سنگاپور میں تین قومیتیں بستی ہیں، چینی، جو اکثریت میں ہیں۔ ملے ،جو ملائیشیا، انڈونیشیا اور برونائی کے مسلمانوں کی طرح مقامی ہیں۔ ہندوستانی نژاد، جو سیاہ فام تامل ہیں۔ دو ہفتے قبل ایک خبر سنگاپورکے بارے میں پڑھ کر حیرت ہوئی۔ پولیس نے دواشتہاری ملزموں کوپکڑا، لیکن ایک ممبر پارلیمنٹ نے پچاس ساتھیوں کی قیادت کرتے ہوئے تھانے پر حملہ کردیا اوراشتہاری ملزم چھڑوا کر ساتھ لے گیا۔ تشدد کی وجہ سے ایک پولیس افسر کی پسلیاں ٹوٹ گئیں۔ تھانے کی عمارت اور فرنیچر جس طرح تہس نہس ہوا وہ الگ قصہ ہے۔
ورطۂ حیرت میں ابھی میں غوطے کھا ہی رہا تھا کہ ایک اوروحشت اثر خبر بجلی بن کر گری۔ یہ خبرمتحدہ عرب امارات کی تھی۔ دوبدمعاشوں نے ایک 21 سالہ لڑکی کو اجتماعی ہوس کا نشانہ بنایا۔ درندے ساتھ فلم بھی بناتے رہے۔ اس پر ان انسان نما جانوروں کو پولیس نے گرفتارکرلیا، لیکن پارلیمنٹ کا مقامی ممبر اپنے دوستوں کے ساتھ پولیس افسر کے پاس آیا اور ملزموں کو چھوڑنے کیلئے دبائو ڈالتا رہا۔ ایک ملزم کا بھائی وکیل برادری سے تعلق رکھتا تھا۔ وکیل بھی اکٹھے ہوگئے۔ ممبر پارلیمنٹ اور وکلاء نے پولیس افسر پر اس قدر جسمانی تشدد کیا کہ وہ زخمی ہوگیا۔
ابھی جبیں سے پسینہ بھی نہیں پونچھا تھا کہ مقبوضہ فلسطین سے ایک دردناک خبر موصول ہوئی۔ ایک بے رحم لینڈ لارڈ نے ایک غریب فلسطینی بچے کے دونوں بازو جسم سے کاٹ کر الگ کردیئے۔
آپ حیران ہو رہے ہیں۔ کنفیوزڈ ہیں۔ اس لئے نہیں کہ تھانے پر حملے ہوئے یا بچے کے بازو کاٹ دیئے گئے۔ ان خبروں کے جو حصے آپ کو ہضم نہیں ہورہے وہ اور ہیں! آپ حیران ہیں کہ سنگاپور میں تھانے پر حملہ اوروہ بھی پچاس افراد کا… یہ کس طرح ممکن ہے؟ پھر یو اے ای میں۔ اول تو اجتماعی زیادتی کی کسی کی جرأت ہی نہیں ہوتی۔ اس پر مستزاد یہ حیرت انگیز خبر ہے کہ ممبر پارلیمنٹ اوراس کے جتھے نے پولیس افسر کو مارا پیٹا۔ یہ اس یو اے ای میںکس طرح ممکن ہے جہاں شاہی خاندان کا فرد بھی غلط پارکنگ کرے تو پولیس والا کھڑے کھڑے وہیںچالان کر دیتا ہے۔ کوئی فون آتا ہے نہ کسی کا استحقاق مجروح ہوتا ہے۔ نہ ہی چالان کرنے والے کو نوکری بچانے کیلئے ہاتھ جوڑ کر پائوں پکڑ کر معافی مانگنا پڑتی ہے۔
آپ کی حیرت بجا ہے۔ یہ دونوںواقعات سنگاپور میں ہوئے نہ یو اے ای میں۔ یہ تو پاکستان میں رونما ہوئے۔ پہلا فیصل آباد میں، دوسرا قصور میں۔ لیکن پوچھا جانا چاہیے کہ لکھنے والے نے آئو دیکھا نہ تائو، ان دو بے قصور ملکوں کو خواہ مخواہ کیوں رگڑڈالا؟
