نامور ادیب اور شاعر، مدیر اعلیٰ ماہنامہ نیرنگِ خیال اور اردو پنچ ، جنابِ سلطان رشک رضائے الہٰی سے انتقال فرما گئے ہیں
کہنہ مشق صحافی ،منجھے ہوئے ادیب ،نامور شاعر ،مدیر اعلیٰ ماہنامہ نیرنگِ خیال راولپنڈی اور اردو پنچ ،یعنی سلطان رشک بھی ادبی دنیا کو داغ ِ مفارقت دے گئے ۔انہیں آہوں اور سسکیوں کے ساتھ 6دسمبر کو چکلالہ اسکیم 3 کے جدید قبرستان میں سپر د ِ خاک کردیا گیا۔ ان کا نسبی تعلق سلطان العارفین حضرت سلطان باہو کے خانوادے سے تھا۔ اس لئے بھی ان کی شاعری میں متصوفانہ رنگ سامعین اور قارئین کی توجہ کا مرکزبنتا تھا۔وہ میرے گہرے دوست سلطان ارشدالقادری مدیراعلیٰ سہہ ماہی دستگیر ۔ کوئٹہ کے قریبی عزیزتھے اور ان دونوں بڑی شخصیات کا ہمارے گھر آنا جانا لگارہتا تھا۔سلطان ارشد القادری کا میری وجہ سے اور محترم سلطان رشک کا ابومرحوم سے قربت و محبت کے باعث ۔ یایوں کہیئےسلطان رشک مرحوم سے مجھے دلی رغبت اور محبت اپنے والد ِ بزرگوار سید فخرالدین بلے سے ورثے میں ملی۔ وہ اپنے دوست سید فخرالدین بلے صاحب سےرابطے میں رہے۔ہمارا گھرانہ خانہ بدوش رہا۔جب بھی تبادلہ ہوتا تو ہمارا شہر اور ٹھکانہ بدل جایا کرتا تھا۔اسلام آباد ، راولپنڈی ، سرگودھا ، ملتان اور لاہور میں قیام کے دوران وہ اکثرملنے کےلئے یا ہمارے گھر پر سجائے جانے والے ادبی تنظیم قافلے کے پڑاؤ میں شرکت کےلیےتشریف لاتے تھے۔ اور جب بھی آتے محفل کی جان بن جایا کرتے تھے ۔
سید عارف معین بلے نے ان کے شعری مجموعوں کےناموں’ دریا کی دہلیز ‘اور’ کاغذ کا گھر ‘کو بنیاد بنا
کرشعری زبان میں یہ سوال اٹھائے ہیں
ناقدوں سے کیسے پوچھوں دیدہ ور کیسا لگا؟
دریا کی دہلیز پر ، کاغذ کا گھر کیسا لگا؟
دیکھ کر بتلائیے اوراق ِ نیرنگ ِ خیال
محترم سلطان کا علمی سفر کیسا لگا؟
جہاں تک مجھے یاد ہےذوالفقار علی بھٹو کے دور ِ حکومت کے آخری دنوں میں میرے والد سید فخرالدین بلے ملتان سےاسلام آبادچلے گئے تھے اور وہاں بیک وقت تین اہم جرائد ماہنامہ اوقاف، ماہنامہ ہم وطن اور ماہنامہ یاران ِ وطن کے بانی چیف ایڈیٹر کی حیثیت سے اپنی ذمےداریاں ادا کررہے تھے۔ انہی دنوں میں کسی ایک جریدے کی تقریب ِ بسم اللہ میں شرکت کیلئےسلطان رشک بھی آئے تھے۔ میرا بچپنا تھا۔ وہ ہمارے گھرانے سے بھی آکر ملے۔مجھے ان کے لب و لہجے میں اپنائیت ، محبت اور ادب دوستی محسوس ہوئی۔انہوں نے موقع محل کی مناسبت سے ایک دو اشعار بھی سنائے۔ابو بھی ان سے بڑی محبت سے ملے۔ایسا لگا ۔آملے ہیں سینہ چاکان ِ وطن سے سینہ چاک ۔ان کی گفتگو سے محسوس ہوا کہ کئی برس بعد ان کی ابو سے ملاقات ہوئی ہے۔تقریب شروع ہونے سے پہلے انہوں نے اپنی بہت سی پرانی یادوں کو تازہ کیا۔کچھ باتیں میری سمجھ میں آئیں ، کچھ سر کے اوپر سے گزر گئیں۔
