سپروومین عاصمہ جہانگیر بھی چل بسیں
بین الااقوامی شخصیت اور پاکستان کے اندر انسانیت اور جمہوریت کی بات کرنے والی سپر وومین عاصمہ جہانگیر صاحبہ انتقال کر گئیں ہیں ۔کیا کمال خاتون تھی کہ جس اصول پر کمٹمنٹ کرتی تھی ،بہادری سے اس اصول یا سچ پر اظہار خیال کرتی تھی ۔جمہوریت کے حوالے سے ان کا یہ طاقتور نقطہ نظر تھا کہ جو لوگ ووٹ لیکر حکومت میں آتے ہیں ،ان کے خلاف غیر جمہوری قوتوں کی سازشیں غیر انسانی ہیں ،جسے کسی صورت میں برداشت نہیں کیا جانا چاہیئے ۔ جنرل یحیی سے جنرل ضیاٗ اور جنرل مشرف جیسے آمر خلاف کھڑی رہیں اور کبھی کسی قسم کا کمپرومائز نہیں کیا ۔پاکستان میں اگر کوئی حقیقی بہادر خاتون تھی تو ان کا نام تھا عاصمہ جہانگیر صاحبہ ۔کہا کرتی تھی کہ وہ اپنا نظریہ کھل کر بیان کرنے سے کبھی خوف زدہ اس لئے نہیں ہوتی کہ انہیں یقین تھا کہ کوئی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ۔کہتی تھی سچ یا اصول کی بات پر آپ کا دشمن زیادہ سے زیادہ آپ کو مار سکتا ہے ۔انسانیت اور جمہوریت کی وکیل عاصمہ جہانگیر کے ہم سب مقروض ہیں ،آج ہم اگر تھوڑی بہت آزادی انجوائے کررہے ہیں تو اس کی وجہ عاصمہ جہانگیر صاحبہ ہیں ۔غیر جمہوری رویوں اور غیر انسانی روایات کے خلاف بے خطر ہوکر اور کھل کر تنقید کرتی تھی ،سچ اور انسانی حقوق کی خاطر ہر قسم کا خطرہ مول لیتی تھی ۔جس ایشو پر بھی سٹینڈ لیتی تھی ،وہ ایشو تحریک کی شکل اختیار کر لیتا تھا ،جس پر پاکستان بھر میں بحث و مباحثہ شروع ہو جاتا تھا ۔جمہوریت اور محروم طبقات کے حقوق کی خاطر کھل کر بولنے کا نام عاصمہ جہانگیر تھا ۔کیا کبھی پاکستان میں ایسی خاتون کسی نے دیکھی ہے جو اپنے زاتی مفادات کو اہمیت نہ دیتی ہو اور صرف دوسرے طبقات کے حقوق کے تحفظ کی خاطرلڑتی رہے ۔عاصمہ صاحبہ وہ خاتون تھی جنہوں نے سچ ،حقیقت پسندی اور انسانی حقوق کے اصولوں پر کبھی کسی قسم کا کمپرومائز نہیں کیا ۔آمریتیں آئیں تو جمہوریت کی بالادستی کے لئے سختیاں اور جیلیں برداشت کی اور جمہوریت کا بول بالا ہوا تو بہتر جمہوریت کے لئے میدان میں آئیں ۔وہ صرف ڈرائینگ روم اور ٹی وی چینل پر بات نہیں کرتی تھی ،اپنے آپ کو صرف سیمیناروں تک محدود نہیں رکھا ،بلکہ انسانیت کے احترام کی خاطر سڑک پر آئیں ،ظلم و جبر برداشت کیا ،لاٹھیاں سہیں،لیکن کسی قسم کا کمپروپائز نہیں کیا ۔یہ معاشرہ جس میں ہم رہ رہے ہیں ،یہ گونگوں ،منافقوں اور جھوٹوں کا معاشرہ ہے جہاں ظلم کے سامنے لوگوں کی اکثریت خاموش رہتی ہے ۔