۱ ۔ سنہری روشن جگہ (Hinata , 1923 )
(The Sunny Place )
کاواباتا یاسوناری، اردو قالب؛ قیصر نذیر خاورؔ
کاواباتا یاسوناری
( کچھ مصنف کے بارے میں )
کاواباتا یاسوناری ( Kawabata Yasunari ) وہ پہلا جاپانی ادیب ہے جسے 1968 ء کا نوبل انعام برائے ادب سے نوازا گیا تھا ۔ کاواباتا نے اپنے ادبی سفر کا آغاز 1920 کی دہائی کے اوائل میں کیا تھا ۔ 1926 ء میں اس کی کہانی ’ اِزو کی رقاصہ ‘ ( Izu no odoriko ) نے اسے شہرت دلائی ۔ دس سال بعد اس کے ناول ’ برفیلا ملک ‘ ( Yukiguni) نے اسے اپنے ہم عصر ادیبوں میں ایک منفرد مقام دلا دیا تھا ۔
جون ، 11 ، 1899ء کو اوساکا کے ایک ڈاکٹر کے گھر پیدا ہونے والا کاواباتا چار سال کی عمر میں یتیم ہو گیا تھا اورجب وہ گیارہ سال کا ہوا تو اس کی بہن فوت ہوگئی اور پندرہ برس کی عمر میں دادا کے فوت ہونے پر وہ اپنے تمام رشتہ داروں سے محروم ہو چکا تھا ۔ اس محرومی کی غمناکی اس کی تحاریر میں جا بجا ملتی ہے۔ اس کی تحاریر جاپانی جمالیات کی اصطلاح ' مونو نو اَویر' ( mono no aware ) کا منہ بولتا ثبوت ہیں ۔
جدید جاپان کے ادیب ایک طرف اپنے طویل ، بھرپور ، زرخیز اور عمدہ ادبی روایت کے وارث ہونے کے ساتھ ساتھ مغرب سے آنے والے اثر ، مواد کے بارے میں نئے خیالات ، ادبی ہیت اورمختلف سٹائل کو بھی استعمال کرتے ہیں ۔ کاواباتا بھی ایک ایسا ہی ادیب تھا ؛ اس کا لکھا دونوں کا ایک حسین امتزاج ہے ۔ اس کا قاری جاپان سے باہر مغرب سمیت ساری دنیا میں بھی موجود ہے ۔
فلسفے یا عقیدے کے اعتبار سے وہ ایک ’ زین بدھسٹ ‘ تھا جس کا برملا اظہار اس نے نوبل انعام وصول کرتے وقت اپنے لیکچر میں کیا تھا ۔ گو وہ فطرت پسند اور سادگی پسند بھی تھا لیکن ’ بونسائی ‘ ( Bonsai ) کو ’ اِکی بانا ‘ جیسا آرٹ سمجھتا تھا ۔ اپنے ادیب دوست ’ یوکیو میشیما ‘ کی 1970 ء میں خودکشی کے بعد وہ بھی 16 اپریل 1972 ء کو گیس کی وجہ سے دم گھٹنے پر مردہ پایا گیا تھا ۔ یہ ابھی تک معمہ ہے کہ یہ موت حادثاتی تھی یا کہ خودکشی ۔
وہ اپنے ناولوں ’ برفیلا ملک ‘ (Snow Country) ، یہ 1935 میں قسط وار چھپنا شروع ہوا تھا اور 1937 ء میں مکمل ہوا تھا اور کتابی شکل میں 1948 ء میں شائع ہوا تھا جبکہ اس کا نگریزی ترجمہ 1956 ء میں ہوا، ’ ایک ہزار سارس‘ (A Thousand Cranes) ، یہ 1952ء میں شائع ہوا جبکہ اس کا انگریزی ترجمہ 1964 ء میں سامنے آیا تھا اور ’ پربت کی صدا ‘ ( The Sound of the Mountain) ، یہ 1949ء میں قسط وار شائع ہونا شروع ہوا تھا اور 1954 ء تک چھپتا رہا ، اس کا انگریزی ترجمہ 1970 ء میں چھپا تھا ، کے لئے مشہور ہے ، گو اسے اپنا ناول ، ماسٹر آف ’گو‘ ، ( Meijin) سب سے زیادہ پسند تھا جو اس نے 1951ء میں لکھا تھا اور جس کے بارے میں اس کا خیال تھا کہ اسے وہ مزید وسعت دے سکتا تھا لیکن وہ ایسا نہیں کر پایا ۔ دیگر ناولوں کے علاوہ اس نے لگ بھگ 150 کے قریب مختصر کہانیاں ( افسانے ) جنہیں وہ ’ Tanagokoro No Shôsetsu‘ ( بالشتی کہانی ) کہتا تھا ، بھی لکھیں ۔ ان میں سے کچھ کہانیاں انگریزی میں پہلی بار 1988ء میں ، لگ بھگ پچاس اور کچھ بعد میں لگ بھگ بیس 1998ء میں شائع ہوئیں ۔
ان کہانیوں میں ’ پلاٹ ‘ اور ’ سٹوری لائن ‘ کا بیانیہ کم کم ہے جب کہ ان لمحاتی تجربات و کیفیات ، جو زندگی پرر واضع طور پر اثر انداز ہوتی ہیں ، کا بیان زیادہ ہے ۔
کاواباتا نے درج ذیل کہانی 1923 ء میں لکھی تھی ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
’ زین بدھسٹ ‘ = Zen Buddhism ، مہاتما گوتم بدھ کی تعلیمات بعد ازاں دو مکاتب فکر میں بٹ گئیں : ’تریوادا ‘ اور ’ مہایانا ‘ ؛ یہ مکاتب فکر آگے مزید کئی خانوں میں بٹ گئے ۔’ زین‘ مہایانا بدھ مت کی ایک شاخ ہے جس نے چین میں ساتویں صدی میں’ تانگ خاندان ‘ کی حکومت کے زمانے میں جنم لیا تھا ۔ اس پر ’ تاﺅازم ‘ (بنیاد؛ Live in Harmony ) کا اثر بہت نمایاں ہے ۔
بونسائی = Bonsai ، بناتات کو دھاتی تاروں سے جکڑ کر بونا بنا کر قید کرنے کی ایک شکل ہے ، ویسے ہی جیسے لڑکیوں کے پاﺅں چھوٹے رکھنے کےلئے انہیں آہنی جوتے پہنا دئیے جائیں جیسا کہ چین میں رواج تھا ، جبکہ ’ اکی بانا ‘ پھولوں کی ایک خاص ترتیب تعلق رکھتا ہے جو ساتویں صدی سے اس وقت شروع ہوئی تھی جب جاپان میں پھول قربان گاہوں پر چڑھائے جانے کا سلسلہ شروع ہوا تھا ۔ ’ بونسائی ‘ کا آرٹ ؟ ، جاپان میں اس سے ایک صدی بعد میں شروع ہوا تھا جبکہ یہ چین میں لگ بھگ دو ہزار سال قبل از مسیح سے موجود تھا ۔
’ گو‘ = Go ، یہ تختے ( شطرنج کی طرح ) پر کھیلی جانے والا ایک قدیم تجریدی کھیل ہے جس میں دو کھیلنے والے ہوتے ہیں اور مقصد یہ ہوتا ہے کہ ایک دوسرے کے علاقے کو زیادہ سے زیادہ گھیرا جا سکے ۔ یہ چین میں لگ بھگ تین ہزار سال پہلے ایجاد ہوا تھا ۔ اس کا بورڈ 19x19 یعنی 361 خانوں ( شطرنج کا بورڈ 8x8 یعنی 64 خانوں کا ہوتا ہے ) میں بٹا ہوتا ہے اور یہ سفید اور کالی بیضوی گوٹیوں ( جنہیں ’ پتھر‘ کہا جاتا ہے ) کے ساتھ کھیلا جاتا ہے ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