قافلے کے پڑاؤ میں انہوں نے اپنی کئی تازہ غزلیں سنائیں ۔مجھے یاد پڑتا ہے کہ مرتضیِٰ برلاس صاحب بھی ان سے بڑی محبت کے ساتھ ملے اور قافلے کے شرکاء کو ان کے ادبی سفر کی تفصیل بھی اپنے مخصوص انداز میں بتائی ۔اس محفل میں ڈاکٹر اجمل نیازی ، امجد اسلام امجد، محترمہ صدیقہ بیگم مدیراعلیٰ ادب ِ لطیف، احمد ندیم قاسمی ، ظفر علی راجہ، میرزا ادیب ،مسعود اشعر، طفیل ہوشیار پوری بھی تھے۔مو ضوع ِ گفتگوقومی اخبارات کے ادبی ایڈیشن اور پاکستان اور بھارت کے ادبی جرائد بنا رہا۔خالد احمد نے ان سلسلوں کو ادب کی ترویج و ترقی کا وسیلہ قراردیا۔سرفراز سیدخود بھی ادیب ، صحافی اور شاعر ہیں ، اس لئے انہوں نے بھی کھل کرحصہ لیا۔
مجھے یاد ہے اس کے کئی برس بعد شادمان لاہور میں واقع بلے ہائوس میں قافلے کا ایک خصوصی پڑاؤ محترم سلطان رشک کے اعزاز میں ڈالا گیا۔سلطان ارشد القادری ، شہزاد احمد، اسلم کولسری ، اداکار منور سعید ، شاہد واسطی ،سرفراز سید ، تسلیم تصور، ڈاکٹر ظفر علی راجا ،میرزا ادیب محترمہ صدیقہ بیگم ، محترمہ عذرا اصغر ، ڈاکٹر حسن رضوی ، بیدار سرمدی ، طفیل ہوشیارپوری ، حفیظ تائب ، ڈاکٹر انور سدید ، بشری رحمن ، سعید بدر ، نجمی نگینوی ، ڈاکٹر اختر شمار، قائم نقوی ، یزدانی جالندھری ، مرتضیٰ برلاس ، خالد احمد اور دیگر مستقل شرکائے قافلہ نے رونق دوبالا کردی ۔ ایک اور قافلے کےپڑاؤ میں انہوں نے بڑی خوبصورت غزل سنا کر خوب داد سمیٹی ۔یقین کے ساتھ تومیں کچھ نہیں کہہ سکتالیکن جہاں تک میری یاد داشت میرا ساتھ دے رہی ہے ۔ انہوں نےاپنی خاموشی یہ غزل سنا کر توڑی تھی۔
اس کی جانب دیکھتے تھے اور سب خاموش تھے
اس کی آنکھیں بولتی تھیں اور لب خاموش تھے
یوں تو دل والے تھے محفل تھی مگر عالم تھا یہ
اس کا جادو تھا جو حیرت کے سبب خاموش تھے
چاند اک نزدیک سے دیکھا تھا جب سمران میں
ہم بھی کچھ کہتے پر اپنے چشم و لب خاموش تھے
اک سکوت مرگ طاری تھا چمن زادوں کے بیچ
محوِخواب خوش دلی تھے، مثل شب خاموش تھے
سب کے چہروں پر لکھی تھیں خواہشیں سلطان رشکؔ
یوں تو لب بستہ تھے سارے با ادب خاموش تھے ۔
سلطان رشک نےبڑی بھرپور زندگی گزاری ۔صحافت اور ادب سے وابستہ رہے۔طنزو مزاح نگاری کے فروغ کےلئے ان کی کوششیں کبھی فراموش نہیں کی جاسکتیں ۔انہوں نے جو ادبی مجلہ اردو پنچ نکالا، وہ مزاح نگاروں کی مسکراتی نگارشات سےمُزین ہواکرتا تھا۔ادب دوست بتاتے ہیں کہ اپنے دور میں اردو پنچ بڑا مقبول رہا۔ان کا ایک اور ادبی رسالہ ماہانہ نیرنگ ِ خیال ان کی پہچان بنارہا۔ وہ زندگی کا آخری سانس لینے تک نیرنگ ِ خیال سےوابستہ رہے۔
