سخن یہ ہے
’’سخن یہ ہے‘‘ نصرت بخاری کا شعری مجموعہ ہے۔یہ مجموعہ’’عقیدت‘‘کے زیرِ عنوان حمد،نعت،سلام سے شروع ہوتا ہے۔اسی حصہ میں ’’قرآن‘‘کے زیرِ عنوان اشعار بھی بنیادی طور پر نعتیہ رنگ لیے ہوئے ہیں۔حضرت علی اور بی بی ز ینب کے لیے عقیدت کا اظہار بھی اسی حصہ میں شامل ہے۔تا ہم یہ سارا حصہ عقیدت اور عقائد کا جذباتی اظہار نہیں ہے بلکہ شعری اظہار کا سلیقہ نصرت بخاری کے ہاں تخلیق اور عقیدت کو آمیز کر کے ایسی سطح پر لے آتا ہے جہاں عقیدے اور فن دونوں کی پختگی ادبی و روحانی سرور کا باعث بنتی ہے۔
’’سخن یہ ہے‘‘میں ’’عقیدت‘‘کے بعد غزلوں کا حصہ ہے۔اس میں شامل غزلیں نصرت بخاری کی شاعرانہ شناخت قائم کرتی ہیں۔ان میں بعض کم زور غزلیں بھی ہیں لیکن یہ ویسی ہی کم زور غزلیں ہیں جیسی اردو کے اساتذہ سے لے کرآج کے عمدہ شعرا تک کے ہاں آسانی سے مل جاتی ہیں۔ایسی غزلیں ہر شاعر کے فنی سفر کے نشیب و فراز کی روداد بن جاتی ہیں۔تا ہم نصرت بخاری کی بیشتر غزلیں فکری و فنی پختگی اور جذبہ و نغمگی سے آراستہ ہیں۔ان کی غزلوں میں غزل کی روایات کی جھلکیاں بھی ملتی ہیں اور آج کی زندگی کا حال بھی دکھائی دیتا ہے۔اس حوالے سے متعدد اشعار میں سے صرف چند اشعار یہاں پیش کر رہا ہوں۔
دیس کیا چیز ہے احباب کی صحبت کیا ہے
مجھ کو معلوم نہ تھا ملک بدر ہونے تک
گھروں کے ہوتے ہوئے بے گھری کا سامنا ہے
وطن کے ہوتے ہوئے بھی وطن نہیں رکھتے
آنا ہے اگر ہم نے یہیں لوٹ کے نصرت
پھر دشت و بیاباں کا سفر کس کے لیے ہے
اک زمانے کے عناں گیر ہوا کرتے تھے
رشتے ناتے کبھی زنجیر ہوا کرتے تھے
جانے حالات بدل جائیں تو کیا حالت ہو
صاحبِ کشف و کرامات سے ڈر لگتا ہے
زخم کے ادھڑنے میں دیر کتنی لگتی ہے
مل کے پھر بچھڑنے میں دیر کتنی لگتی ہے
بستیاں بسانے میں عمر بیت جاتی ہے
بستیاں اجڑنے میں دیر کتنی لگتی ہے
چپ جو رہتا ہوں تو مجرم کا گماں ہوتا ہے
بات کرتا ہوں تو باتوں کا زیاں ہوتا ہے
آج کی زندگی سے متعلق نصرت بخاری کی غزل ان کی شاعری کا حاصل کہی جا سکتی ہے۔تا ہم اس مقام تک آنے میں وہ سارا سفر شامل ہے جو نصرت بخاری کی ساری شاعری کی صورت میں موجود ہے۔
’’سخن یہ ہے‘‘کا تیسرا حصہ نظموں پر مشتمل ہے۔صرف ایک نظم’’ایک فلسطینی کی طرف سے‘‘آزاد نظم ہے۔باقی ساری نظمیں پابند ہیں اور بڑی حد تک غزل کی ہیئت کے زیرِ اثر ہیں۔ان نظموں میں نصرت بخاری حال کی زندگی سے اور زیادہ قریب ہو جاتے ہیں۔ان ساری نظموں میں براہ راست جلتے ہوئے اور دکھ دیتے ہوئے موضوعات(وصیت،توہین،کشمیر،ایک فلسطینی کی طرف سے،سانحۂ پشاور کے حوالے سے)پر کہی گئی نظمیں درپیش تلخ حقائق کا نوحہ لگنے لگتی ہیں۔
مجھے امید ہے کہ نصرت بخاری کا یہ شعری مجموعہ ان کی شعری پہچان میں اہمیت کا حامل رہے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