لیکن عاصمہ جہانگیر ایسی نہ تھی ۔وہ بہت سارے انسانوں کی آواز تھی ،جمہوریت ،انسانیت ،اقلیتوں ،خواتین اور بچوں سب کے حقوق کے تحفظ کی خاطر سڑک پر آئیں ،کیمرے کے سامنے آئیں اور کھل کر اظہار خیال کیا ۔انسانیت کی خاطر عاصمہ صاحبہ نے جو خدمات سرانجام دیں ،ان خدمات کو کبھی بھی بھلایا نہیں جاسکے گا ۔ابھی ان کے جانے کا وقت نہیں تھا ،ان کا جانا قوم کے لئے بہت بڑا صدمہ ہے۔مردوں کے معاشرے میں بے باک خاتون کا خطرناک انداز میں کھل کر بولنا ،دھمکیاں برداشت کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا ،لیکن عاصمہ صاحبہ پنتالیس سال تک یہ مشکل کام ثابت قدمی سے سرانجام دیتی رہیں ۔بزدل معاشرے میں بے باک سچ بولنا ،ہر قسم کا الزام سہنا اور ہنس کرآگے بڑھ جانے کا نام تھا عاصمہ جہانگیر صاحبہ ۔انہیں کافر کہا گیا ،غدار کہا گیا ،احمدی کہا گیا ،ملک دشمن کہا گیا ،روایات کا دشمن کہا گیا ،ہر قسم کے گھٹیا الزامات لگائے گئے ،قتل کی دھمکیاں دی گئیں ،لیکن وہ ثابت قدمی کے ساتھ کھڑی رہی ،میمو گیٹ پر جب سب خوف زدہ ہوگئے ،تو وہ میمو گیٹ پر بولی ،سب نے کہا بی بی ہاتھ ہولہ رکھیں تو کہا وہ تو سچ بولیں گی ،یہاں تک کہ وہ اس کرہ ارض پر سچ بولنے والی آخری خاتون ہی کیوں نہ رہ جائیں ۔اسٹیبلشمنٹ کے غیر جمہوری ہتھکنڈوں پر کھل کر بات کی ،فیض آباد دھڑنے پر کھل کر بات کی ،ایک بار جو فیصلہ کر لیتی تھی ،اس کے بعد اس فیصلے سے پیچھے نہیں ہٹتی تھی ۔غیر مقبول نظریات اور خیالات پر کھل کر بولنے کے لئے جگرا اور حوصلہ چاہیئے اور وہ صرف عاصمہ جہانگیر صاحبہ کے پاس تھا ۔ایک زمانے میں نوازشریف انہیں سخت ناپسند کرتے تھے ،یہ وہ زمانہ ہے جب نوازشریف اپنے آپ کو امیر المومنین بنانے کے چکر میں تھے ،لیکن اب جب کہ جمہوریت اور نواز شریف مشکلات شکار ہیں ،عاصمہ جہانگیر ہی وہ خاتون تھی جو کھل کر ان کے ساتھ کھڑی تھی ،ان پر الزام لگایا جاتا تھا کہ وہ نواز شریف کی ساتھی اور پیروکار بن گئیں ہیں ،اس پر کہتی تھی کہ وہ جمہوریت کے عمل کو آگے بڑھانے کے لئے کسی کے ساتھ بھی کھڑی ہو سکتی ہیں ۔وہ عمران جو عاصمہ جہانگیر کے فین تھے ،آجکل ان کے خلاف سخت بیانات دے رہے تھے اور شدید تنقید کا نشانہ بنا رہے تھے ،ایسا کیوں ،ہم سب جانتے ہیں ؟جوڈیشری کی بحالی کی تحریک میں پیش پیش رہیں اور جب اسی جوڈیشری نے جمہوریت اور آزادی پر قدغن لگانے کی کوشش کی تو عاصمہ جہانگیر عدالت کے خلاف بھی آواز بند کرتی نظر آئیں ۔