ایف سی کے 23 جاں باز موت کے گھاٹ اتار دیئے گئے۔
ان کا قصور کیا تھا؟ یہی کہ وہ مادرِ وطن کے لیے جان ہتھیلی پر رکھ کر میدان میں موجود تھے ، پاکستان کی خاطر… اُس پاکستان کی خاطر جو قائداعظم نے بنایا تھا۔
اس سے زیادہ کرب ناک خبر یہ ہے کہ ایف سی کے سربراہ نے اپنے جوانوں کے قتل کے بعد وفاقی حکومت سے راست اقدام کی اجازت مانگ لی ہے۔ وفاقی حکومت کیا جواب دیتی ہے؟ اس سوال سے زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ ایف سی کے سربراہ کو راست اقدام کا اب کیوں خیال آیا ہے؟
اطلاعات کے مطابق یہ جوان گزشتہ چار سال سے طالبان کی قید میں تھے۔ اگر ان مقتول جوانوں کے پس ماندگان عدالت کے ذریعے پوچھیں کہ چار سال کے طویل عرصہ میں مقتولین کے محکمے نے ان کی رہائی کے لیے کیا کوششیں کیں؟ تو نہیں معلوم‘ ایف سی کے سربراہ کیا جواب دیں گے۔ لیکن کسمپرسی اور بے اعتنائی کی حد ہے کہ تیئس جوانوں کو یوں بھلا دیا گیا جیسے ان کی زندگیوں کی کوئی اہمیت ہی نہیں تھی۔ فیضؔ نے کسی ایسے ہی موقع کے لیے کہا تھا:
کہیں نہیں ہے‘ کہیں بھی نہیں لہو کا سراغ
نہ دست و ناخنِ قاتل نہ آستیں پہ نشاں
نہ سرخیٔ لبِ خنجر‘ نہ رنگِ نوکِ سناں
نہ خاک پر کوئی دھبہ‘ نہ بام پر کوئی داغ
کہیں نہیں ہے کہیں بھی نہیں لہو کا سراغ
نہ رزم گاہ میں برسا کہ معتبر ہوتا
کسی علم پہ رقم ہو کے مشتہر ہوتا
اب خبر آئی ہے کہ ان جوانوں کو افغانستان میں قتل کیا گیا ہے۔
اب سے کچھ عرصہ قبل مشیرِ امور خارجہ سرتاج عزیز نے کہا تھا کہ افغانستان کے مسئلے کا ایک ہی حل ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان ایک دیوار ہو تاکہ اُدھر سے کوئی یہاں آ سکے نہ یہاں سے اُس طرف جا سکے۔ قرآن پاک میں حضرت ذوالقرنین کا ذکر ہے جنہوں نے ایک قوم کو دوسری قوم کے ظلم سے بچانے کے لیے دونوں کے درمیان ایک بند باندھا تھا۔ پہلے لوہے کی چادریں ڈالی گئیں۔ پھر آگ دہکائی گئی یہاں تک کہ آہنی دیوار آگ کی طرح سرخ ہو گئی۔ پھر ذوالقرنین نے کہا: ’’لائو‘ اب میں اس پر پگھلا ہوا تانبا انڈیلوں گا‘‘۔ یہ ایک ایسا بند تھا جس پر چڑھنا ممکن تھا نہ اس میں نقب لگانا!
افغانستان اور پاکستان کی صورتِ حال وہی ہے جس کے بارے میں ایک فارسی شاعر نے کہا تھا ؎
بامن آویزشِ اُو‘ الفتِ موج است و کنار
دمبدم بامن و ہر لحظہ گریزان از من
یعنی میری اور اس کی باہمی آویزش ایسے ہی ہے جیسے ساحل اور موجِ دریا کا تعلق… ابھی موج ساحل سے گلے ملی‘ شیرو شکر ہوئی‘ گلے شکوے دور ہوئے اور اگلے ہی لمحے موج نے منہ موڑا‘ پشت ساحل کی طرف کی اور ساحل کو حیران پریشان چھوڑ کر یہ جا وہ جا! سچ پوچھا جائے تو پاکستان کی حالت ساحل کی سی ہے اور افغانستان موج کی طرح ہے۔ بے اعتبار‘ ناقابلِ اعتماد‘ کچھ پتہ نہیں‘ کس وقت بغل گیر ہو اور کس وقت تعلقات پر سرد مہری کی مٹی ڈال دے۔
کیا افغانستان کا پڑوس پاکستان کے لیے ہمیشہ دردِ سر رہے گا یا اس کا کوئی علاج ممکن ہے؟ دونوں ملکوں کی تاریخ دیکھی جائے تو مجید امجد کا یہ شعر یاد آتا ہے ؎
جو تم ہو برقِ نشیمن تو میں نشیمنِ برق
الجھ گئے ہیں ہمارے نصیب! کیا کہنا!
