وقت انسان کو کہاں سے کہاں پہنچا دے، کسی کو کچھ معلوم نہیں۔ جب وقت مہربان ہوتا ہے تو وہ آدمی کو زمین سے اٹھاکر آسمان پر بیٹھا دیتا ہے اور دنیا کی ہر دولت، عزت، شہرت، چاہت آدمی کے قدموں میں بچھا دیتا ہے اور یہی وقت جب کسی کا بگڑا ہو تو وہ دنیا کی ہر خوشی اُس سے چھین لیتا ہے۔ وقت کا یہ مذاق کبھی کبھی آدمی کے ساتھ لگاتار چلتا رہتا ہے اور آدمی کی زندگی میں اُتار چڑھائو آتے رہتے ہیں۔ اِسی لئے یہ مثال مشہور ہوئی کہ کبھی کسی کا وقت ایک سا نہیں رہتا۔
ہندوستان کی آزادی اپنے دامن میں اس وسیع و عریض ملک کی تقسیم بھی لے کر آئی اور ۱۸؍ برس کے نوجوان بلراج دت کو پنجاب کے اپنے گائوں خورد (ضلع جہلم) سے بے دخل ہوکر ہندوستان کے (پہلے پنجاب اور اب ہریانہ کے) جمنانگر کے گائوں منڈولی میں آنا پڑا۔ بلراج دت ۶؍جون ۱۹۲۹ء کو پنجاب کے ضلع جہلم (اب پاکستان میں) کے ایک چھوٹے سے گائوں خورد کے ایک زمیندار خاندان میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد کا نام دیوان رگھوناتھ دت تھا اور وہ آرمی میں ملازم تھے۔ بلراج دت بچپن سے ہی بہت شرارتی اور نٹ کھٹ تھے اور ’’چھوٹے دیوان‘‘ کہلاتے تھے اور ایک ملازم کے ساتھ گھوڑے پر بیٹھ کر اسکول جایا کرتے تھے۔ اپنی ماں شریمتی کلونت دیوی کو وہ پیار سے ونتو کہتے تھے۔ بچپن میں بلراج کو غصہ بہت آتا تھا۔ ایک بار وہ اپنی ماں پر اتنا غصہ ہوا کہ گھر کا دروازہ بند کرکے باہر سے تالا لگاکر چلا گیا۔ گائوں والے اُسے پورے گائوں میں ڈھونڈتے پھرے اور آخرمیں وہ اپنے ہی مکان کی چھت پر ایک کھرّی چارپائی پر سوتے ہوئے ملا۔ ابھی وہ ۶؍برس کا ہی تھا جب اس کے سر سے باپ کا شفیق سایہ اٹھ گیا۔ ملک کی تقسیم کے نتیجے میں اُس خاندان کا سب کچھ ختم ہو گیا اور یہ سب مہاجر بن کر ہندوستان کے پنجاب (اب ہریانہ) کے ایک گائوں منڈولی میں آباد ہو گئے جہاں اِن کو حکومت کی طرف سے کچھ زمین دی گئی۔ چھوٹے بھائی سوم دت، ماں اور ایک چھوٹی بہن رانی کی ذمہ داری اب پوری طرح بلراج دت کے کاندھوں پر تھی۔ لہٰذا وہ ماں سے یہ وعدہ کرکے کہ وہ بی۔اے۔ تک کی تعلیم ضرور حاصل کرے گا، روزگار کی تلاش میں بمبئی چلا آیا اور ریگل سنیما کے پیچھے ایک نائی کی دُکان میں رات کو سونے کا انتظام کر لیا۔ یہی نائی مفت میں ان کا شیو بھی کرتا تھا اور کبھی کبھی بال بھی کاٹ دیا کرتا تھا۔
بمبئی آکر بلراج دت نے بڑی جدوجہد کی اور کسی طرح بیسٹ (بی۔ ای۔ ایس۔ ٹی۔) میں ورک شاپ ریکارڈسٹ کی ملازمت سو روپے ماہانہ پر حاصل کر لی۔ بمبئی میں ایک ریفیوجی کالج قائم کیا گیا تھا۔ اس میں مارننگ کلاسیس ہوا کرتی تھیں۔ بلراج دت صبح ساڑھے سات بجے کالج جاتا اور پھر دوپہر کو ڈھائی بجے سے رات ساڑھے گیارہ بجے تک کلابہ کے ڈپو میں بمبئی کی بسوں کا حساب کتاب لکھتا تھا۔ کچھ دنوں بعد بلراج دت نے ریڈیو سیلون کے ایک پروگرام ’’لپٹن کے مہمان‘‘ کے لئے فلمی اداکاروں اور فلمسازوں و ہدایتکاروں سے انٹرویو کرنے شروع کر دئے۔ اس پروگرام کے لئے اُسے بہت معمولی سی تنخواہ ملتی تھی، جس میں وہ بڑی تنگدستی کے ساتھ گزارہ کرتا تھا۔ دن بھر کام کے سلسلے میں ایک اسٹوڈیو سے دوسرے اسٹوڈیو کے چکر لگاتا اور رات کو کافی دیر تک اپنی پڑھائی بھی کرتا تھا۔ ماں سے کیا ہوا بی۔اے۔ کرنے کا وعدہ وہ ہمیشہ یاد رکھتا تھا۔ ریڈیو سیلون میں ملازمت ملنے پر بلراج دت نے کُرلا میں ایک مہاراشٹرن کی کھولی میں ۳۰؍روپے ماہوار پر شیئر کر لیا اور پہننے کے لئے اُس کے پاس صرف دو جوڑی کپڑے تھے۔ اُن دنوں وہ ہمیشہ سفید شرٹ اور سفید پائجامہ میں دیکھا جا سکتا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ رات کو ایک جوڑی کپڑے وہ خود ہی دھو لیتا تھا اور صبح کو دوسری جوڑی کپڑے پہن کر اسٹوڈیوز کی طرف نکل پڑتا تھا۔ ایک بار وہ سفید کپڑے پہن کر ایک اسٹوڈیو سے دوسرے اسٹوڈیو کے لئے چل پڑا تو راستے میں چند شریر لڑکیوں نے اُسے گھیر لیا، جو ہولی کھیل رہی تھیں اور پانی اور رنگ سے آنے جانے والوں کے کپڑے بھگو رہی تھیں۔ بلراج دت یہ دیکھ کر گھبرا گیا۔ اُس نے ان لڑکیوں سے منت سماجت کی کہ اُس کے کپڑوں پر کوئی رنگ نہ ڈالے، کیوںکہ اس کے پاس بدلنے کے لئے کوئی دوسرا جوڑا نہیں ہے۔ مگر لڑکیوں نے اُس کی ایک نہ سنی اور اس کے سارے کپڑوں کو رنگ ڈالا اور بیچارہ بلراج دت اپنی بے بسی پر رو پڑا۔
اس طرح ریڈیو سیلون سے ایک آواز ابھری… وہ آواز تھی بلراج دت کی۔ آواز اچھی تھی، اس لئے اس آواز کو کافی مقبولیت ملی جیسے امین سیانی کا انداز اور آواز مقبول ہے، اسی طرح اُس وقت بلراج دت کے پیش کئے گئے پروگرام بہت مقبول ہوئے۔ ان ہی دنوں اداکارہ نرگس کا انٹرویو کرنے کا خیال اُس کو آیا۔ مشہور و معروف مغیّنہ جدّن بائی کی بیٹی نرگس اس وقت ایک مصروف اور مقبول اداکارہ تھیں، لہٰذا بلراج دت بار بار نرگس سے انٹرویو کا وقت لیتے رہے اور ہر بار نرگس وقت پر غائب رہتیں۔ تنگ آکر بلراج دت نے نرگس سے انٹرویو کرنے کا ارادہ ترک کر دیا۔ مگر دل کے کسی کونے میں نرگس سے انٹرویو کرنے کی ان کی یہ خواہش جڑ پکڑ چکی تھی۔ لہٰذا آٹھویں بار پھر انٹرویو کے لئے وقت ملا۔ نرگس نے کمرے میں آتے ہی بڑے تیز لہجے میں کہا… ’’دیکھئے، میرے پاس وقت بالکل نہیں ہے۔ دس منٹ سے زیادہ میں آپ کو وقت نہیں دے سکتی۔ آپ کو جو پوچھنا ہے فٹافٹ پوچھئے، مجھے اسٹوڈیو جانا ہے۔‘‘
نرگس کی بات چیت کا یہ انداز دیکھ کر بلراج دت ہکا بکا رہ گئے۔ ابھی بلراج یہ سوچ ہی رہے تھے کہ اس مغرور عورت سے بات کہاں سے شروع کی جائے، تبھی ان کے کانوں میں وہی تیز طرّار آواز دوبارہ گونجی… ’’اے مسٹر، آپ کس سوچ میں ہیں؟ مجھے لگتا ہے کہ آپ کو کچھ پوچھنا ہی نہیں ہے۔ او۔ کے۔ … میں چلتی ہوں۔‘‘ مگر بلراج دت نے انہیں روک ہی لیا اور دس منٹ کے بجائے یہ انٹرویو پندرہ منٹ تک چلا۔ یہ تھی بلراج دت عرف سنیل دت کی نرگس سے پہلی ملاقات……! پھر وقت نے ذرا سی کروٹ بدلی اور بلراج دت کو فلموں میں کام کرنے کی پیش کش ملی۔ یہ شاید ان کی آواز کا ہی کرشمہ تھا جو ان کو فلموں کی طرف لا رہا تھا۔
