اُٹھو! غم کے مارو! اُٹھو‘ وہ دیکھو‘ بالآخر سویرا طلوع ہو رہا ہے‘ طویل رات ختم ہونے کو ہے!
ملامت کے تیروں سے تمہارے جسم چھلنی ہو چکے ہیں۔ کیا یار کیا اغیار! طعنہ زنوں نے نشتر چبھو چبھو کر تمہیں ہلکان کر دیا ہے‘ جمود تمہارا نشانِ امتیاز بن چکا ہے۔ پس ماندگی کو تمہارے نام کا حصہ قرار دیا جا چکا ہے۔ الزام یہ ہے کہ چھ صدیوں سے تم نے علم سے‘ سائنس سے‘ ٹیکنالوجی سے‘ روشن خیالی سے‘ رشتہ توڑ رکھا ہے۔ حریف ایک زہر خند کے ساتھ تمہیں بتاتے ہیں کہ دیکھو‘ دنیا مریخ پر پہنچ گئی ہے۔ سمندر فتح کیے جا چکے‘ خلا سرنگوں ہو چکا‘ کرۂ ارض سمٹ کر ’’ناسا‘‘ کے سامنے ایک ذرہ بے بضاعت بن چکا ہے۔ پہاڑوں جتنے گلیشئر‘ کھینچ کر‘ مطلوبہ مقام پر منتقل کیے جا چکے۔ قطبین پر پرچم لہرا دیے گئے۔ جزیروں کے جزیرے‘ ملکوں کے ملک‘ براعظموں کے براعظم‘ دوسروں نے دریافت کیے اور اپنی اقلیموں میں شامل کر لیے اور تم ہو کہ غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہو۔ سیاسی غلامی‘ ذہنی غلامی‘ جذباتی غلامی‘ اقتصادی غلامی‘ غلامی کی جتنی شکلیں ہیں‘ تم پر طاری ہیں!
مگر نہیں! اب مزید نہیں! وقت کروٹ لے چکا ہے! تاریخ کا دھارا موڑ مڑ چکا ہے ؎
مجھ پہ ہنستے تو ہیں پر دیکھنا روئیں گے رقیب
لبِ خنداں کی قسم‘ دیدۂ گریاں کی قسم!
اس صبحِ نو کا آغاز مشرق سے ہی ہوا ہے۔ ملائیشیا نے مسلمانوں کے مردہ جسم میں نئی جان ڈال دی ہے۔ ملائیشیا کی عدالت نے وہ فیصلہ کر دیا ہے جس نے مسلمانوں پر ’’تحریکِ احیائے علوم‘‘
(Renaissance)
کے دروازے کھول دیے ہیں۔ چودہ سو سال سے مسلمانوں کے علماء‘ فقہا اور اہلِ دانش‘ جس راز کو نہ پا سکے‘ آج کے مسلمان نے اسے پا لیا ہے۔ غیر مسلموں کو ’’اللہ‘‘ کا نام لینے سے منع کردیا گیا ہے۔ وہ گاڈ کہیں یا جو مرضی کہیں‘ اللہ نہیں کہہ سکتے نہ لکھ سکتے ہیں۔
یہ سارا عرصہ جو گزرا‘ اللہ کے حبیبﷺ پر جب غارِ حرا میں پہلی وحی اتری‘ اُس وقت سے لے کر آج تک‘ یہ نکتہ کسی کی سمجھ میں نہیں آیا۔ عرب دنیا میں بے شمار غیر مسلم ہیں‘ نصرانی‘ یہودی‘ آتش پرست‘ وہ اللہ ہی کہتے رہے ہیں۔ یہ شہادت مسلمانوں کی مقدس کتاب بھی دے رہی ہے کہ مشرکین سے پوچھا جائے کہ رزق کون دے رہا ہے اور کانوں اور آنکھوں کا مالک کون ہے اور بے جان سے جاندار کون پیدا کرتا ہے اور جاندار سے بے جان کون پیدا کرتا ہے اور یدبر الامر کون ہے تو جھٹ کہیں گے اللہ!
