ایسے کیسے ہوسکتا ہے کہ بقر عید قریب ہو اور غریبوں کی مدد، سڑک پہ آلائشیں اور دکھاوا کا ٹیپ ریکارڈر نہ بجے۔ اس بار شروعات واٹر کولر سے ہوئی۔ اپنی بڑی سی کوٹھی کے آگے واٹر کولر لگا کر ایک صاحب نے ٹویٹ کیا کہ اس بار قربانی نہیں کریں گے بلکہ گھر کے باہر کولر لگا لیا ہے۔ صاحبِ کوٹھی نے کوٹھی بیچ کر بہت سارے غریبوں کو چھوٹے چھوٹے گھر بنا کر دینے کا عندیہ نہیں ظاہر کیا۔ فی الحال قربانی نہ کر کے واٹر کولر لگانے پہ اکتفا کرلیا ہے۔
کہیں پڑھا کہ وہ لوگ جو قربانی کرتے ہیں وہ اپنے مزے کے لیے کرتے ہیں اور بہانہ کرتے ہیں کہ اللہ کی راہ میں کرتے ہیں۔ اللہ کی راہ میں کرنے والے ہیں تو اپنے ملازمین کو بھی ایسا ہی جانور دلائیں کیونکہ غریبوں کی مدد تو ایسے ہی ہوگی پھر۔ ورنہ آپ کے جانوروں کو دیکھ کر غریبوں کو اپنی غربت کا احساس ہوتا ہے۔
تو عرض یہ ہے کہ شادی کے بعد سے ہماری قربانی ہمیشہ پاکستان میں سسرال میں ہوتی تھی۔ مرحومہ ساس ہمارا سارا حصہ بانٹ دیا کرتی تھیں۔ دو ہزار آٹھ میں ان کے انتقال کے بعد سے میں نے قربانی میکے میں کرنی شروع کردی۔ بھائی بھتیجے جب اپنا جانور لاتے تو میرا بھی لے آتے۔ اگر میں کراچی میں ہوتی ہوں تو گائے کٹنے پہ بھتیجا میرے لیے ذرا سی کلیجی لے آتا ہے کہ پھپھو چکھ لیں۔ باقی امی میری ساری گائے بانٹ دیتی ہیں۔ میکے میں الگ سے قربانی ہوتی ہے تو پھر اتنا گوشت کیا کرنا۔ امی ہمارے عیسائی کلینر کو صبح ہی بلا لیتی ہیں۔ فوراً ہی آلائشیں اٹھا لیتا ہے۔ تقریباً بارہ بجے تک ساری گائے بٹ جاتی ہے اور پورچ دھل دھلا کر صاف ستھرا ہوجاتا ہے۔ جب لاکھوں کی قربانی کی جا سکتی ہے تو کیا آلائشیں اٹھانے کے لیے ہزار روپے خرچ نہیں کیے جاسکتے۔ ہمارے عیسائی کلینر کا کہنا ہے کہ بقر عید پہ نہ صرف جی بھر کر گوشت ملتا ہے بلکہ اوپر سے صفائی کے پیسے بھی ملتے ہیں۔ کہتا ہے میں عید کے بعد اپنے بہت سے رکے ہوئے کام نمٹا لیتا ہوں۔
یہاں امارات میں بہت سسٹمیٹک کام ہے۔ آپ ذبحہ خانے پہنچ جائیں۔ اپنا جانور ذبحہ کرائیں اور صاف ستھرا کٹا ہوا گوشت گھر لے جائیں۔ وہیں پہ چیریٹی آرگنائزیشنز کے نمائندے ہوتے ہیں۔ جتنا چاہے گوشت انہیں دے دیں۔ اس کے علاوہ جو کوئی کسی غریب ملک میں قربانی کرنا چاہے وہ تین سو پچاس درہم جمع کرا دے۔ مقررہ وقت پہ قربانی ہوجائے گی۔ سڑک پہ آلائشیں قوم کی اپنی کوتاہی ہے جس کا الزام مذہبی فریضے پہ نہیں تھوپا جاسکتا۔
میں نے ساری زندگی غریبوں کو بقر عید پہ جی بھر کر گوشت کھاتے دیکھا ہے۔ پرسنلی میں بیف کی شوقین نہیں۔ مجھے مٹن پسند ہے لیکن امی کا کہنا ہے گائے کرلیا کرو۔ زیادہ لوگ مستفید ہوتے ہیں۔
یہ تو ہوگئے سارے فوائد لیکن وللہ میں قربانی اس لیے کرتی ہوں کہ سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ساری زندگی کی۔ جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صلواۃ ضحی مجھے عزیز ہے کہ میرے آقا نے ساری زندگی پڑھی۔ اسی طرح مجھے قربانی عزیز ہے جو میرے آقا نے ساری زندگی کی۔ میری زندگی کی زیادہ تر عیدیں ایسی ہی گزری ہیں جس میں میں نے اپنے ذبیحے کو چکھا تک نہیں۔
اب ایک نکا جیا سوال؛
اگر لوگوں کے جانوروں کو دیکھ کر غریب احساس کمتری کا شکار ہوتے ہیں تو کیا گھر اور گاڑی دیکھ کر نہیں؟ کیونکہ پھر پیمانہ تو ایک ہونا چاہیے۔