دلیپ کمار اور نلنی جیونت کی فلم ’’شکست‘‘ کی شوٹنگ کسی اسٹوڈیو میں تھی۔ اس فلم کے ہدایتکار رمیش سہگل تھے۔ بلراج دت دلیپ کمار کا انٹرویو کرنے کے لئے سیٹ پر ہی پہنچ گئے۔ انٹرویو کے بعد دلیپ کمار نے بلراج دت سے کہا کہ تمہاری آواز اور شخصیت بہت اچھی ہے، تم خود کیوں ایکٹر نہیں بن جاتے؟ رمیش سہگل نے دلیپ کمار کی پینٹ شرٹ پہنواکر سکرین ٹسٹ لیا اور تین سو روپے کا پہلا سائننگ امائونٹ دے کر اپنی اگلی فلم کے لئے سائن کر لیا۔ اس وقت بلراج دت بی۔اے۔ کے تیسرے سال میں تھے۔ انہوںنے کہا کہ میں ماں سے کیا ہوا وعدہ پہلے پورا کروںگا، اس کے بعد آپ کی فلم میں کام کروںگا۔ رمیش سہگل مان گئے اور اس طرح انہوںنے تقریباً ایک سال انتظار کیا اور پھر ۱۹۵۴ء میں شروع ہوئی اس فلم ’’ریلوے پلیٹ فارم‘‘ سے بلراج دت نے سنیل دت کے نام سے فلموں میں اداکاری کی شروعات کی۔ یہ فلم ایک سال میں بن کر ۱۹۵۵ء میں ریلیز ہوئی۔ مگر اس فلم کو زیادہ کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔ سنیل دت پھر بھی مایوس نہ ہوئے۔ اُسی سال ان کو تین فلمیں اور ملیں۔ جن میں سے ایک بی۔ آر۔ چوپڑہ کی ’’ایک ہی راستہ‘‘ تھی۔ بی۔ آر۔ چوپڑہ اس وقت تک ایک کامیاب فلمساز و ہدایتکار کے طور پر اپنے آپ کو قائم کر چکے تھے اور ان کی فلم میں کام کرنا سنیل دت کے لئے بہت بڑی بات تھی۔ اس فلم کو کامیابی بھی ملی۔ فلم ’’ایک ہی راستہ‘‘ کے بعد سنیل دت بی۔ آر۔ چوپڑہ کے مستقل اداکار بن گئے اور بعد میں انہوںنے چوپڑہ کی ’’گمراہ، سادھنا، وقت‘‘ اور ’’ہمراز‘‘ جیسی کامیاب فلموں میں کام کرکے اپنی اداکارانہ صلاحیتوں کو منوایا۔
مشہور فلمساز ہدایتکار محبوب خان نے اپنی کامیاب ترین فلم ’’عورت‘‘ کو دوبارہ ’’مدر انڈیا‘‘ کے نام سے بنانے کا اعلان کیا اور برجو کے عجیب و غریب کردار کے لئے سنیل دت کا نام لیا تو ان کی یونٹ کے سبھی لوگ چونک پڑے۔ مگر محبوب صاحب اپنے فیصلے پر اٹل رہے اور بعد میں لوگوں نے دیکھا کہ سنیل دت نے اپنی آواز اور اداکاری سے برجو کے سخت ترین اینگری مین کے کردار میں جان ڈال دی تھی۔ فلم ’’مدرانڈیا‘‘ سے سنیل دت کی زندگی کا ایک سب سے اہم واقعہ بھی جڑا ہوا ہے جس نے سنیل دت کی زندگی کو یکسر ہی بدل کر رکھ دیا۔ اسی فلم میں اس وقت کی مقبول اداکارہ نرگس کلیدی رول ادا کر رہی تھیں اور سنیل دت نے ان کے چھوٹے بیٹے کا رول ادا کیا تھا۔ فلم کے ایک منظر میں گائوں کا سرمایہ دار کنہیالعل سنیل دت کی کٹی ہوئی فصل میں آگ لگوا دیتا ہے اور سنیل دت بھی اسی فصل میں چھپا بیٹھا ہے۔ نرگس کو معلوم ہے کہ اس کا بیٹا بھی آگ کے ان ہی شعلوں میں موجود ہے۔ لہٰذا وہ بیقرار ہوکر ’برجو برجو‘ کہتی ہوئی اپنے بیٹے کو تلاش کرتی آگ اور دھوئیں میں بھاگتی دوڑتی پھر رہی ہے۔
