ذیابیطس میلیٹس یونانی اور لاطینی لفظوں کا مجموعہ ہے جس کے معنی ہیں شکری اخراج -یہ نام اس بیماری کو شاید اس لیے دیا گیا کیونکہ اس کی علامات میں ایک علامت پیشاب کے ذریعے خون میں موجود گلوکوز کا اخراج ہے ۔یہ ایک میٹابولک بیماری ہے جس میں عموماً لبلبہ غذا کو جزوبدن بنانے کے دوران اپنے صحت مندانہ اعمال سرانجام نہی دیتا-اس بیماری کو عمومی طور پر ذیابیطس کہتے ہیں جبکہ پاکستان میں اس کو شوگر کے نام سے جانا جاتا ہے
اس بیماری کا ذکر ۱۵۰۰ قبل مسیح کی مصری دستاویز میں ملتا ہے اور اسی وقت کے قریب ہندوستانی معالج بھی اس بیماری کو جانتے تھے اور اس کو مدھو ہیما (شہد پیشاب )کے طور پر بیان کیا ہے اس بیماری کی اقسام اور ہونے کی وجوہات پر پھر کبھی بات ہوگی-
دنیا میں ہر 5 سیکنڈ میں کسی کو ذیابیطس کی تشخیص ہوتی ہے ، اور ہر 10 سیکنڈ میں کوئی اس سے مر جاتا ہے۔بین الاقوامی ذیابیطس فیڈریشن (IDF) پوری دنیا سے ذیابیطس کے واقعات اور پھیلاؤ کے اعداد و شمار کو اکٹھا کرتا ہے اور اس کو سہ ماہی شائع کرتا ہے ، جسے ذیابیطس اٹلس کے نام سے جانا جاتا ہے۔ایک اندازے کے مطابق 2030 تک ، ذیابیطس کے شکار افراد کی تعداد میں اضافہ ہو جائے گا جوکہ دنیا کی آبادی کا 438 ملین یا 7.8٪ ہوگا-IDF نے پیش گوئی کی ہے کہ ذیابیطس کے علاج اور اس کی روک تھام کے لئے عالمی لاگت 2030 تک 490 بلین امریکی ڈالر تک پہنچ جائے گی۔
ترقی یافتہ ممالک میں صحت مند زندگی کی آگہی اور بہتر علاج کی صورتحال کے باوجود یہ بیماری تیزی سے پھیل رہی ہے جبکہ ترقی پذیر اور غریب ممالک میں عوام کو علاج کی بہتر سہولتیں میسر نہ ہونے کے برابر ہیں جس کی وجہ سے ان ممالک میں اس بیماری کی صورت حال بہت خراب ہے یہ معاشرتی اور سماجی سطح پر لوگوں کی انفرادی اور خاندانی زندگی پر اثر انداز ہورہی ہے ۔
آپ اس کا اندازہ نہی لگاسکتے کہ اگر کسی خاندان کے واحد کفیل کو یہ مرض ہوجائے جس میں وہ جان کی بازی ہار جائے یا کام سے فارغ ہوجائے تو اس کے خاندان کو کس قسم کی مشکلات پیش آسکتی ہیں
ایک اندازے کے مطابق نوے فیصد لوگ ٹائپ ٹو ذیابیطس کا شکار ہیں جس کو متوازن غذا،صحت مند طرز زندگی اور بہتر طبی سہولیات سے کنٹرول کیا جاسکتا ہے جس کے لیے ملکی وسائل کو اس بیماری کے تدارک کی سمت متحرک کرنا ہوگا
شکر کی غذا میں زیادہ استعمال کی وجہ خود شکر کا مالیکیول ہے کیونکہ کہ یہ زبان کے ذائقہ محسوس کرنے والے ریشہ پر بہت کم مقدار میں چپکتا ہے جبکہ ۸۰ فیصد مالیکیول بنا کوئی ذائقہ پیدا کیے پیٹ میں چلے جاتے ہیں اگر جدید تحقیق سے ان مالیکیول کی کارکرد گی کو بہتر کیا جاسکے تو شکر کے استعمال میں کمی لائی جاسکتی ہے -فلحال ایسی غذائیں اور مشروبات جو اس بیماری کی شدت میں اضافہ کا سبب بن سکتی ہیں ان کو بہتر قانون سازی کرکے کنٹرول کرنا ہوگا جوکہ ایک مشکل کام ہے کیونکہ ملک کے حکمران شوگر پیدا کرنے والی ملوں میں ایک اندازے کے مطابق پچاس فیصد کے حصہ دار ہیں خیال کیا جاتا ہے کہ ملک میں موجود ۸۹ملوں میں سے چالیس کے قریب بلواسطہ یا بلاواسطہ حکمران یا پوزیشن میں بیٹھے سیاستدانوں کی ہیں جس کی وجہ سے وہ اس صنعت کو کاروباری بے قاعدگیوں کے باعث پیدا ہونے والی صورتحال میں عوام کے نام پر سبسیڈی دیتے ہیں جس سے یہ کاروبار بہت منافع بخش ہوگیا ہے اور اس سے منسلک لوگ اب باقاعدہ ایک مافیا کے طور پر دیکھے جاتے ہیں جو اتنے طاقت ور ہیں کہ وہ حکومت بنا بھی سکتے ہیں اور گرا بھی سکتے ہیں ایسی صورتحال میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا حکمران صحیح معنوں میں عام عوام کو اس آفت (ذیابیطس )سے نجات دلانے کے اقدامات کریں گے ؟
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...