سپریم کورٹ کا فیصلہ ، چار سوال جو ذہن میں آ سکتے ہیں
الف: کیا عدالت پارلیمنٹ کے کسی قانون کو منسوخ کر سکتی ہے؟
اس کا جواب ہاں میں ہے۔ قانونی زبان میں ایک اصطلاح عدالتی نظرثانی یا جوڈیشل ریویو استعمال کی جاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگراعلیٰ عدالتیں پارلیمنٹ کے منظور شدہ کسی قانون کو آئین سے متصادم یا مخالف سمجھیں تو وہ اسے منسوخ یا غیر آئینی قرار دے کر ختم کر سکتی ہیں۔ اسے جوڈیشل ریویو کہا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں اس کی سینکڑوں، ہزاروں مثالیں موجود ہیں۔ امریکہ جو دنیا کے بہترین جمہوری ممالک میں سے ایک ہے، وہاں امریکی سپریم کورٹ کی جانب سے کئی بار کانگریس کے منظور شدہ قوانین کو منسوخ کر دیا گیا۔ امریکی صدر دنیا کا طاقتور ترین صدر ہے، مگر امریکی سپریم کورٹ امریکی صدر کے متعدد احکامات غیر قانونی قرار دے کر ختم کر چکی ہے۔ ابھی چند دن پہلے صدر ٹرمپ کے ایک حکم کو عدالت نے ختم کر دیا۔ میڈیسن بمقابلہ ماربری ایک مشہور امریکی مقدمہ ہے، جس میں امریکی کانگریس کے منظور کردہ قانون کو عدالت نے ختم کر دیا تھا، یہ امریکہ میں جوڈیشل ریویو کی پہلی مثال ہے، یہ کیس ایک صدی پرانا ہے۔عدالت کی دلیل یہ تھی کہ وہ قانون امریکی آئین سے متصادم تھا۔ بھارتی سپریم کورٹ کے جوڈیشل ریویو کی بہت سی مثالیں دی جاتی ہیں۔ عام طور پر عدالتیں ایکٹ آف پارلیمنٹ تو ختم کر دیتی ہیں، مگر آئینی ترمیم چونکہ دو تہائی اکثریت سے کی جاتی ہے ، اس لئے اسے ختم کرتے ہوئے زیادہ سوچ بچار سے کام لیا جاتا ہے۔ بھارتی سپریم کورٹ نے کم از کم تین بھارتی آئینی ترامیم کو بھی منسوخ کیا،جبکہ بھارتی پارلیمنٹ سے منظور شدہ درجنوں قوانین آئین کی روح سے متصادم ہونے کی بنیاد پر اڑا دئیے گئے ۔ بنگلہ دیش سپریم کورٹ بھی بنگلہ دیشی پارلیمنٹ کے قوانین ختم کر کے ایسا کر چکی ہے۔
ب: کسی پاکستانی عدالت نے پارلیمنٹ کے کسی قانون یا ترمیم کو ختم کیا؟
پاکستان میں عدالتیں ایک سے زیادہ فیصلوں میں پارلیمنٹ کے منظور شدہ قوانین ختم کر چکی ہے۔ میاں نواز شریف نے اپنے دوسرے دور حکومت میں اینٹی ٹیررسٹ کورٹ بنائی تھیں، قانون کے مطابق اس کورٹ کے فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل نہیں کی جا سکتی تھی۔ یہ بات پاکستانی آئین سے متصادم تھی کیونکہ آئین کے تحت ہائی کورٹس میں ماتحت عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف اپیل کا حق موجودہے ۔ سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ کے منظور کردہ اس اینٹی ٹیررسٹ ایکٹ کی متنازع شق کو ختم کر دیا اور ہائی کورٹ میں اپیل کا حق بحال ہوگیا۔یہ مشہور کیس ہے اور اس کے حوالے دیگر کیسز میں دئیے جاتے ہیں۔ بعض دیگر قوانین کے حوالے سے بھی ایسا کیا گیا۔ اٹھارویں ترمیم منظور ہوئی ، اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا توترمیم میں موجود بعض خلا اور کمزوریوں کی بنا پر سپریم کورٹ نے اس کی نشاندہی کی اور پھر پارلیمنٹ کومزید ترامیم کر کے وہ خامیاں دور کرنا پڑیں۔ سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ کی شق میں ترمیم کے خلاف آیا۔
ج: جب پارلیمنٹ سپریم ہے تواس کا قانون کیوں چیلنج ہوا؟
