چند ماہ قبل امریکی انٹیلی جنس چیف جان ریٹ کلف نے اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ چین جینیاتی طور پر تبدیل شدہ ایسے فوجی تیار کر چکا ہے جو غیرمعمولی قوتوں کے مالک ہوں گے۔ ان کی بےشمار صلاحیتیوں میں بھاری اشیاء اٹھانا، اندھیرے میں بھی دیکھ لینا اور غیرمعمولی رفتار سے طویل فاصلوں تک دوڑنا شامل ہو سکتے ہیں۔ اس انکشاف کے بعد ان افواہوں میں شدت آ گئی جن کے مطابق چین فوق البشر قسم کے انسان پیدا کرنے کی ٹیکنالوجی میں بہت آگے بڑھ چکا ہے۔
دو ماہ پہلے میڈیا میں رپورٹس آئی تھیں کہ ایک امریکی سائنسدان نے بندر کے بیضے میں انسانی خلیے داخل کر دیے ہیں۔ اگر یہ تجربہ کامیاب ہو جاتا تو ایسی مخلوق پیدا ہوتی جو آدھی بندر اور آدھی انسان ہوتی مگر مسلسل تنقید کے بعد اس بیضے کو ضائع کر دیا گیا اور یہ تجربہ ادھورا رہ گیا۔ لیکن کسے معلوم کہ دنیا کے مختلف ممالک میں خفیہ طور پر ایسے تجربات ہو رہے ہوں۔
مختلف جانوروں اور پرندوں کے جینز میں تبدیلی کے حوالے سے سائنسدان مسلسل تجربات کر رہے ہیں۔ اس میں انہیں غیرمعمولی کامیابیاں مل رہی ہیں جن کی تفصیلات عالمی جریدوں میں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ تاہم اب یہ سلسلہ انسانوں پر تجربات کی جانب آنے لگا ہے۔
کرہ ارض پر زندگی کے اولین خلیوں سے جو سفر شروع ہوا تھا وہ کئی لاکھ سال پہلے انسان کی صورت میں اپنے عروج کو پہنچ گیا۔ ارتقا کے اس سست رفتار عمل کو انسان کی تخلیق تک پہنچنے میں ساڑھے تین ارب سال لگے ہیں۔ اس دوران بےشمار انواع صفحہ ہستی سے مٹ گئیں اور بہت سی معدوم ہونے کے قریب پہنچ گئیں۔
قدرت کا اپنا نظام ہے جس کے تحت زندگی کی شکل میں معمولی سی تبدیلی لانے میں بھی لاکھوں برس لگ جاتے ہیں۔ یہ ایک خودکار نظام ہے جس کے اصول قدرت نے طے کر دیے تھے۔
ساڑھے تین ارب سال کے طویل دورانیے کے بعد اب صورتحال میں اساسی تبدیلی یوں آئی ہے کہ ارتقائی عمل انسان کے ہاتھ میں آ گیا ہے۔ اگرچہ ابھی تک یہ اختیار ابتدائی سطح پر حاصل ہوا ہے مگر جتنی تیزی سے جینز میں تغیر و تبدیلی کی صلاحیت بڑھ رہی ہے اسی تیزی سے انسان ارتقا کے عمل پر مکمل دسترس کی طرف جا رہا ہے۔ اس کی وجہ سے ارتقائی عمل میں غیرمعمولی تیزی آ رہی ہے، جس چھوٹی سی تبدیلی پر قدرت کو لاکھوں کروڑوں برس لگ جاتے تھے، وہ انسان کے ہاتھ میں آ کر چند دہائیوں یا چند برسوں میں ممکن ہو چکی ہے۔
جینیاتی کوڈ کی دریافت اس حوالے سے سب سے بڑا بریک تھرو تھا۔ اس کے بعد جینز میں مرضی کی تبدیلیاں کرنے کی تکنیک کرسپر کی صورت میں سامنے آئی جو موثر اور انتہائی سستی ہے۔ ان کامیابیوں کے بعد ارتقا کی منازل تیزی سے طے کرنا چند دہائیوں کی بات بن کر رہ گئی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ مصنوعی ذہانت کو انسان کے دماغ سے جوڑنے پر بھی کامیابی سے کام شروع ہے۔ کئی سائنسدانوں کا خیال ہے کہ جدید سائنسی ترقی کی بدولت ہم سپر ہیومنز یا فوق البشر انواع پیدا کرنے کی صلاحیت حاصل کر چکے ہیں۔