شوٹنگ کے دوران نرگس کو برجو تو نہیں ملتا، مگر وہ خود حقیقتاً چاروں طرف لگی آگ میں گھِر جاتی ہے۔ تب سنیل دت کو معلوم ہوتا ہے کہ نرگس آگ اور دھوئیں میں گھِر گئی ہیں، وہ اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اس آگ میں کود جاتا ہے اور نرگس کو زندہ بچا لاتا ہے۔ اس واقعہ سے نرگس اتنی زیادہ متاثر ہوئیں کہ انہوںنے اپنے سارے معاملات پس پشت ڈال کر اور بہت لوگوں کی مخالفت کو نظرانداز کرتے ہوئے، خود سے عمر میں کافی چھوٹے سنیل دت سے شادی کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ سنیل دت نے بڑے تذبذب کے ساتھ نرگس کے سامنے شادی کی تجویز رکھی اور آخرکار ۱۱؍مارچ ۱۹۵۸ء کو دونوں نے شادی کرلی۔
نرگس کے بڑے بھائی اختر حسین اس شادی کے خلاف تھے۔ مگر چھوٹے بھائی انور حسین کو کوئی اعتراض نہ تھا۔ شادی کے روز نرگس اپنے گھر سے یہ کہہ کر نکلی کہ وہ اپنی کسی سہیلی سے ملنے جا رہی ہے۔ ہندو مسلم شادیاں اس وقت اور بھی زیادہ مشکل تھیں، چاہے وہ فلم اسٹار ہی کیوں نہ ہوں۔ سنیل دت سے ملنے کا وقت شام سات بجے کا تھا۔ لنکنگ روڈ پر آریہ سماج کے قریب سنیل دت کھڑے ہوئے نرگس کا انتظار کر رہے تھے۔ ۷بجے، ۸بجے، ۹بجے،… حتیٰ کہ رات کے دس بجے تک نرگس کا کہیں پتہ نہ تھا۔ وہاں سے ہٹ کر سنیل دت فون تک کرنے نہیں جا سکتے تھے، کیونکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ وہاں سے ہٹیں اور نرگس آئے اور سنیل کو خاص مقام پر نہ پاکر لوٹ جائے۔ وہ اسی ادھیڑبن میں رہے کہ کہیں نرگس نے اپنا ارادہ تو نہیں بدل دیا؟ دوسری جانب نرگس ٹریفک میں پھنس گئی۔ اُسی دن پوپ جان پال ہندوستان آئے ہوئے تھے۔بمبئی میں اس سے قبل اتنا زبردست ٹریفک جام نہیں ہوا تھا۔ نرگس ٹیکسی بھی نہیں چھوڑ سکتی تھی، کیوںکہ ٹریفک کی وجہ سے دوسری ٹیکسی نہ ملی تو…؟ اور نہ ہی وہاں پارکنگ کی گنجائش تھی۔ یہ سنیل دت کا ہی حوصلہ تھا کہ اپنے مقام پر ڈٹا رہا اور انتظار کرتا رہا… پھر خدا خدا کرکے دس بجے کے بعد نرگس وہاں پہنچی اور یہ شادی ہو سکی۔ بعد میں سنیل دت اور نرگس کی یہ شادی فلمی دنیا کی ایک مثالی شادی ثابت ہوئی اور نرگس نے ہر اچھے بُرے وقت میں سنیل دت کا ساتھ ایک بہترین دوست اور ایک غم گسار بیوی کے روپ میں دیا۔
نرگس سے شادی کے بعد سنیل دت کی کامیابیوں کا سلسلہ تیزی سے شروع ہو گیا۔ ان کی ایک کے بعد ایک فلم کامیابی حاصل کرتی چلی گئی۔ ’’سادھنا، سجاتا، انسان جاگ اُٹھا، ایک پھول چار کانٹے، میں چپ رہوںگی‘‘ اور ’’گمراہ‘‘ جیسی فلموں کی کامیابی نے انہیں ہیرو سے اسٹار بنا دیا۔ فلم ’’مجھے جینے دو‘‘ میں تو انہوںنے ڈاکو کے کردار کو اس طرح زندگی بخشی کہ آج بھی فلم بینوں کے ذہنوں میں وہ کردار محفوظ ہے۔
سنیل دت ایک باہمت، جواں حوصلہ اور مردانہ شخصیت کا نام تھا۔ ’’مدر انڈیا‘‘ کے آگ کے واقعہ کی طرح ہی ایک فلم ’’ہمالیہ سے اونچا‘‘ کی لدّاخ میں شوٹنگ کے دوران فلم کی ہیروئین برفانی طوفان میں گھر گئی تھی۔ سنیل دت نے ہمت اور حوصلہ سے کام لیتے ہوئے اُسی برفانی طوفان میں ہیروئین کو تلاش کیا اور اس کی زندگی بچائی۔