سنہری روشن جگہ (Hinata , 1923 )
( The Sunny Place )
یہ میرے چوبیسویں سال کا موسم خزاں تھا ۔ میں سمندر کے کنارے ایک سرائے میں ایک لڑکی سے ملا ۔ یہ محبت کی ابتداء تھی ۔
لڑکی نے اچانک اپنا سر اٹھایا اور اپنے کیمونو کی آستین سے چھپا لیا ۔ میں نے جب اس کی یہ حرکت دیکھی تو مجھے خیال آیا کہ میں نے یقینا اپنی بری عادت کا پھر سے مظاہرہ کر دیا تھا ۔ میں شرمندہ ہوا اور میرے چہرے پر تکلیف کا تاثر ابھرا ۔
” میں تمہیں گھور رہا تھا، کیا ایسا تھا ؟ “
” ہاں ۔ ۔ ۔ لیکن یہ وجہ نہیں ہے “ ، اس کی آواز دھیمی تھی اور الفاظ میں خوش مزاجی تھی۔مجھے سکون کا احساس ہوا ۔
” اس سے تم کو پریشانی ہوئی ، کیا ایسا ہے؟ “
” نہیں ، سب ٹھیک ہے ، لیکن ۔ ۔ ۔ سچ میں ، سب ٹھیک ہے ۔ “
اس نے اپنی آستین نیچے کر لی ۔ اس کا رویہ بتا رہا تھا کہ اسے خاصی کوشش کرنا پڑی تھی کہ خود کو دیکھنے دے ۔ میں نے اس کی طرف سے منہ موڑا اور سمندر کو دیکھنے لگا ۔
مجھے لمبے عرصے سے یہ بری عادت تھی کہ میں پاس بیٹھے لوگوں کو گھورتا رہتا تھا ۔ میں نے اکثر سوچا تھا کہ اس عادت سے چھٹکارا پاﺅں لیکن ادرگرد کے لوگوں کے چہروں کو نہ دیکھنا میرے لئے زیادہ تکلیف دہ ثابت ہوتا ۔ البتہ یہ بھی تھا کہ جب میں لوگوں کو گھور رہا ہوتا تومجھے خود سے شدید نفرت کا احساس بھی ہوتا تھا ۔ میری یہ عادت شاید تب پیدا ہوئی تھی جب میرے والدین فوت ہوئے تھے، مجھے اپنا گھر چھوڑنا پڑا تھا ، دوسرے لوگوں کے ساتھ رہنا پڑا تھا اور میں ادرگرد کے لوگوں کو تکتا رہتا تھا ۔ شاید یہی وجہ تھی کہ میں ایسا تھا ۔ میں نے سوچا ۔
ایک موقع پر میں نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ کیا میری یہ عادت تب پیدا ہوئی تھی جب میں نے دوسروں کے ساتھ رہنا شروع کیا یا یہ پہلے سے ہی تھی جب میں اپنے ہی گھر میں رہ رہا تھا لیکن مجھے ایسی کوئی یاد نہ آئی جس سے مجھے کچھ واضع ہو سکتا ۔
خیر جیسے ہی میں نے لڑکی سے نظریں ہٹائیں میں نے جانا کہ ساحل خزاں کی دھوپ میں نہائی ہوئی ایک سنہری جگہ ہے ۔ اس نے میرے اندر عرصہ پہلے کی ایک دبی ہوئی یاد کو ابھار دیا ۔