کچھ عرصہ قبل ایلان مسک کی کمپنی نے مختصر چپ ایک بندر کے دماغ میں داخل کرنے اور اس کے مختلف دماغی افعال کا مشاہدہ کرنے کا مظاہرہ کیا تھا۔ اگرچہ یہ ابتدائی سطح کی ٹیکنالوجی ہے مگر اس میں بہت بڑے امکانات پوشیدہ ہیں۔
ایک جانب جینیاتی تبدیلیاں کرنے کی صلاحیت اور دوسری جانب انسانی دماغ میں کمپیوٹر چپ داخل کرنے کا منطقی نتیجہ سپر ہیومن کی شکل میں ظاہر ہو گا۔
یہی وجہ ہے کہ کئی سائنسدانوں کے خیال میں انسان کی بطور ایک نوع موجودگی کی یہ آخری صدی ہو سکتی ہے۔ اسی خدشے کے پیش نظر جین ایڈیٹنگ کے متعلق سائنسی کمیونٹی منقسم ہے۔
کچھ اس ٹیکنالوجی کے استعمال کے خلاف ہیں جبکہ بعض کا خیال ہے کہ اس کے ذریعے انسانوں کو تمام بیماریوں سے نجات دلائی جا سکتی ہے۔ اسی طرح وائرس رکھنے والے مچھروں اور دیگر انواع کے جینز میں ایسی تبدیلیاں کی جا سکتی ہیں جو اس وائرس کو بےضرر بنا دیں۔ ایسے تجربات کی کامیابی سے وباؤں کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ممکن ہو سکتا ہے۔
اس کی ایک مثال مچھروں کے ذریعے پھیلنے والا زیکا وائرس ہے۔ گزشتہ برس امریکہ میں 75 کروڑ خودکش مچھر تیار کیے گئے جنہیں گزشتہ ماہ فلوریڈا میں چھوڑا گیا۔ ان مچھروں کے جینز میں ایسی تبدیلی کی گئی تھی جس کے بعد وہ بچے تو پیدا کر سکتے تھے مگر یہ بچے ابتدائی عمر میں ہی مر جاتے۔ یوں ان کے زیکا وائرس پھیلانے کے امکانات بھی ختم ہو جاتے۔
اپنے بیشمار فوائد کے باعث انسانوں میں جین ایڈیٹنگ کا سلسلہ اب روکنا ممکن نہیں۔ کئی سائنسدانوں کے خیال میں جب یہ سلسلہ انسانوں تک پہنچے گا تو نسل انسانی اپنی موجودہ شکل میں زیادہ عرصہ باقی نہیں رہ پائے گی۔ ارتقا کے جس جن کو سائنسدانوں نے بوتل سے باہر نکالا ہے وہ خود اپنے خالق کو کھا جائے گا۔ ممکن ہے کہ اگلی ایک دو صدیوں میں نوع انسانی فقط چڑیا گھر میں پائی جائے۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ارتقا کے اس بھاری پتھر کو اٹھائے گا کون؟ اس وقت دنیا میں دو سیاسی نظریات کا مقابلہ چل رہا ہے۔ ایک جانب مغرب ہے جو انفرادی آزادی اور جمہوریت کا علمبردار ہے۔ ان سے جڑی روایات کو مغرب میں تقدیس کا درجہ حاصل ہے۔
اس کی وجہ سے ان کے سائنسدانوں کے لیے فوق البشر انواع پیدا کرنے کی راہ میں بڑی رکاوٹیں ہیں۔ آئین، قانون، عدالتیں، میڈیا اور ان جیسے بےشمار عوامل رستے میں حائل ہیں۔ سول سوسائٹی کا دباؤ الگ سے موجود رہتا ہے۔