فلموں میں اداکار کے بطور اپنی شخصیت منوانے کے بعد سنیل دت نے ’’اجنتا آرٹ گروپ‘‘ کے نام سے نہ صرف فلمسازی و ہدایتکاری شروع کی، بلکہ ملک اور قوم کی خدمت کے لئے بہت سے چیرٹی پروگرام بھی پیش کئے اور ۱۹۶۲ء میں ہند چین کی جنگ کے وقت ملک کی سرحدوں پر جاکر اپنے فوجی بھائیوں کی حوصلہ افزائی، دلجوئی اور تفریح کے لئے دلچسپ پروگرام بھی پیش کئے۔ حالانکہ کئی بار ان کو خطرناک برفیلے علاقوں میں بھی ایسے پروگرام کرنے کے لئے جانا پڑا۔ جب ملک پر کوئی مصیبت آئی، سنیل دت ہمیشہ ملک کی خدمت کے لئے پیش پیش رہے ہیں۔
’’مدرانڈیا‘‘ میں سنیل دت نے نیگٹیو رول نہایت کامیابی کے ساتھ ادا کیا تھا۔ مگر اپنی ہیرو کی امیج کو توڑکر فلم ’’پڑوسن‘‘ میں پہلی بار سنیل دت نے ایک کامیڈی کردار ادا کیا، حالانکہ اس فلم میں محمود اور کشور کمار جیسے کامیڈین بھی موجود تھے، مگر اپنے بھولے پن اور احمقانہ حرکتوں والے اس کردار میں سنیل دت نے بہترین اداکاری پیش کی۔ نرگس کے انتقال کے بعد انہوںنے ایک بار پھر اپنی امیج کو توڑا، اور ویلن اور اینگری مین کے کردار ادا کئے۔ فلم ’’زخمی انسان‘‘ اور ’’بھائی بھائی‘‘ میں انہوںنے اینگری مین کا کردار ادا کیا اور بی۔ آر۔ فلمز کی فلم ’’۳۶؍گھنٹے‘‘ میں انہوںنے ویلن کا کردار ادا کیا۔ اسی طرح فلم ’’گیتا میرا نام‘‘ میں بھی وہ اینگری مین اور ویلن کے ملے جلے کردار میں نظر آئے۔ یہ سب کوشش انہوںنے اپنی کردار نگاری اور اداکاری میں تنوع پیدا کرنے کے لئے کی تھی۔
سنیل دت نے نجی زندگی میں جہاں بہت سے سُکھ دُکھ دیکھے وہیں اپنی فلمی زندگی میں کئی تجربے بھی کئے۔ انہوںنے مارکیٹ کی پرواہ نہ کرتے ہوئے فلم ’’یادیں‘‘ بنائی۔ یہ ایک عجیب تجرباتی فلم تھی، جس میں سنیل دت پوری فلم میں اکیلے اداکار تھے اور باقی ان کے چاروں طرف بکھری ہوئی آوازیں تھیں، جو اُن کی یادوں سے متعلق تھیں۔ ’’یادیں‘‘ کا پریمیئر بمبئی کے مراٹھا مندر میں ہوا تھا۔ اس کے بعد انہوںنے راجستھان کی خشک زندگی پر ایک تجرباتی فلم ’’ریشما اور شیرا‘‘ بنائی۔ ان دونوں فلموں کی تعریف دلیپ کمار نے بھی کی تھی۔ فلموں میں سنیل دت کی کامیابی اور مقبولیت کی خاص وجہ تھی اُن کی شخصیت اور دلوں کی گہرائی میں اترتی ہوئی ان کی آواز۔ ان کے مکالموں کی ادائیگی اتنی صاف اور پُراثر ہوتی تھی کہ فلم بینوں کی توجہ پوری طرح ان کی طرف مرکوز رہتی تھی۔ اس کی ایک خاص وجہ یہ بھی تھی کہ وہ بچپن سے ہی اردو پڑھے ہوئے تھے اور آخر تک اردو میں ہی اسکرپٹ لیتے تھے اور خود بھی اپنا اسکرپٹ اردو میں لکھتے تھے۔ ان کا تلفظ بھی بہت صحیح ہوتا تھا۔
ایک وقت تھا جب سنیل دت نے فلم ’’وقت‘‘ میں کام کیا تھا اور لوگوں نے اس کو سراہا تھا۔ پھر ’’مہربان، مجھے جینے دو، پڑوسن، میرا سایہ، خاندان‘‘ وغیرہ فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھاکر شہرت اور مقبولیت حاصل کی۔ درمیان میں کچھ وقت ایسا بھی آیا جب سنیل دت کی مارکیٹ ویلیو کم ہوئی اور ان کی شہرت میں بھی کمی آئی۔ کچھ ہی برسوں کے بعد فلم ’’ہیرا‘‘ اور ’’پران جائے پر وچن نہ جائے‘‘ میں وہ پھر ایک نئے روپ میں لوٹ کر آئے۔ ان فلموں کے ہٹ ہوتے ہی سنیل دت ایک بار پھر فلم انڈسٹری پر چھا گئے۔ اُسی دوران فلم ’’سیتا اور گیتا‘‘ میں لوگوں نے سنیل دت کو ایک بالکل نئے انداز میں دیکھا اور جونی کے کردار میں انہوںنے پھر سے انڈسٹری پر یہ ثابت کر دیا کہ وہ صرف ایک سٹار ہی نہیں، بلکہ اداکار ہیں۔ بعد میں فلم ’’ناگن‘‘ کی بے پناہ کامیابی نے سنیل دت کو پھر سے شہرت کی اسی بلندی پر پہنچا دیا تھا۔ ان کی آخری فلم ’’مُنّا بھائی ایم۔ بی۔ بی۔ ایس۔‘‘ تھی جس میں ان کے بیٹے سنجے دت نے ہیرو کا کردار ادا کیا تھا۔
