مانا کہ طاہر القادری ملکہ کی وفاداری کا حلف اٹھائے ہوئے ہیں، ان کا ماضی قابلِ رشک نہیں ہے اور وہ ایکزمانے میں شریف فیملی کے اور بعد میں پرویز مشرف کے حلقہ دوستی میں رہے ہیں لیکن وہ ہزاروں بچےاور عورتیں اور ہزاروں عام شہری، کیا وہ بھی کینیڈا سے آئے ہیں؟ اور کیا ان کا ماضی بھی غیر شفافہے؟ کیا پورے پاکستان کی اشرافیہ کے پاس اُس عورت کا سامنا کرنے کی جرأت ہے جس نےیہ کہہ کر اُن کے منہ پر طمانچہ مارا ہے کہ یہاں دھرنے میں سردی ہے تو ہمارے گھروں میں کونسی گیس اور بجلی ہمارا انتظار کر رہی ہے!
عربی کا محاورہ ہے اُنْظُرْ اِلیٰ مَا قاَلَ وَ لَا تَنظُر اِلٰی مَنْ قَالَ ۔ یہ نہ دیکھو کہ کہنے والا کون ہے، یہ دیکھو کہکیا کہا جا رہا ہے؟ اللہ کے بندو! طاہر القادری کی نقل جنگل میں ایک درخت سے دوسرے درخت پرپھدکنے والے جانور کی طرح لگانے سے پہلے اُن باتوں کا تو ذکر کرو جو اس نے کہی ہیں۔ دھرنےکے شرکا ایک ہزار تھے یا ایک لاکھ اور گھروں میں ٹیلی ویژن پر سننے والے ایک لاکھ تھے یا ایککروڑ، اس الزام کا جواب کون دے گا کہ اسمبلیوں میں ٹیکس چور براجمان ہیں اور جعلی ڈگریوں والےنوسرباز اشرافیہ کی صفوں میں سب سے آگے بیٹھے ہیں؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ الیکشن کمیشن کا صرفچیئرمین اچھی شہرت کا مالک ہے، اس کا صرف ایک ووٹ ہے، باقی ارکان سیاسی پارٹیوں کے نامزد کردہہیں اور غیر جانبدار نہیں ہیں۔ پندرہ جنوری کو عمران خان نے جو سات نکات پیش کیے، ان میں بھیایک نکتہ یہ تھا کہ الیکشن کمیشن کی تشکیل نو کی جائے۔ جاوید ہاشمی نے اُسی دن ٹیلی ویژن پر اسنکتے کی مزید وضاحت کی اور یہی دلیل دی کہ فخرو بھائی تو غیر جانبدار ہیں لیکن باقی ارکان کا معاملہیہ نہیں ہے۔ کیا عمران خان کا مطالبہ بھی غیر آئینی ہے؟ کیا اب یہ لوگ عمران خان اور جاوید ہاشمیکا بھی منہ چڑائیں گے؟ ؎
لگے مونہہ بھی چڑانے دیتے دیتے گالیاں صاحب
زباں بگڑی سو بگڑی تھی، خبر لیجے دہن بگڑا
اس کالم نگار کی تحریریں گواہ ہیں کہ اسے طاہر القادری سے کوئی عقیدت نہیں، بلکہ کئی اعتراضاتہیں۔ وہ بسا اوقات شعبدہ بازی کے قریب آ جاتے ہیں، اس قدر قریب کہ شعبدہ بازی کو چھُو بھیسکتے ہیں، لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ دھرنے کے دونوں دن اُن کی تقریر میں دلائل مضبوط تھے۔نام نہاد عوامی نمائندوں پر ان کے اعتراضات سچائی پر مبنی تھے اور وہ جو کچھ کہہ رہے تھے، زیریںطبقات اس کے ایک ایک لفظ کی تصدیق کر رہے تھے۔
ذرا دھرنے کے شرکاء کا اُن امرا اور عمائدین سے موازنہ کیجیے جو لاہور میں اپنے اور اپنے طبقے کے مفاداتکے تحفظ کے لیے جمع تھے۔اخبارات میں ان شرکاء کا گروپ فوٹو شائع ہوا ہے۔ آپ ان کے چہروںکو غور سے دیکھیے، کیا آپ کو کسی چہرے پر اس تشویش کا اظہار نظر آتا ہے کہ ستر فیصد عوامینمائندوں نے ٹیکس ریٹرن ہی جمع نہیں کرائی؟ کیا آپ کو کسی ایک چہرے پر بھی اس شرمناکحقیقت پر ندامت کی کوئی جھلک دکھائی دیتی ہے کہ ان جماعتوں کے نمائندے سفید جھوٹ بول کرجعلی ڈگریوں کے ساتھ حقِ ’’نمائندگی‘‘ ادا کرتے رہے؟