اس کے برعکس چین کا منفرد سیاسی نظام نہ ہی روایتی جمہوریت پر مبنی ہے اور نہ ہی وہ فرد کی انفرادی آزادیوں کو اجتماعی مفاد پر فوقیت دیتا ہے۔ یہ شروع سے ہی مشرق کا انداز رہا ہے کہ اجتماعیت کو انفرادیت پر بالادستی دی جاتی رہی ہے۔ اس پہلو سے چین مشرقی روح کی نمائندگی کرتا ہے۔
اس لیے غالب امکان ہے کہ سپر ہیومن انواع پیدا کرنے میں چین کا بڑا کردار ہو گا۔ عین ممکن ہے کہ ریاستی سرپرستی میں ایسے تجربات کیے جا رہے ہوں جن کا نتیجہ غیرمعمولی انسانوں کی ایسی نسل سے نکلے جو ہم سے اسی طرح مختلف اور بالاتر ہو جیسے ہمارا اور چمپنزی کا معاملہ ہے۔
اس حوالے سے مختلف قسم کے سازشی نظریات میڈیا میں سامنے آتے رہتے ہیں لیکن ہم یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ ان میں کسقدر سچائی ہے کیونکہ چین نے اپنے اردگرد ایک آہنی دیوار کھڑی کی ہوئی ہے۔
مغربی ممالک میں بھی خفیہ طور پر اس ضمن میں کاوشیں جاری ہوں گی مگر جس بڑے سائز میں چین ایسے تجربات کر سکتا ہے، مغرب اس کا عشر عشیر بھی نہیں کر سکتا۔
چین اپنے نظام کی بدولت جس منصوبے پر کام کرتا ہے، اس پر تیزی سے عملدرآمد کر لیتا ہے۔ اس نے ڈیم بنانا ہو تو کروڑوں کی تعداد میں لوگوں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کر دیتا ہے۔ کوئی عدالتوں میں سٹے لینے نہیں جاتا، کسی میں احتجاج کی مجال نہیں ہے، کسی کو سوشل میڈیا پر مخالف مہم چلانے کی اجازت نہیں ہے۔ یوں چین ہر بڑے قومی منصوبے کو حیرت انگیز رفتار سے مکمل کر لیتا ہے۔
چین نے تیزرفتار ترقی کی جو مثال قائم کی ہے، اس کا مقابلہ روایتی جمہوری اقوام نہیں کر سکتیں۔ انہیں نے چین کے مقابلے پر آنا ہے تو لبرل جمہوریت اور فرد کی آزادی پر بڑی حد تک قدغنیں لگانا ہوں گی جس کے لیے یہ معاشرے تیار نہیں ہیں۔
جو ترقی پذیر ممالک تیزی سے معیشت اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی کرنا چاہتے ہیں، ان میں بھی چین جیسے ماڈل کو اپنانے کی خواہش ابھر رہی ہے۔
بھارت، جسے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہا جاتا ہے، وہاں بھی مودی حکومت عدلیہ، الیکشن کمیشن اور روایتی میڈیا کو مکمل کنٹرول کرنے کے بعد اب سوشل میڈیا پر قابو پانے کی راہ پر گامزن ہے۔ سوائے ٹویٹر کے دیگر تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارمز نے مودی حکومت کے نئے اصول و ضوابط کے سامنے سر جھکا دیا ہے۔
البتہ بھارت میں اپوزیشن ابھی بھی موجود ہے، انتخابات بھی مسلسل جاری رہتے ہیں، باغی آوازیں اب بھی زور مچا رہی ہیں۔ جس کے نتیجے میں بھارت نہ جمہوریت رہا ہے اور نہ ہی آمریت۔ اس وجہ سے وہ نہ چین کی طرح کورونا پر قابو پا سکا ہے اور نہ ہی وہ ٹیکنالوجی میں کوئی بڑی پیشرفت کر سکا ہے۔
ایسے لگتا ہے کہ نسل انسانی کے ارتقائی سفر کی اگلی منزل کا تعین چین کرے گا۔