دنیا بھر میں جہاں جہاں شفیق نام کے لوگ ہیں ان کو “سنو شفیق” کہہ کر وہ کچھ سنایا گیا جو کچھ انھوں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔
لاکھوں شفیق نامی اشخاص سے میں بھی ایک شفیق ہوں جس نے بہت کچھ سنا اور محظوظ بھی ہوا۔
آج میرا دل کیا میں بھی کچھ سناؤں تو سنو شفیق کی بھی سن لو سے شروع کروں پاکستان میں ایک سال میں 12 موسم ہوتے ہیں یہ تک تو ثابت کر دیا گیا مگر ان 12 موسموں میں ایک موسم مہنگائی کا بھی آ گیا ہے اب کپتان اور اس کے قریبی اور بیرونی ممالک میں موجود عمرانئیے کہہ رہے ہیں کہ مہنگائی تو ہے ہی نہیں ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں مہنگائی کا موسم پوری آب و تاب سے گھنے بادلوں کی طرح نہ صرف چھایا ہوا ہے بلکہ مہنگائی گھنے برستے بادلوں کی طرح برس بھی رہی ہے۔
جب بارش برستی ہے تو ایسا تو کبھی نہیں ہوتا کہ چار لوھار بھیگ جائیں اور چار کمھار سوکھے رہیں۔ لوہار تو میں نے قافیے کے چکر میں گھسیٹ لیا دراصل کمھار بیچارے دعا مانگتے رہتے ہیں کہ بارش نہ ہو مبادا کہ ان کے کچی مٹی کے بنے کچے برتن دھوپ میں سوکھتے رہیں جن کو بیچ کر ان کی دال روٹی چلتی ہے۔
سنو دوستو اس برستی مہنگائی میں “مقامی” عمرانئیے بھی بھیگ رہے ہیں۔ کیونکہ ان کی موٹرسائیکلیں پٹرول کی بجائے پانی کے ساتھ نہیں چلتیں۔ جبکہ “بیرونی” عمرانئے محفوظ ہیں۔
جب نیا نیا عشق عروج پر ہوتا ہے ناں تو لڑکے کو معلوم ہوتا ہے تو لڑکا لڑکی کے سامنے “آسمان” سے تارے توڑ کر لانے کے دعوے اور وعدے کرتا ہے۔
ایسے ہی عمران نیازی نے اپنے عمرانیوں کو آسمان سے تارے توڑ کر لانے کے وعدے کئے تھے ایک کروڑ نوکریاں پچاس لاکھ سستے گھر 90 دن میں کرپشن کا خاتمہ پہلے 100 دن میں ہی نیا پاکستان بن جانا تھا۔
پتہ تو تب چلتا ہے جب شادی ہو جاتی ہے اور لڑکی کے سسرال والے کہتے ہیں پتر اب کما کر لاو۔
یہی کچھ کپتان کے ساتھ ہوا اس بیچارے نے کہا تھا کہ جب وہ حلف اٹھائے گا ڈالروں کی برسات ہو گی۔ اس کو اگر قرض مانگنا پڑا تو وہ تو خود کشی کر لے گا۔
اپنی اسی ضد میں لڑکے نے شروع میں آئی ایم ایف جانے سے انکار کر دیا۔ حالانکہ اس وقت پاکستان کا مورال بہتر تھا آئی ایم ایف نے پہلے سے طے شدہ آسان شرائط پر قرض دے دینا تھا۔ یاد رہے کہ آئی ایم ایف کا قرض عام بیرونی قرض سے اتنا سستا ہوتا ہے جیسے مفت قرض ہو۔ مگر پھر دیر ہو گئی۔
باپ کا خوف تھا لڑکے نے یاروں دوستوں سے قرض مانگا جو مختصر المدت بھی تھا اور بہت مہنگا تھا۔ اتنا مہنگا کہ سود کے ڈھیر لگتے گئے۔ حالات بگڑتے گئے چونکہ لڑکا نکما بھی تھا اور رج کے نالائق بھی اس کو کچھ سمجھ ہی نہ آئی۔
جب خودکشی کی بھڑک بھول کر یہ آئی ایم ایف کے پاس گیا تو وہ اب دیوالیہ ہوتے گھر کو قرض کیوں دیتے؟
قرض جب نہ دینے کی مرضی ہو تو پہلا اصول یہی ہوتا ہے کہ شرائط سخت سے سخت رکھ دی جائیں اور ایسا ہی آئی ایم ایف نے کیا۔
ان شرائط کے مطابق اب پٹرول کو 160 سے اوپر لے کر جانا ہے۔ بجلی مزید مہنگی کرنی ہے۔ اور مسئلہ یہ ہے کہ آج کے دور میں لوگ جو کچھ بھی کھاتے پیتے اور استعمال کرتے ہیں وہ سب کچھ کارخانوں سے آتا ہے اور کوئی کارخانہ بجلی گیس پٹرول کے بغیر چلتا نہیں۔ حتیٰ کہ کسانوں کے “ہل سہاگے” بیلوں کی بجائے ٹریکٹر سے چلتے ہیں جو سبز چارے کی بجائے ڈیزل کھاتے ہیں۔ کھیت میں گوبر کی بجائے ڈی اے پی اور یوریا ڈلتی ہے۔
مہنگائی نے ہر کسی کو مار کر رکھ دیا۔ اب وہ دلہنیں جن کو آسمان سے تارے توڑ کر ملنے تھے اب وہ اپنے زیور بیچ کر بجلی گیس کے بل جمع کروا رہی ہیں۔ اب بتاؤ جس کو گذارہ کرنے کے لئے اپنی چیزیں بیچنی پڑیں وہ ہینڈسم محبوب کا ماتھا چومے؟؟
بس یہی کچھ ہو رہا ہے۔
یہ شہباز گل جیسے لوگ جن کی سرکاری خزانے سے بھاری تنخواہیں لگی ہوئی ہیں اور کروڑوں جن سوشل میڈیا ایکٹوسٹ پر خرچ ہو رہے ہیں صرف وہی صبح شام جھوٹ لکھ اور بک رہے ہیں۔
سنو شفیق کی بات پر کسی شفیق کو غصہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اب جن کے نام عمران نیازی سلیکٹڈ کے علاؤہ بھی عمران خان ہیں ان کو تو بددعائیں اور گالیاں نہیں مل رہیں جو لوگ عمران کا نام لے کر ہر جگہ ہر وقت دیتے ہیں۔
شکریہ
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...