یہ بات بھی ایک مغالطہ اور غلط کلیشے پر مبنی ہے۔ بنیادی نکتہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ برطانیہ جیسے ممالک جہاں تحریری آئین موجود نہیں، وہاں پارلیمنٹ سپریم ہوتی ہے ۔ وہاں بھی عدالتیںاگرچہ جوڈیشل ریویو کاحق استعمال کرتی ہیں، مگر عام طور سے یہ انتظامی فیصلوں کے حوالے سے کیا جاتا ہے، مقننہ یعنی برطانوی پارلیمنٹ کے قوانین پر جوڈیشل ریویو نہیںآتا۔ ویسے اب برطانوی عدالتیں برطانوی پارلیمنٹ کے قوانین کا بھی جائزہ لینا شروع کر چکی ہیں۔ پاکستان کا آئین وفاقی نوعیت کا ہے، ہمارے ہاں برطانیہ کے بجائے امریکہ کو سامنے رکھا گیا۔ ہمارے پاس تحریری آئین ہے، اسی آئین کی وجہ سے پارلیمنٹ بنائی گئی ہے، اس لئے بنیادی طور پر آئین ہی سپریم ہے، پارلیمنٹ تو اس کی تخلیق ہے۔ یہاں پر کوئی یہ سوال اٹھا سکتا ہے کہ آئین بھی تو پارلیمنٹ کی تخلیق ہے ۔ حقیقت مگر یہ نہیں، آئین میں ترمیم اور بات ہے، پورا آئین نئے سرے سے بنانا کسی عام پارلیمنٹ کے بس کی بات نہیں۔ اس کے لئے دستورساز اسمبلی چاہیے ہوتی ہے، یعنی وہ پارلیمنٹ جس نے الیکشن میں آئین بنانے کے نام پر مینڈیٹ لیا ہو۔صرف ایسی دستور ساز پارلیمنٹ ہی آئین کی خالق ہوتی ہے۔ ہمارے آئین کے مطابق اس کی تشریح کا حق عدالت کو حاصل ہے۔ مختلف آئینی شقوں کو سمجھنا، ان میں تصادم یا اس حوالے سے تشریح کا کوئی ایشو پیدا ہو تو وہ پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں کے پاس جاتا ہے۔ بھارت کا آئین بھی پاکستان کی طرح کا ہے، وہاں بھی بھارتی ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ ہی آئین کی تشریح کا کام کرتی ہیں۔ یہی صورتحال بنگلہ دیش یا کسی بھی ایسے ملک کی ہے، جہاں کا آئین پاکستان، بھارت کی طرح امریکی طرز کا وفاقی ہو۔ اس لئے پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش اور سب سے بڑھ کر امریکہ جیسے ممالک میں پارلیمنٹ اگر کوئی قانون منظور کرے اور وہ آئین یا اس کی روح یا کسی دوسرے شق سے متصادم ہو تو سپریم کورٹ اس پر نظرثانی کر کے اسے منسوخ کرنے کا حق اور اختیار رکھتی ہے۔ ایسا کرنا پارلیمنٹ کی توہین نہیں، بلکہ ان کی غلطی کا احساس دلانا ہے۔ اراکین پارلیمنٹ کو اپنی غلطی پر غور کرنا چاہیے تاکہ آئندہ ویسی غلطی نہ ہوپائے۔
د: کیا چندافراد عوامی مینڈیٹ کو رد کر سکتے ہیں؟
اس میں عددی اکثریت اور اقلیت کا سوال ہی نہیں۔ مسئلہ یہ نہیں کہ چند افراد عوامی مینڈیٹ کی توہین کر رہے ہیں یا ان کے خلاف فیصلہ دے رہے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ ملک کے آئین نے کسی ادارے کا کیا کردار دے رکھا ہے؟ سپریم کورٹ کی آئینی ذمہ داری ہے کہ وہ تمام اداروں کو آئینی حدود سے تجاوز نہ کرنے دے۔ آئین نے یہ حق اور ذمہ داری سپریم کورٹ کو دی ہے۔اب اگر کوئی پارٹی یا لیڈر کروڑوں افراد کے ووٹ لے کر آیا ہے اور آئین کے منافی اقدامات کرنے لگے یا قانون سازی کرے تو سپریم کورٹ کے چند ججوں ہی نے اسے ایسا کرنے سے روکنا ہے۔ ان کی تعداد کم ہوگی، مگر ان کے ساتھ ریاست اور آئین کی قوت شامل ہونے سے وزن بہت زیادہ بڑھ جائے گا، حتیٰ کہ کروڑوں کے مینڈیٹ کی حامل پارلیمنٹ کو بھی وہ فیصلہ ماننا پڑے گا۔ نہیں مانے گی تو پھر آئین کی خلاف ورزی ہوگی اور پھر اس پارلیمنٹ کا اپنا وجود ہی خطرے میں پڑ جائے گا۔ اس لئے بات چند لوگوں اور عوامی مینڈیٹ کی نہیں ،بلکہ اصول اور ضابطوں کی ہے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