والدین کا انتقال کے بعد میں اپنے دادا کے ساتھ مضافات میں ان کے گھر میں دس سال تک رہا تھا ۔ میرا دادا نابینا تھا ۔ وہ سالہا سال تک ایک ہی کمرے میں ، ایک ہی جگہ پر ، مشرق کی طرف منہ کئے بیٹھا رہتا ۔ اس کے سامنے ایک ٹھیٹھرا انگھیٹی رکھی ہوتی تھی ۔ وہ کبھی کبھی جنوب کی طرف بھی سر گھماتا ، لیکن کبھی شمال کی جانب نہ دیکھتا ۔ ایک بار مجھے اپنے دادا کی اس عادت ، کہ وہ صرف ایک ہی طرف اپنا چہرہ گھماتا ہے ، کا احساس ہوا تو مجھے تجسس ہوا ۔ میں کبھی کبھی اپنے دادا کے سامنے گھنٹوں بیٹھ کر اس بات کا منتظر رہتا کہ وہ شمال کی طرف بھی منہ گھمائیں لیکن وہ ایک برقی گڈے کی طرح ٹھیک ہر پانچ منٹ کے بعد اپنے سر کو دائیں طرف گھما کر جنوب کو تکتا تھا ۔ ان کا ایسا کرنا مجھے اداسی کا احساس دلاتا ۔ یہ مجھے غیر فطری لگتا تھا ۔ پر جنوب میں دھوپ سے لبریز ایک جگہ تھی ؛ میں حیران ہوتا تھا کہ کیا ایک اندھے آدمی کو بھی جنوب قدرے روشن محسوس ہوتا تھا ۔
اب ساحل کو دیکھتے ہوئے مجھے وہ ، دوسری ، سنہری دھوپ سے روشن جگہ یاد آ گئی تھی جسے میں بھلا بیٹھا تھا ۔ ان دنوں میں اپنے دادا کے چہرے کو تکتا رہتا تھا کہ وہ کبھی شمال کی طرف بھی سر کو گھما لیں ۔ چونکہ وہ نابینا تھے اس لئے میں انہیں لگاتار گھورتا رہتا تھا جس کا نہیں بالکل احساس نہ ہوتا تھا ۔ مجھے ادراک ہوا کہ مجھے لوگوں کے چہروں کو تکنے کی عادت وہیں سے پڑی تھی ۔ مطلب یہ کہ میری یہ عادت تب سے تھی جب میں اپنے گھر میں ہی تھا ۔ یہ کسی بے ہودہ مقاصد سے نہیں پھوٹی تھی ۔ مجھے تحفظ کا احساس ہوا کہ میں خواہ مخواہ ہی ، اس عادت کی وجہ سے خود ترسی کا شکاررہتا ہوں ۔ یہ سوچ کر میں خوشی سے جھوم اٹھا ۔ ۔ ۔ اور میرا دل اس خواہش سے بھی بھر گیا کہ میں لڑکی کو یہ سب بتا کر اپنی صفائی پیش کروں ۔
لڑکی پھرسے بولی ، ” میں گھورے جانے کی عادی ہو چکی ہوں لیکن میں اب بھی کچھ شرمیلی ہوں ۔ “
اس کے ، کہے ، کا مطلب تھا کہ میں دوبارہ اس کے چہرے پر نظریں جما سکتا تھا ۔ اس نے یقینا یہ سوچا ہو گا کہ پہلے میں بد اخلاقی کا مظاہرہ نہیں کر رہا تھا ۔
میں نے اپنے روشن چہرے کے ساتھ اسے پھر سے دیکھنا شروع کر دیا ۔ وہ شرم سے لا ل ہو گئی اور اس نے مجھ پر ایک پرفریب نظر ڈالی ۔ ” میرا چہرہ ہر آنے والے دن اور رات کے ساتھ اپنا انوکھا پن کھوتا رہے گا ، اس لئے مجھے کوئی پریشانی نہیں ہے ۔“ ، اس نے ایک بچے کی مانند کہا ۔
میں مسکرایا ۔ مجھے لگا جیسے ہمارے تعلق میں اچانک ایک طرح کی بے تکلفی پیدا ہو گئی ہے ۔ تب میں نے چاہا کہ اس لڑکی اور اپنے دادا کی یاد لئے ساحل کے اس حصے پر جا کر چہل قدمی کروں جو سنہری اور تمازت بھری دھوپ میں نہایا ہوا تھا ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