عرب دنیا کے غیر مسلم اپنے بچوں کے نام عبداللہ رکھتے رہے ہیں۔ الحمدللہ‘ آج مسلمانوں کو معلوم ہو ہی گیا کہ ترقی کے راستے میں رکاوٹ یہی تو تھی۔ اب صدیوں اور برسوں کی بات نہیں‘ دنوں اور لمحوں کی بات ہے۔ مسلم دنیا کے غلبے کا آغاز ہو چکا ہے!
دوسرا انقلابی قدم اسلامی ملک ایران نے اٹھایا ہے اور مسلمانوں کے زوال کا ایک بہت بڑا سبب دور کردیا ہے۔ ترقی کے راستے میں سرِ راہ بنا ہوا ایک اور سنگِ گراں ہٹ گیا ہے۔ یہ اس سال کے آغاز کا واقعہ ہے۔ ایران کے وزیر خارجہ جنیوا میں مغربی طاقتوں کے ساتھ ایٹمی مسئلے پر مذاکرات کر رہے تھے۔ وقفہ ہوا تو ذہنی کوفت اور بے پناہ تکان دور کرنے کے لیے امریکی وزیر خارجہ اور ایرانی وزیر خارجہ نے سڑک کے فٹ پاتھ پر پندرہ منٹ چہل قدمی کر لی۔ بے خبر ایرانی وزیر خارجہ اسلامی قوانین سے ناواقف تھا۔ اسے یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ یہ ایک ایسی حرکت ہے جسے ایک اسلامی ملک برداشت نہیں کر سکتا۔ ملک میں ہنگامہ برپا ہو گیا۔ جمعہ کے خطبات میں خوب لعن طعن ہوئی۔ پارلیمنٹ کے اکیس ارکان نے ایک مطالبے پر دستخط کیے اور وزیر خارجہ کو پارلیمنٹ میں آ کر اس جرم کے بارے میں صفائی پیش کرنے کو کہا۔ یہ ’’قربت‘‘… شیطانِ بزرگ کے وزیر کے ساتھ ناقابل تصور تھی! اور سفارت کاری کے اسالیب سے مطابقت نہ رکھتی تھی۔ تہران واپس پہنچ کر وزیر نے صفائی پیش کی کہ مذاکرات کا دورانیہ طویل تھا اور تھکا دینے والا! وقفے کی ضرورت تھی! تاکہ دم لے کر بات چیت کا نیا دور شروع ہو۔ ہوٹل میں صحن تھا نہ باغ‘ نہ میدان‘ اردگرد کے کوچے متجسس صحافیوں سے اٹے ہوئے تھے۔ ایسے میں شاہراہ کے فٹ پاتھ کے علاوہ کوئی اور جگہ ہی نہ تھی جہاں ہم چل کر ٹانگیں سیدھی کرتے۔
افسوس! صدیاں‘ صدیوں کی صدیاں‘ لاعلمی میں گزر گئیں۔ اگر یہ سائنسی اصول پہلے حلقۂ عرفان میں آ جاتا تو آج مسلمان بھی کرۂ ارض کے فرماں روا ہوتے۔ بہرحال اب مسلمانوں پر یہ عقدہ وا ہو چکا ہے کہ کسی غیر مسلم کے ساتھ چہل قدمی حلال نہیں ہے!
