منٹو تقسیم کر براشت نہیں کرسکا تھا ، اس کے افسانوں کی بڑی تعداد تقسیم کے ہس منظر میں لکھے گئے افسانوں کی ہے۔ اس تقسیم کی وجہ سے انسانی خون سے کھیت ، چھتیں، ٹرینیں ،سڑکیں۔سرخ ہوئیں اور انسان نے اپنی اندر کی وحشت کو ننگا کرکے بازاروں میں جس طرح اس کا رقص کرایا منٹو نے بھیانک طریقے سے اس کی منظر کشی کی ہے۔
انسانی کی اس وحشت کو منٹو نے تین لائینوں میں لکھا
" پہلے نے دوسرے کا نام پوچھا
دوسرے نے نام بتایا
پہلے نے دوسرے کو چھرا گھونپ دیا"
اور جب لوگ جھوٹ بول کر اپنی جان بچانے لگے تو وحشت نے نے کہنا شروع کر دیا
"پتلون کھولو "
اور ۔۔۔۔۔۔ اور پتلون کے اندر چھپا مذہب کو دیکھ کر قتل کرنا شروع کر دیا ۔
منٹو ایک افسانے میں بتاتا ہے کہ ایک دفعہ قتل کرنے کے بعد لال خونی پتلوں کھولی تو پتلون کے اندر سے اپنا ہی مذہب نکلا تو وحشت کو کہنا پڑا
" شالا مش ٹیک ہوگیا"
مگر پھر گلی گلی انسانوں نے سفید جھنڈے لہرائے ، کھیتوں ،سڑکوں ، چھتوں، ٹرینوں میں کٹی لاشوں کے چھیڑوں کو اکٹھا کیا اور ان کو دفنایا اور کئی کو آشرم میں جلایا۔
اور اس پتلون کو دفن کردیا جس کو کھلوا کر اندر چھپے مذہب کو دیکھ کر پتلوں والے کو قتل کر دیا جاتا تھا ۔
مگرپھر پاک فوج مشرقی پاکستان میں لوگوں کی دھوتی میں جھانک کر دیکھتی تھی اور دھوتی کے اندر چھپا مذہب دیکھ کر قتل کرتی تھی
اور اب جب سے دنوں خطوں میں مذہبی انتہا پسندی کے پنھیر سانپ نے سر اٹھایا ہے ، دفنائی گئی پتلوں پھر نکل آئی ہے انڈیا میں پھر لوگوں کو کہا جا رہا ہے
" ہتلون کھولو"
اور ۔۔۔۔۔ اور پتلون کے اندر چھپا اس کا مذہب دیکھ کر پتلون کو لال کر دیا جاتا ہے ۔ آج پھر ان عورتوں کی چھاتیاں کا ٹی جا رہی ہیں جن کو " ماتا جی پرنام " کہتے ہوئے خنجر پکڑا لڑکا جوان ہوا تھا ۔
ادھر بھی بسوں میں لوگوں سے شناختی کارڈ مانگے جا رہے ہیں اور مخصوص نام والوں کو بسوں سے اتار کر فرقے اور مذہب کے کھردرے چھرے سے مسافر کی گردن تن سے الگ کر دی جاتی ہے۔
بچیوں کو اغوا کرکے انہیں مسلمان کر کے ان سے نکاح کیے جا رہے ہیں ۔
پتلون کو ہمیشہ دفن کرنے کے لیے سڑکوں پہ ننگے بدنوں کا احتجاج کب یوگا ۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...