کے لئے وقت لے گی ۔اب سپریم کورٹ سے کوئی بالا تر نہیں ،اس لئے سپریم کورٹ اگر چاہے تو براہ راست نواز شریف کو نااہل قرار دے ،پھر ایک ٹرائل کورٹ خود بنائے ،پھر اسے وقت دے جیسے جے آئی ٹی کو دیا گیا کہ فلاں تاریخ تک یہ ٹرائل مکمل کئے جائیں ۔سپریم کورٹ کو نیب کی حقیقت کا تو علم ہے کہ یہ نیب ۱۹۹۹ سے بنی تھی ،اٹھارہ سال ہو گئے یہ کیس ان کے پاس تھا ،اس نے کیا کیا ،اس لئے ٹرائل کے حوالے سے بھی سپریم کورٹ نگرانی رکھے گی اور معاملات میں ملوث رہے گی تاکہ جلد از جلد فیصلہ ہو جائے ۔شریف خاندان تو یہ چاہتا ہے کہ کیس نیب میں جائے ،انہیں وقت مل جائے اور اس طرح دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات کا وقت آجائے ۔یہ سب حقائق سپریم کورٹ بھی سمجھتی ہے ،اس لئے لگ رہا ہے کہ نواز شریف عدالت سے نااہل ہو سکتے ہیں ۔۔اور آئندہ کچھ ماہ تک اس مقدمے کو نمٹا دیا جائے ۔شریف خاندان کے لئے پاناما کیس کا بوجھ بہت زلت آمیز سرگرمی ہے ،اس لئے نواز شریف کو مستعفی ہو ناچاہیئے ۔پاناما کیس کی وجہ سے ریاستی امور کے معاملات میں خلل پڑ رہا ہے ،معیشت اثرانداز ہو رہی ہے ،عوام پریشان کھڑے ہیں ،اس لئے عدالت یا نواز فیملی یا کوئی اور خود غرضی کا مظاہرہ نہ کریں ،پاناما سے جلد سے جلد باہر نکلا جائے ۔اسٹیبلشمنٹ کو بھی سمجھنا چاہیئے کہ نواز رہے یا نہ رہے ،اب کوئی فرق نہیں پڑتا ،جو انہوں نے کرنا تھا کر لیا ۔اب نوازشریف کی اتھارٹی نہیں رہی ،وہ بے بس ہیں ،کمزور ہیں ،کسی کے لئے خطرہ نہیں ،وہ شیر بھی نہیں رہے ۔اب جو کرنا ہے جلدی کیا جائے ،نااہل کرنا ہے تو دنوں میں کریں اور کیس ٹرائل کورٹ کے حوالے کریں ۔نااہل نہیں کرنا تو جلدی اہل قرار دیں ۔پاناما کے عذاب سے ہم سب پک گئے ہیں ۔ویسے ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ قطری وزیر خارجہ شیخ محمد عبدللہ تہانی گزشتہ روز مختصر دورے پر اسلام آباد آئے تھے ،ان کی نواز شریف سے ملاقات بھی ہوئی ،اے آر وائی کے مطابق وہ منی ٹریل والا سرکاری خط بھی لائے تھے ،ساتھ ساتھ خلیج کی صورتحال پر بات بھی ہوئی اور پھر وہ چلے بھی گئے ۔ادھر عمران خان نے شہباز شریف کے خلاف ناہلی کا جو ریفرنس دائر کیا تھا وہ ریفرنس بھی لاہور ہائی کورٹ نے خارج کردیا ہے ۔ادھر ایک فوجی انسان نے جو اعلی عہدے پر فائز ہیں کسی کو کہا ہے کہ نواز شریف سے تمام وہ زہر نکال دیا گیا ہے جو اسٹیبلشمنٹ کے خلاف تھا ،اس لئے شہباز شریف کو ضامن بناکر کوئی ڈیل ہو گئی ہے ،اس لئے شاید اب وہ نااہل نہ ہوں ۔اس فوجی کا یہ کہنا بھی تھا کہ ایک بات یاد رکھیں نواز شریف پنجاب سے ہیں ،اسٹیبلشمنٹ پنجاب سے ہے ،عدالت پر بھی پنجاب کا اثر ہے ،نواز شریف بھٹو ،بے نظیر یا یوسف رضا گیلانی نہیں ،اس لئے وہ نااہلی سے بچ جائیں گے ۔جو بھی ہو جلدی ہو تاکہ پاناما کے عذاب سے ہم سب کو چھٹکارہ مل سکے ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