سنیل دت نے ایک ذمہ دار باپ کا کردار ادا کرتے ہوئے ۱۹۸۱ء میں اپنے بیٹے سنجے دت کے لئے فلم ’’راکی‘‘ بنائی۔ انہوںنے سنجے دت سے صاف الفاظ میں کہہ دیا تھا کہ اس کے بعد وہ سنجو بابا کی کوئی مدد نہیں کریںگے اور اُسے خود اپنی صلاحیتوں کے سہارے ہی فلم انڈسٹری میں اپنا مقام بنانا ہوگا۔ نرگس دت کی بڑی تمنا تھی کہ وہ فلم ’’راکی‘‘ مکمل ہونے پر بیٹے کو سنہرے پردے پر دیکھیں۔ مگر ’’راکی‘‘ مکمل ہونے سے قبل ہی نرگس دت کی زندگی مکمل ہو گئی اور وہ یہ فلم نہیں دیکھ سکیں۔ حالانکہ ’’راکی‘‘ اور اس کے بعد کی کئی فلمیں سنجے دت کو زیادہ کامیابی نہ دے سکیں۔ مگر بعد میں جب اس نے نشہ کی عادت سے توبہ کر لی اور اپنی ساری توجہ اداکاری پر مرکوز کی، تب وہ ایک کامیاب اداکار کے طور پر خود کی پہچان قائم کر سکا۔
دلیپ کمار کے بعد سنیل دت ہی فلمی دنیا کی دوسری شخصیت ہیں جن کو بمبئی کے شیرف کے عہدہ کے لئے نامزد کیا گیا اور انہوںنے سچے دل اور لگن کے ساتھ اپنے فرائض نبھائے۔ ان کی بیوی نرگس دت کو راجیہ سبھا کا ممبر نامزد کیا گیا تھا اور وہ بھی ملک و قوم کی خدمت میں اپنے شوہر کے شانہ بشانہ حصہ لیتی رہیں۔ نرگس کو حکومت ہند کی طرف سے ۱۹۸۰ء میں پدم شری کا اعزاز بھی ملا تھا اور سابقہ وزیر اعظم شریمتی اندرا گاندھی سے ان کے ذاتی تعلقات بھی تھے۔ شریمتی نرگس دت اور سنیل دت نے ہمیشہ کانگریس اور اندرا فیملی کی حمایت کی ہے، شریمتی دت کو جب کینسر کے علاج کے لئے امریکہ جانا پڑا تو سنیل دت نے ان کی خدمت اور تیمارداری میں دن رات ایک کر دیا اور اپنے سارے کام، سارے پروگرام کینسل کرکے نرگس دت کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ مگر خدا کی مرضی کے آگے انسان کی کب چلی ہے؟ لہٰذا نرگس دت۳؍مئی ۱۹۸۱ء کے دن سنیل دت کو اکیلا چھوڑ کر چلی گئیں اور اس طرح سنیل دت کا سب سے عزیز دوست، محسن اور ہمدرد اس سے جدا ہو گیا۔ سنیل دت کی سیکولر شخصیت کی سب سے بڑی خوبی اسی وقت لوگوں کے سامنے آئی جب اس نے نرگس دت کی وصیت کے مطابق ان کی اسلامی رسوم کے مطابق تدفین وغیرہ کی۔
سنیل دت عزم اور حوصلہ کا ہی دوسرا نام تھا۔ جب ۱۹۸۱ء میں کینسر کے موذی مرض سے نرگس کا انتقال ہو گیا تو وہ جیسے ٹوٹ سے گئے۔ مگر جلد ہی انہوںنے خود پر قابو پایا اور اسی موضوع پر فلم ’’درد کا رشتہ‘‘ بنائی، جو اپنے آپ میں ایک بہترین فلم تھی۔ سنیل دت نے اس فلم کی تمام آمدنی کینسر اسپتال میں بطور عطیہ دے دی۔ اس کے علاوہ ٹاٹا میموریل اسپتال میں کینسر وارڈ نرگس دت کے نام پر کھلوایا تاکہ کینسر سے حتی الامکان جنگ جاری رکھی جا سکے۔