یورپی طاقتوں کو چھوڑ کر سارے حملہ آور برصغیر میں افغانستان ہی سے وارد ہوئے۔ مغلیہ عہد میں افغانستان سلطنت کے لیے مسلسل دردِ سر بنا رہا۔ کبھی کابل‘ کبھی ہرات اور کبھی قندھار کا مسئلہ درپیش رہا۔ رنجیت سنگھ پنجاب کا بادشاہ بنا تو پشاور اُس کے قبضے میں رہا اور افغانستان کے حکمران اسے واپس لینے پر مصر رہے۔ انگریزوں نے تین جنگیں لڑیں اور ہر جنگ نے ثابت کیا کہ افغانستان اور اس کی سرحدیں غیر معمولی عقل و دانش کا تقاضا کرتی ہیں۔ پاکستان بنا تو اول روز سے افغانستان کا رویہ منفی تھا۔ سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کیا تو پاکستان ایسا اس دلدل میں پھنسا کہ آج تک نکل نہیں پایا اور نہ ہی بظاہر اس بلائے درماں سے چھٹکارا پانے کا کوئی امکان نظر آ رہا ہے۔ پاکستان اس وقت جس دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے‘ اُس کے ڈانڈے افغانستان ہی سے ملتے ہیں!
دیوار کی تعمیر تو ممکن نہیں! افغانستان اور پاکستان کی سرحد جغرافیائی حوالے سے ایسی نہیں جہاں دیوار بنائی جا سکے۔ جو قبائل تہذیب کی فصیلوں کو گرا سکتے ہیں وہ لوہے‘ کنکریٹ اور سیسے کی دیوار کو کیا سمجھیں گے! ہاں! ایک حل اس مسئلے کا ممکن ہے اور وہ یہ ہے کہ اقوامِ متحدہ کی یا غیر جانب دار ملکوں کی افواج پاکستان اور افغانستان کے درمیان حائل ہو جائیں۔ کسی کو افغانستان سے پاکستان آنے دیں نہ کسی کو پاکستان سے افغانستان میں گھسنے دیں۔ یہ تجویز بظاہر ناقابلِ عمل لگ سکتی ہے لیکن غور کیا جائے تو اس کے بغیر کوئی حل نہیں! افغانستان کے مشرقی اور جنوبی قبائل ہمیشہ جنگ جُو رہیں گے۔ وہاں تعلیم کا گزر ہو سکتا ہے نہ رویہ تبدیل ہو سکتا ہے۔ کشت و خون ہی وہاں کا عنوان ہے اور یہی رہے گا ۔ اس دعویٰ کی دلیل یہ ہے کہ باقی دنیا کا موازنہ مشرقی اور جنوبی افغانستان سے کیا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ افغانستان کسی اور ہی دنیا کا حصہ ہے۔
بین الاقوامی فوج کے‘ جو سرحدوں پر پہرہ دے گی ، اخراجات پاکستان ہی کو اٹھانے ہوں گے۔ اگر اس قومی نقصان کا تخمینہ لگایا جائے جو سمگلنگ کی وجہ سے پاکستانی معیشت کو ہو رہا ہے تو بین الاقوامی فوج پر اٹھنے والے اخراجات کچھ بھی نہیں۔ پچاس ساٹھ سالوں سے پاکستان کی قومی پیداوار پر افغانستان پرورش پا رہا ہے۔ آٹا‘ گھی‘ چینی‘ دالیں‘ اناج‘ مصالحے‘ گوشت‘ زندہ مویشی‘ ادویات‘ پارچہ جات‘ جوتے یہاں تک کہ مکان تعمیر کرنے کا سیمنٹ‘ سریا اور اینٹیں تک‘ پاکستان سے جاتی ہیں۔ یہ سب کچھ سمگلنگ کے ذریعے منتقل ہوتا ہے‘ جس کا پاکستان کی معیشت کو کچھ فائدہ نہیں! اُس کے بدلے میں افغانستان سے کیا آتا ہے؟ ہیروئن‘ افیون اور اسلحہ! ضربِ کلیم میں اقبال کا ایک قطعہ ہے جس کا عنوان یورپ اور سوریا (شام) ہے۔ اس میں بھی اسی قبیل کے معاملے کو نظم کیا گیا ہے ؎
فرنگیوں کو عطا خاکِ سوریا نے کیا
نبی عفت و غم خواری و کم آزاری
صلہ فرنگ سے آیا ہے سوریا کے لیے
مے و قمار و ہجومِ زنانِ بازاری
’’اقتصادی تاریخ‘‘ ایک باقاعدہ الگ مضمون ہے جو یونیورسٹیوں میں پڑھایا جاتا ہے۔ جاپان‘ امریکہ‘ برطانیہ اور جرمنی کی ’’اکنامک ہسٹری‘‘ ماہرینِ اقتصادیات کو التزام سے پڑھائی جاتی ہے۔ اگر آپ افغانستان کی ’’معاشی تاریخ‘‘ پر غور کریں تو اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ کم از کم قریب کے زمانے میں افغانستان نے کبھی کوئی شے نہیں بنائی۔ کوئی مشین‘ کپڑا‘ جوتا‘ جوراب‘ کھلونا… یاد نہیں پڑتا کہ افغانستان کا بنا ہوا‘ کسی بازار میں دیکھا یا خریدا ہو۔
اگر پاکستان کو کبھی کوئی سنجیدہ حکمران ملے اور افغانستان کا مسئلہ مستقل بنیادوں پر حل کرنے کا عزم کرے تو سرحدوں پر بین الاقوامی فوج تعینات کرنے سے کشت و خون اور دہشت گردی ہی نہیں تھمے گی‘ پاکستان کی معیشت بھی سُکھ کا سانس لے گی!