اس لئے کہ دونوں ہمارے جیسے ہیں۔ سنگاپور ہماری طرح کا ایشیائی ملک ہے۔ وہاں گوروں کی آبادی ہے نہ انگریزوں کی حکومت! ابھی کچھ عرصے پہلے تک وہاںکا صدر ایک سیاہ فام تامل ہندو تھا! چند عشرے قبل سنگاپور ایک ساحلی گائوں تھا۔ گندا اور پسماندہ! گلیاں کیچڑ سے بھری ہوئی! مدقوق چینی عورتیں ، قلی بن کر سر پر سامان اٹھائے پھرتی تھیں۔ سائیکل رکشے ٹرانسپورٹ کا سب سے بڑا ذریعہ تھا۔
یو اے ای ہماری طرح مسلمان ہیں۔ کوٹ پتلون پہنتے ہیں نہ ٹائی لگاتے ہیں۔ قبا نما لمبی قمیض اور سر پر رومال۔ نمازیں پڑھتے ہیں۔ روزے رکھتے ہیں، عمرے اور حج ادا کرتے ہیں۔ مرنے والے کا جنازہ پڑھتے ہیں اور نوزائیدہ کے کان میں اذان کہتے ہیں۔
تو پھر یہ کیوں ہے کہ اس طرح کے ’’واقعات‘‘ سنگاپور یا یو اے ای کے حوالے سے کوئی بھی تسلیم کرنے کو تیار نہیں؟ اس کی وجہ لکھنے والا بھی جانتا ہے اورپڑھنے والے بھی۔ اور تو اور اس کی وجہ حکمران بھی جانتے ہیں۔ لیکن جاننا اور بات ہے، ماننا اور!
اگر یہ واقعہ سنگاپور یا یو اے ای میں ہوتا تو کیا وہ ایم پی اے صاحب اب تک زنداں سے باہر ہوتے؟ نہیں! اور یہ ہے فرق پاکستان اور سنگاپور میں۔ اور پاکستان اور متحدہ عرب امارات میں! امریکہ اور سوئٹزرلینڈ کی تو ہم بات ہی نہیں کرتے۔
یہ واقعہ رونما ہوا تو پہلے تو پنجاب کے حکمران اعلیٰ نے کمیٹی بنائی کہ انکوائری کرے گی تو کیا ان معاملات میںبھی انکوائری کمیٹیاں بنائی جاتی ہیں جہاں ایم پی اے ملوث نہ ہو؟ پھر کمیٹی نے رپورٹ میںکنفرم کیا کہ ایم پی اے ملوث ہے تو حکمران اعلیٰ نے گرفتاری کا ’’حکم‘‘ دیا۔ تو کیا ہر ضلع کے ہر پولیس سٹیشن کے معاملات میں حکمران اعلیٰ خود گرفتاری کے احکام دیتا ہے؟ پھر ایف آئی اے میں’’ایک سیاست دان‘‘ کا نام لیا گیا یعنی آج تک ایف آئی آرمیں متعلقہ فرد کانام ہی شامل نہیں! تادم تحریر وہ گرفتار نہیں ہوا۔ کیا کوئی ذی عقل پاکستانی یہ بات مان سکتا ہے کہ پنجاب پولیس کسی کوگرفتار کرنے پر تل جائے اوروہ گرفتار نہ ہو؟ یہی صاحب فروری 2013ء میں اسی پولیس سٹیشن پر حملہ کرنے اور ایک پولیس افسر کو زدوکوب کرنے کے مجرم نکلے۔ آرٹیکل 65 کے تحت مقدمہ قائم ہوا لیکن اس سے پہلے کے پولیس ایکشن لیتی، آپ صوبائی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوگئے۔ اور اسمبلی کا ممبرگرفتارنہیں ہوسکتا۔!! ہوسکتا تو وزیراعلیٰ انکوائری کمیٹی بناتے نہ ذاتی طور پر خود احکام دیتے پھرتے! جوکچھ قصور میں ہوا، یعنی ایم پی اے اور وکیل برادری نے پولیس افسر پر اخباری اطلاعات کے مطابق حملہ کیا۔ تشدد کے مرتکب ہوئے تو کیا ملزم گرفتار ہوئے؟