سلطان رشک نے نثری اور شعری بہت سی اصناف ِ سخن میں اپنے رنگ دکھائے ۔انہوں نے غزلیں بھی کہیں ، نظمیں بھی لکھیں ، نعتیں بھی کہیں اور ادبی اور روحانی محفلوں میں اپنے رنگ جماکر ارباب ِ فکرو فن سے داد و تحسین بھی سمیٹی۔ دریا کی دہلیز ان کا پہلا مجموعہء کلام ہے اور کاغذ کا گھر ان کی دوسری شعری تصنیف۔ان دونوں کتابوں کو ادبی دنیا میں پذیرائی ملی۔ کئی شہروں میں میرے والد سید فخرالدین بلے اور محترم مرتضیٰ برلاس بیک وقت تعینات رہے اور ادبی محفلیں بھی سجاتے رہے۔یہ دونوں برج کے بھی کھلاڑی رہے ہیں ۔بعض دنوں میں رات گئے تک برج کی نشستیں ہمارے گھر پر بھی ہوتی رہیں ۔اداکار منور سعید ،سید آنس معین بھی ان محفلوں میں شریک ہوتے تھے اور برج کے بڑے اچھے کھلاڑی تھے۔ ایسا بھی ہوا کہ برج کی ٹیبل سجی ہوئی ہے اور سلطان رش اچانک آگئے تو ان کی آمد کے احترام میں یا انہیں خوش آمدید کہنے کیلئےابو نے نشست موخرکردی۔وہ واقعی ادب دوست تھے۔ مرتضیٰ برلاس کا پہلا شعری مجموعہ تیشہ ء کرب ہے، یہ کتاب بھی سلطان رشک کے ادارے کی طرف سے شائع ہوئی تھی۔ ان کا حلقہء یاراں بڑا وسیع رہا۔ معروف ادبی شخصیات جوش ملیح آبادی،سید ضمیر جعفری، احمد فراز ،سید فخرالدین بلے، کرنل محمد خان ،نثار ناسک ،سید عارف،شوکت مہدی،کرنل سید مقبول حسین ،زاہد حسن چغتائی،ڈاکٹر رشید نثار،حکیم فضل الٰہی بہار،اورعائشہ مسعود ملک سےان کی بڑی رفاقت رہی۔ وہ ایک زندہ دل شخصیت تھے۔ان کی سربراہی میں مقبول جریدے نیرنگ خیال کادفتر کئی دہائیوں تک ادبی سرگرمیوں کا مرکزاور ارباب ِ ادب کا محور بنا رہا، شیزان ہوٹل میں بھی سلطان رشک سورج غروب ہونے کے بعد ادبی نشستیں سجایا کرتے تھے،جو رات گئے تک جاری رہا کرتی تھیں ۔ ایک بار مجھے بھی اپنے والد ِ بزرگوار کے ساتھ ایک محفل میں شرکت کا اعزاز حاصل ہوا۔ چند برس پہلے فالج کا حملہ ان پر ضرور ہوا لیکن انہوں نےدشواریوں کے باوجود اپنا ادبی سفر جاری رکھا اور نیرنگ ِ خیال کی اشاعت کاسلسلہ بھی ان کے دم ِ واپسیں تک برقرار رہا۔کئی نسلیں نیرنگ ِ خیال کے توسط سے دنیائے ادب کے سامنے آئیں اور اس جریدے سے طلوع ہونے والے ستارے آج بھی آسمان ِ ادب پر جگمگا رہے ہیں۔اللہ تبارک و تعالی سلطان رشک کواپنے جوار ِ رحمت میں اعلیٰ مقام عطافرمائے ۔میں اپنے تعزیتی مضمون کااختتام ان کی ایک خوبصورت غزل پر کررہا ہوں۔
لکھ رہا ہوں حرفِ حق حرف وفا کس کے لیے ؟
مانگتا ہوں زندہ رہنے کی دعا کس کے لیے؟
پھول ہیں سب ایک گلشن کے تو پھر تخصیص کیوں
صحن گلشن میں یہ زہریلی ہوا کس کے لیے ؟
میں تو ناکام محبت ہوں چلو رسوا ہوا
تو بتا ہے تیرا پیمانِ وفا کس کے لیے؟
میں تو اک خواہش کی بھی تکمیل پر قادر نہیں
یہ شکوہِ خسروانہ یہ انا کس کے لیے ؟
مجھ کو خوش فہمی نہیں ہے،اے ہوا پھر بھی بتا
مضطرب ہے وہ تغافل آشنا کس کے لیے؟
کھو چکا ہے اس کو جب تو خود ہی اے سلطان رشکؔ
اب دھڑکتا ہے دل بے مدعا
کس کے لیے ؟