یہ عمائدین جو لاہور میں جمع ہو کر قوم کے غم میں بریانی، پالک، گوشت، حلیم، دیسی مرغی، پاستا اورگراں بہا چینی ماکولات تناول فرماتے رہے اور چوڈا پہلوان کا پکایا ہوا سوجی کا خصوصی حلوہ اپنے مقدسمعدوں میں اتارتے رہے، ان میں سے کسی ایک نے بھی لوڈشیڈنگ کی اذیّت کبھی نہیں برداشت کی۔ان میں سے کوئی ایک بھی تین گھنٹے تو دُور کی بات ہے، پندرہ منٹ بھی سی این جی یا پٹرولکے لیے قطار میں نہیں کھڑا ہوا۔ ان میں سے ایک بھی کسی سرکاری ہسپتال میں کبھی نہیں گیا یہتو وہ حضرات ہیں جو چھینک آنے پر لندن کا رُخ کرتے ہیں، کھانسنے کے بعد دبئی کا ٹکٹ خریدتےہیں اور ڈکار مارنے کے بعد چوڈا پہلوان کو نیا آرڈر دیتے ہیں۔ ان میں سے کوئی اپنے دل پر ہاتھ رکھ کربتائے کہ کس کا بچہ یا پوتا سرکاری سکول میں پڑھ رہا ہے اور کس کے اہلِ خانہ پبلک ٹرانسپورٹاستعمال کر رہے ہیں؟ بخدا یہ معززین اُن ہزاروں افراد کی نمائندگی نہیں کرتے جو دھرنے میں جمع تھے اوراُن لاکھوں لوگوں سے کوئی تعلق نہیں رکھتے جو گھروں میں ٹیلی ویژن سیٹوں کے ساتھ جُڑ کر بیٹھےتھے۔ عمران خان اور طاہر القادری میں لاکھ برائیاں سہی، وہ کم از کم بات تو اُن عوام کی کر رہےہیں زندگی جن کے لیے بوجھ بن گئی ہے۔ گروپ فوٹو میں کھڑے اِن عمائدین سے تو الطاف حسینہی بازی لے گیا جو مانا کہ لندن میں ہزاروں پائونڈ ماہانہ خرچ کر رہا ہے لیکن اس نے طاہر القادریکے مطالبات کی تائید تو کی اور دھرنے کے شرکاء پر طاقت کے استعمال سے منع توکیا۔ قوم کے غم میں حکومتِ پنجاب کے سرکاری جہاز پر سوار ہو کر آنے والے اور چوڈا پہلوان کاپکا خصوصی حلوہ کھانے والے ان شرفاء میں سے ایک نے طاہر القادری کو جے سالک سے تشبیہ دی اوراپنی دانست میں بذلہ سنجی کا مظاہرہ کیا لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اقلیت سے تعلق رکھنے والے ایکمعزز رہنما کا مذاق اُڑایا۔ یہ ایک غیر سنجیدہ حرکت ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جے سالک نے جی ایچکیو سے زرعی زمین کبھی نہیں حاصل کی‘ نہ ہی اس بیچارے نے کبھی فخر سے یہ اعلان کیا کہ ہمپاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہیں۔ ہمارے لیڈروں کے اعصاب اس قدر مضبوط ہیں کہ ایک طرفپاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہ ہونے کا فخریہ اعلان کرتے ہیں تو دوسری طرف پانچوں گھیمیں اور سر کڑاہی میں ڈالتے ہیں۔ ایک بھائی وزیر تو دوسرے ناظم۔ ایک زمانے میں فیصل آباد سے تعلقرکھنے والے پنجابی کے شاعر سعید الفت بہت مشہور تھے۔ اُن کی یہ نظم عام لوگوں کی زبان پرتھی جس کا ایک شعر یوں تھا۔ کھائی جائو بھئی کھائی جائو۔ ڈھڈاں نوں ودھائی جائو۔۔ اس موضوع پر کمالکی نظم تو منیر نیازی نے لکھی ہے جو تین سطروں پر مشتمل ہے ؎
بندے نہیں سَن، جانور سَن
روٹیاں کھائی جاندے سن
تے رولا پائی جاندے سن
اس گروپ فوٹو میں سید منور حسن کو دیکھ کر ایک دردناک اور عبرت ناک واقعہ یاد آ گیا
سید منور حسن کے عین پیچھے شیرِ پنجاب مصطفی کھر نظر آ رہے ہیں۔ ان کے دورِ اقتدار میں میاں طفیلمحمد کے ساتھ جو غیر انسانی اور ناقابلِ بیان سلوک ہوا تھا، اسے یاد کرکے آج بھی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ تعّجب ہے آج جماعت کے امیر، اسی مصطفی کھر کے ساتھ دیسی مرغی اور چوڈا پہلوان کا پکاہوا خصوصی حلوہ تناول فرما رہے ہیں ع
ببین
کہ از کہ بُریدی و با کہ پیوستی!
یعنی
غور تو فرمایئے آپ کہاں سے ٹوٹے اور کن کے ساتھ آ جُڑے!ہمیں نہیں معلوم ارب پتیوں کی اسانجمن تحفظِ مفادات میں سیّد صاحب کا جو ایک عام آدمی کی طرح رہتے ہیں، کیا کام تھا؟ ہمارا حسنِ ظنہے کہ سیّد صاحب نے یہاں ضرور کلمۂ حق بلند کیا ہوگا اور سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کو ضرورشرم دلائی ہوگی کہ ان کے ارکان ٹیکس نہیں دیتے اور دروغ گوئی کا ارتکاب کرتے ہیں۔
اُمراء
میں کبھی کبھی منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے درویش بھی شامل ہو جاتے ہیں۔ کہیں یہ وہی درویش تونہیں جن کے بارے میں ناصر کاظمی نے کہا تھا ؎
سادگی سے تم نہ سمجھے ترکِ دنیا کا سبب
ورنہ وہ درویش پردے میں تھے دنیادار بھی