روزنامہ دنیا کی خبر کے مطابق ’’ایس ایچ او نے میڈیکل حاصل کرکے ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی کوشش کی تو ڈی پی او نے ایس ایچ او صدر کومقدمہ درج کرنے سے روک دیا‘‘۔
اس خبر کے ساتھ حبیب جالب فیم حکمران اعلیٰ کا یہ بیان ملاحظہ کیجیے۔’’سہل پسند افسر مجھ سے رعایت کی امید نہ رکھیں…!‘‘
یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ سہل پسند افسر سے مراد وہ افسر ہوگا جو کسی ایم پی اے یا ایم این اے کو گرفتار کرنے کی جرأت کرے گا! ایسے افسر کسی رعایت کی امید نہ رکھیں۔
رہی یہ خبر کے اسرائیل میں ایک فلسطینی دس سالہ بچے کے دونوں بازو کاٹ دیئے گئے ہیں تو یہ واقعہ اسرائیل میں یقینا نہیں ہوا۔ اگرایسا ہوتا تو… عمران خان سے لے کر سراج الحق تک اور منور حسن سے لے کر وحدت المسلمین کے رہنمائوں تک سب مذمت کرچکے ہوئے۔ یہ واقعہ پاکستان میں ہوا۔ اوروہ بھی وسطی پنجاب میں جو حکومتی پارٹی کی لائف لائن ہے۔ معصوم بچے کے دونوں بازو جان بوجھ کر، کاٹے گئے اور آسمان ٹوٹا نہ زمین دھنسی۔ یہ خبر ہمارے رہنمائوں کیلئے کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ اعتزاز احسن سے لے کر رضا ربانی تک، مولانا فضل الرحمن سے لے کر الطاف حسین تک سب چپ ہیں۔ اس لئے کہ یہ بچہ پاکستانی ہے۔ اور پاکستانی صرف اس لئے ہیں کہ ان کے جسموں کے ٹکڑے کر دیئے جائیں۔ اگر یہ بچہ چیچنیا کا ہوتا یا فلسطین کا تو بیانات سے لے کر جلوسوں تک…ایک ہنگامہ برپا ہو چکا ہوتا۔ ہوسکتا ہے کہ ملزم ، اگرایم پی اے نہیںہے تو گرفتار کرلیا گیاہو لیکن تادم تحریرمظلوم خاندان ایف آئی آر کٹوانے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ اگر حکمرانوں کو وقت میسر آ گیا تو انکوائری کمیٹی بٹھائی جائے گی اور پھرجرم ’’ثابت‘‘ ہونے پر حکمران بہ نفسِ نفیس حکم دیں گے کہ ایف آئی آر کاٹی جائے۔
تازہ خبر بھی سنتے جائیے کہ کئی ممالک کے ارکان پارلیمنٹ جو قانون سے مبرا نہیں اور پولیس انہیں کسی کے ’’خاص حکم‘‘ کے بغیر ہی پکڑ سکتی ہے، کوشش کر رہے ہیںکہ پاکستان کی قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ممبربن جائیں۔ یہ بھی خبر بھی گرم ہے کہ ظالم اسرائیلی جو فلسطینی بچوںکے بازو کاٹنے کے خواہشمند ہیں اور ایسا نہیں کرپا رہے کہ بین الاقوامی میڈیا میں شور برپا ہو جائے گا، پاکستانی بچوںکودرآمد کرنے کا سوچ رہے ہیں کیونکہ اگر پاکستانی بچوں کے بازو کاٹ کر پھینک دیئے جائیں۔ تو شور کیا برپا ہوگا، پتہ تک نہیں ہلے گا!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“