(ایک غریب پنجابی ماں کی پکار)
۔
سن اے بلوچا، تمہارے سرزمین سے میرے جگر گوشے کے لاشے کا تحفہ آیا ہے
مانا کہ آرمی میری، افواج میرے مگر
میرا اکلوتا تو وہاں پیٹ کی آگ بجھانے آیا تھا نفرت کی آگ نہیں
اسکے سینے پر کوئی بیج نہیں تھا اور کندھوں پر کوئی تارے بھی نہیں سجے تھے
ہاں اسکا قیمض بوسیدہ تھا اور بنیان پھٹی ہوئی تھی
اسکی گرم جرابیں میں نے سی کر دی تھیں
سن اے بلوچا، تمہارے سرزمین سے میرے جگر گوشے کے لاشے کا تحفہ آیا ہے۔
مجھے نہیں پتہ سوئی کا قصبہ کہاں اور گیس وہاں سے نکل کر کہاں کہاں جارہی ہے
میرے آنگن میں میرے سوختہ کیکروں کی شاخیں جلانے کے کام آتی ہیں
مجھے سی پیک کا نہیں پتہ کہ کہاں سے آرہی ہے کہاں جا رہی ہے
مجھے گرم پانیوں سے غرض نہیں کونسی میری تجارتی کشتیاں ہیں کہ جنھوں نے وہاں لنگر ڈالنا تھا
میرا قصور بس یہ ہے کہ میں بس انجان تھا
تیرے درد سے
تیرے سوختہ بدن لاشوں سے
تیری غربت سے
تیرے آنسوٶں سے
تیری مفلسی سے
اور شاید تیرے نفرت سے
میرا چولہا ٹھنڈا پڑا تھا اور میرا بیٹا تیرے چولہے سے آگ کا بس ایک شعلہ مستعار لینا آیا تھا
کہ شاید اس سے میرا بجھا چولہا دوبارہ سلگ اٹھے اور ٹھنڈے بدنوں میں روانی ہو
سن اے بلوچا، تمہارے سرزمین سے میرے جگر گوشے کے لاشے کا تحفہ آیا ہے۔
مجھے سچ میں نہیں پتہ تمہارا یہ حالت کس نے کیا
کون تیرے نوالے چھین رہا ہے
کون تیرے جوان گمنام کر رہا ہے
یہ سوختہ لاشیں کیونکر
مجھے نہیں پتہ مجھے نہیں پتہ
مگر آج مجھے آگ نصیب ہوا ہے مگر یہ آگ میرے لیے کھانا نہیں بنا سکتا
نہ میرے اندھیرے آنگن میں کچھ گھڑیاں روشنی بکھیر سکتا ہے
یہ آگ میرا سینہ چیر گیا ہے
میری ویران آنکھوں کی بینائی چھین گیا ہے
چلو تمہیں مبارک کہ تمہارا بدلہ پورا ہوگیا
شاید کلیجہ کچھ ٹھنڈا ہوگیا ہوگا تیرا
دعا ہے بس یہی کہ تیرا برباد گھرانہ آباد ہو
تیرے جگر گوشے سلامت واپس آنے لگیں
تیرا بجھا چولہا دوبارہ سلگ اٹھے
تیرے پیروں میں جوتی ہو
تیرے تن پر سلامت کپڑا ہو
اور
اور
دعا کرنا مجھے بھی یہی فیضان نصیب ہوں