وہ صرف مارشل لاٗ کے خلاف نہیں تھی بلکہ سویلین ڈکٹیٹر شپ کو بھی چیلنج کیا ،اسی وجہ سے انہیں متنازعہ شخصیت بنا دیا گیا ۔وہ ٹی وی اینکرز جو کیمروں کے سامنے عاصمہ جہانگیر کو غدار ،ملک دشمن اور کافر کہتے تھے اور ان پر قتل کے فتوے جاری کرتے تھے ،جب ان پر پابندیاں لگ گئی تو پھر عاصمہ جہانگیر عدالت میں ان کے حق میں کھڑی ہو گئی۔سب نے کہا بی بی یہ تو آپ کو غدار کہتے تھے ،تو کہتی وہ تو اصول کے ساتھ ہیں اور اصول یہ ہے کہ آزادی سب کے لئے ہونی چاہیئے چاہے وہ آپ کا دوست ہے یا دشمن ۔وہ موقع پرست نہیں تھی ،اس لئے تو روایت پسند ضیاٗ کے خلاف بھی جنگ لڑی اور روشن خیال مشرف کو بھی ٹف ٹائم دیا ۔وہ ایک ایسی خاتون تھی جو ایک لمحے میں فیصلہ کرتی تھی کہ فلاں یشو پر ان کا نقطہ نظر کیا ہوگا ۔آج میرے جیسے انسان اگر کھل کر بات کررہے ہیں اور اس آزادی کو انجوائے کررہے ہیں تو اس کی وجہ عاصمہ جہانگیر ہیں ۔انہوں نے ہمیں بتایا اور سکھایا کہ کیسے آزادی سے ہم بات کرسکتے ہیں ،کیسے ہم ریاست پر تنقید کرسکتے ہیں کہ وہ محروم طبقات کی حق تلفی سے دور رہے ،انہوں نے ہمیں سکھایا کہ کیسے اس ملک کے ماحول اور معاشرے میں جمہوری اور انسانی روایات کو آگے بڑھانا ہے ۔پاکستان کاآج کا ماحول پھر بھی کسی حد تک مناسب ہے کہ ہم بھی کھل کر کسی ایشو پر اپنا موقف بیان کردیتے ہیں ،کیونکہ آج ٹی وی کیمروں کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا ہے ،لیکن وہ تو اس دور میں بھی بے باکی سے اپنی آواز بلند کرتی رہی جب پرنٹ میڈیا ریاست کے کنٹرول میں تھا ۔ہم جیسے تمام انسان عاصمہ جہانگیر کے مقروض ہیں ،وہ نہ ہوتی تو ہم بھی جھوٹے اور منافق ہوتے۔اللہ ان کی مغفرت کرے ،ایسی بہادر خاتون شاید ہی اب پاکستان کو نصیب ہو ۔گالیاں برداشت کی ،تنقید برداشت کی ،لیکن کسی قسم کی پروا نہیں کی ،ہر حساس ایشو پر اپنا موقف دیا اور لوگوں کو سمجھایا کہ وہ کھل کر بولیں اور اس مشن میں وہ بہت حد تک کامیاب رہیں ۔کہا جاتا ہے کہ سچ وہ ہوتا ہے جو وقت پر بولا جاتا ہے ،عاصمہ جہانگیر صاحبہ کا یہی کمال تھا کہ انہوں نے سچ اس وقت بولا جب سچ بولنے کا وقت تھا۔
نہ منہ چھپا کے جئے ہم نہ سر جھکا کے جئے
ستم گروں کی نظر سے نظر ملا کے جئے
اب ایک رات اگر کم جئے تو کم ہی سہی
یہی بہت ہے کہ ہم مشعلیں جلا کے جئے
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