تیسرا ’’انقلابی‘‘ قدم جس نے مسلمانوں کی اپنی الگ اور وکھری تحریک احیائے علوم
(Renaissance)
کا دروازہ کھول دیا ہے‘ یہ فتویٰ ہے کہ سنومَین بنانا فعلِ حرام ہے! شرق اوسط کے ایک ملک کا کچھ حصہ ایسا بھی ہے جہاں برف باری ہوتی ہے۔ وہاں بچے سیرو تفریح کے لیے آتے ہیں اور برف کے آدمی (سنو مین) بناتے ہیں۔ کئی اسلامی ملکوں میں برف باری ہوتی ہے اور یہ کھیل صدیوں سے جاری ہے۔ ترکستان اسلامی فقہا کا گڑھ رہا ہے۔ خجند سے لے کر خیوا تک اور فرغانہ کی وادی سے لے کر سمرقند بخارا‘ رَے اور باکو تک‘ شمالی ایران سے لے کر ترکی اور شام کی وادیوں تک چودہ سو سال سے برف پڑ رہی ہے اور بچے کھیلتے چلے آ رہے ہیں‘ امام بخاری سے لے کر امام ترمذی تک… ہدایہ کے مصنف امام برہان الدین مرغینانی سے لے کر فتاویٰ قاضی خان کے مصنف امام فخر الدین الفرغانی تک‘ سب کوہستانی اور برفانی علاقوں میں رہے۔ مگر یہ سنہری اصول کسی پر فاش نہ ہو سکا۔ یوں تو برف سے ایسا مجسمہ نہیں بن سکتا جسے تکنیکی اعتبار سے بت قرار دیا جائے۔ آنکھیں بن سکتی ہیں نہ رخسار۔ لپ سٹک لگ سکتی ہے نہ گالوں پر سرخی‘ سارا کھیل ذرا سی دیر کا ہوتا ہے۔ سورج کی کرنیں اترتی ہیں تو برف کی بادشاہی ختم ہونے لگتی ہے۔ سنومین گر پڑتا ہے اور گر کر برف کے لاتعداد ذروں میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ مگر نہیں! مسلمانوں کے غلبے کے لیے یہ فتویٰ لازم تھا۔ آخر مغرب کی بے پناہ طاقت کا مقابلہ بھی تو کرنا ہے۔
مسلمانوں کی جہالت اور پس ماندگی کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکنے کا شرف ہمارے برادر اسلامی ملک بنگلہ دیش کے حصے میں آیا ہے۔ امداد آکاش نے ایک شعر خوب کہا ہے ؎
اک پیچدار کیل تھا یہ سرِّ کائنات
میں نے اسے پکڑ کے گھمایا‘ نکل گیا
بنگلہ دیش کے ’’فقہا‘‘ نے نہ صرف اس سرِّ کائنات کے پیچ کو پکڑ کر گھمایا‘ بلکہ اس کے ساتھ ہی لٹک گئے! اسلامک فائونڈیشن نے جو وہاں کی وزارتِ مذہبی امور کے تحت کام کر رہی ہے‘ دو دن پہلے فتویٰ دیا ہے کہ کرسی پر بیٹھ کر نماز ادا کرنا ناجائز ہے! مفتی صاحب نے فرمایا ہے کہ نماز جائے نماز پر پڑھی جا سکتی ہے‘ کرسی پر نہیں۔ بنگلہ دیش کے مسلمانوں نے اس پر احتجاج کیا ہے کہ معذور اور ضعیف فرش پر نہیں بیٹھ سکتے۔ بیٹھ جائیں تو اٹھ نہیں سکتے۔ اس کالم نگار کو جدہ کی وہ مسجد یاد آ رہی ہے جس کی پچھلی صف کے ساتھ باقاعدہ صوفے پڑے تھے۔ مگر بے خبر‘ ناواقف مسلمانوں کو آج تک پتہ ہی نہ چلا کہ لمحۂ موجود کا سب سے بڑا مسئلہ‘ نازک ترین معاملہ‘ زندگی اور موت کے درمیان حدِّ فاصل کھینچنے والا بکھیڑا‘ کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنے کا ایشو ہی تو ہے! مسلمانو! جشن منائو کہ ہم نے طاقت کا راز پا لیا ہے‘ یہ سائنس یہ ٹیکنالوجی‘ یہ مغرب کا غلبہ‘ یہ سمندروں کے سینے پر تیرتے بڑے بڑے ایئرکرافٹ کیریئر‘ یہ غلامی میں جکڑے کشمیر اور فلسطین۔ یہ مسائل تو بے کار ہیں۔ ایشوز تو یہی ہیں جن سے پردے اب ایک ایک کر کے اُٹھ رہے ہیں۔ کیا انگڑائی لی ہے عالمِ اسلام نے! سبحان اللہ! سبحان اللہ!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“