بعض اتفاق بھی بڑے عجیب ہوتے ہیں۔ فلمساز و ہدایتکار محبوب خان نے راجندر کمار اور سنیل دت کو دو سگے بھائیوں کے طور پر فلم ’’مدر انڈیا‘‘ میں پیش کیا تھا۔ یہ دونوں فلمی دنیا میں کامیاب ہوئے، دونوں نے اپنی اپنی مرضی سے شادی کی۔ دونوں نے آس پاس ہی بنگلے خریدے۔ دونوں کے گھر پہلے ایک ایک لڑکا پیدا ہوا اور بعد میں دو دو لڑکیاں اور چوتھی کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ دونوں نے اپنے اپنے بنگلوں میں اپنے اپنے تھیئٹر بنوائے۔ دونوں پروڈیوسر بنے، دونوں نے اپنے اپنے لڑکوںکے لئے فلم بنائی اور دونوں کے لڑکے ہیرو بنے۔ دونوں نے لڑکوں کی شادی کی اور بعد میں راجندر کمار کے لڑکے کمار گورئو کی شادی سنیل دت کی لڑکی نمرتا دت سے ہوئی اور دونوں ایک دوسرے کے سمدھی بنے۔ یہ سب حقیقتیں ہیں مگر حسین اتفاق بھی…!
سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی کے قتل کے بعد سنیل دت نے عملی سیاست میں حصہ لینے اور کانگریس (آئی) کو تقویت پہنچانے اور نئے وزیر اعظم شری راجیو گاندھی کے ہاتھ مضبوط کرنے کا مستحکم ارادہ کر لیا اور اسی غرض سے پارلیمنٹ کے الیکشن میں بمبئی سے کانگریس کے امیدوار کی حیثیت سے حصہ لیا۔ حالانکہ ان کے مقابلے پر بہت مشہور اور مقبول سیاسی شخصیت رام جیٹھ ملانی تھے۔ مگر سنیل دت کی اپنی شخصیت اور ہردلعزیزی اور ان کی سماجی خدمت ایسے میں ان کے کام آئی اور وہ بڑے شاندار طریقے سے فتح حاصل کر کے ۱۹۸۴ء میں پہلی بار پارلیمنٹ کے ممبر کی حیثیت سے ملک و قوم کی خدمت کرنے کے لئے میدان عمل میں اتر آئے۔ ۱۹۸۶ء میں سنیل دت کو حکومت ہند کی طرف سے ’’پدم شری‘‘ سے نوازا گیا۔ اس کے بعد ۱۹۸۹ء اور پھر ۱۹۹۱ء میں انہوںنے عوامی خدمت کے بل بوتے پر الیکشن جیتے اور اپنی نمائندگی کو برقرار رکھا۔ ۱۹۹۲ء میں بمبئی بم دھماکوں میں اپنے اداکار بیٹے سنجے دت کے ٹاڈا مقدمات میں الجھنے کی وجہ سے سنیل دت نے ۱۹۹۶ء اور ۱۹۹۸ء کے انتخابات میں حصہ نہیں لیا۔ لیکن ۱۹۹۹ء اور ۲۰۰۴ء میں انہوںنے اپنے حلقے سے پھر نمایاں کامیابی حاصل کی اور ۲۰۰۴ء میں کانگریس کی یو۔پی۔اے۔ حکومت نے سنیل دت کو امور نوجوانان اور کھیل کا وزیر مقرر کیا۔ سیاست میں رہ کر انہوںنے اپنی ذمہ داریوں کو بخوی انجام دیا اور خدمت خلق کے لئے اپنے آپ کو وقف کر دیا۔
سنیل دت ایک سوشل ورکر کے طور پر ہمیشہ ہر وقت پیش پیش رہتے تھے۔ ملک و قوم پر جب بھی کوئی مشکل آتی تھی تو دلیپ کمار اور سنیل دت ہمیشہ آگے بڑھ کر ملک کی خدمت میں لگ جاتے تھے۔ ۱۹۸۰ء کی دہائی میں جب پنجاب میں دہشت گردی نے سر اُبھارا تو سنیل دت نے امن اور شانتی کا پیغام لے کر بمبئی سے امرتسر کے گولڈن ٹیمپل تک پیدل مارچ کیا۔اُن کے سینے میں شروع سے ہی ایک دردمند انسان کا دل دھڑکتا تھا۔ ابھی وہ روزگار کی تلاش میں بمبئی کی سڑکوں پر بھٹک ہی رہے تھے اور پاکستان سے آئے ہوئے ایک مہاجر سے زیادہ ان کی حیثیت نہیں تھی۔ وہ گیٹ وے آف انڈیا کے پاس کھڑے تھے اور ان کے سامنے ایک شخص سمندر میں گر پڑا تھا۔ وہاں اچھا خاصا مجمع اکٹھا ہو گیا اور تمام لوگ لاچاری سے ڈوبتے ہوئے شخص کو دیکھ رہے تھے۔ لیکن کسی میں اتنی ہمت نہ تھی کہ وہ طوفان زدہ سمندر کا مقابلہ کرکے ڈوبتے ہوئے شخص کو بچایا۔ سنیل دت بھی اسے بے بسی سے دیکھ رہے تھے، کیوںکہ خود اُن کو تیرنا نہیں آتا تھا۔ لیکن وہ بہت دیر تک اپنے اوپر قابو نہ رکھ سکے اور سمندر میں چھلانگ لگادی۔ کچھ ساعتوں کے لئے انہوںنے موت کو اپنی آنکھوں کے سامنے ناچتے ہوئے دیکھا اور جب وہ خود بھی ڈوبنے لگے تو جیسے اُن میں بلا کی قوت پیدا ہو گئی اور انہوںنے موت کا مقابلہ کرنا شروع کر دیا۔ سمندر میں پھینکی گئی ایک رسّی کی مدد سے انہوںنے ڈوبتے ہوئے شخص کو بچا لیا۔ ان کا یہ عمل اس وقت اس لئے بھی زیادہ قابل قدر مانا گیا کیوںکہ اس وقت اُن کے کاندھوں پر ایک ماں، ایک چھوٹی بہن اور ایک چھوٹے بھائی کی ذمہ داری بھی تھی، جو اس وقت ہریانہ کے جمنانگر کے ایک گائوں میں رہتے تھے۔ اس طرح انہوںنے یکم اگست ۱۹۵۰ء کو بمبئی کے تمام اخبارات کی شہ سرخیوں میں جگہ بناکر لوگوں کو چونکا دیا تھا۔ ۱۹۸۹ء میں بمبئی کا شیرف بننے کے بعد سنیل دت کو عام لوگوں کی زندگی کو زیادہ قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ انہوںنے لوگوں کی تکلیفیں دیکھیں، جھونپڑ پٹیاں دیکھیں، برسات میں لوگوں کی جھونپڑیوں کو ڈھتے دیکھا، گرمی میں پانی کے لئے دور دور سے سر پر گھڑے لئے لوگوں کو بھٹکتے دیکھا… اُس ایک برس میں سنیل دت نے زندگی کا سارا درد محسوس کر لیا، تب انہیں اپنی زندگی اوراس کی آسائشیں خود اپنی ہی آنکھوں میں چبھنے لگیں۔ شاید وہی درد ان کے سینے میں آخری دم تک کروٹیں بدلتا رہا اور وہ مستقل سماج کی خدمت کرتے رہے۔
اسے کہتے ہیں وقت کی ہیراپھیری، ایک چھوٹے سے دیہات میں پیدا ہونے والے ریڈیو انائونسر کو وقت نے پارلیمنٹ میں بیٹھا دیا۔اس میں جتنا ہاتھ وقت کا ہے، اس سے کہیں زیادہ سنیل دت کی اپنی محنت، لگن اور جدبۂ ہمدردی کا بھی دخل ہے۔
تین چار دن کی مسلسل بیماری کے بعد ۲۵؍مئی ۲۰۰۵ء کی صبح تقریباً گیارہ بج کر چالیس منٹ پر سنیل دت کو نیند میں دل کا دورہ پڑا، اور ایک فنکار، ایک سماجی خدمتگار اور کئی فلموں کا خالق اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملا۔ سنیل دت کی آخری رسوم میں ملک کے وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ اور یو۔پی۔اے۔ کی چیئرپرسن شریمتی سونیا گاندھی اور جمہوریہ ہند کے کئی سرکردہ لیڈروں اور وزیروں نے شرکت کی۔ فلم انڈسٹری کی تقریباً تمام ہستیاں اس فرشتہ صنف انسان کو الوداع کہنے آئیں۔ پورے ملک میں ایک دن کے سوگ کا اعلان کیا گیا اور ملک و بیرون ملک سے بے شمار تعزیتی پیغامات آئے۔ سنیل دت کیوںکہ کابینہ میں وزیر تھے، لہٰذا ان کو پورے سرکاری اعزاز کے ساتھ نذرِآتش کیا گیا۔ سیاست میں انہیں سیکولر نظریات کا چمپئن کہا جاتا تھا اور ان کی شبیہ ہمیشہ بے داغ رہی۔ ایک بہترین اداکار کے علاوہ سنیل دت کو سچے عوامی خدمتگار، ایک بہترین انسان اور دردمند سیاستداں کے طور پر ہمیشہ یاد کیا جاتا رہے گا۔
"