پاکستان مسلم لیگ سندھ ہمیشہ سے تنازعات کا شکار رہی ہے اور گروہی اختلافات نے مسلم لیگ کو کمزور سے کمزور تر کردیا ہے
2015 میں کراچی میں دوسری بڑی جماعت بن کر سامنے آنے والی 2018 کے الیکشن میں صرف 2فیصد ووٹ حاصل کرسکی اس کی کیا وجوہات ہیں اس کا جائزہ لینا بیحد ضروری ہے
جب سے میاں نواز شریف سیاست میں آے ھیں دو سیاسی گروپوں کی حمایت ان کو حاصل رہی ہے ایک وہ جاگیردار اور سرمایہ دار جو ہمیشہ اقتدار پارٹی کا حصہ رہتے ہیں اور دوسرا پنجابی آبادگاروں اور اردو بولنے والے جو سندھ میں دوسری بڑی زبان بولنے والی قوم جس نے ہمیشہ نوازشریف کی سیاست کو فروغ دینے کے لیے جہدوجہد کی ہے اور ہمیشہ مسلم لیگ میں جاگیردار طبقے کا ہدف نشانہ بنے رہے ہیں اور 1997 کے بعد اقتدار نہ ہونے کے باوجود سندھ کے ہر ضلع میں بھرپور سیاسی سرگرمیوں کا مظاہرہ کیا ہے اور مشرف کے بدترین مارشل لاء کے باوجود 2002 کے الیکشن میں مسلم لیگ نے سندھ سے 3.7 فیصد ووٹ حاصل کر لیے تھے جو کہ اس کے تنظیمی ڈھانچہ اور نظریاتی کارکنوں کے مرہون منت تھی اس کے بعد 2008 اور 2013 کے الیکشن میں 4 فیصد ووٹ کے ساتھ صوبائی و قومی اسمبلی کی نشستوں پر کامیابی بھی حاصل کی لیکن 2018 میں بے پناہ ترقیاتی منصوبوں اور فنڈز کی فراہمی کے باوجو مسلم لیگ سندھ میں کیوں ناکام ہوئی یہ غورطلب سوال ہے جس پر شاید پارٹی قیادت نے ابھی تک کوئی کمیٹی بھی قائم نہیں کی اور گزشتہ دو سالوں میں تنظیمی ڈھانچہ کمزور سے کمزور ہوتا جارہا ہے مخلص و نظریاتی کارکن مایوسی کے باعث دوسری جماعتوں میں شامل ہورہے ھیں یا خاموشی اختیار کر رہے ہیں لیکن قیادت کے مسائل کی وجہ سے چند افراد نے جماعت میں شخصی آمریت قائم کی ہوئی ہے
ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگانے والی جماعت کے اپنے آئین کو سندھ میں روندھ دیا گیا ہے جس کی مثال مسلم لیگ کے آئین کے مطابق ضلعی صدر بننے کے لئے کم سے کم 10 سال جماعت کے ساتھ وابستگی لازمی ہے لیکن سندھ میں دو ماہ پہلے پارٹی میں شامل ہونے والے ڈویژنل صدر بن چکے ہیں اور سونے پے سہاگہ باپ نے ڈویژنل صدر ہٹنے کے بعد بیٹے کو ڈویژن کا صدر بنوادیا جو کہ کسی بھی جمہوری جماعت اور جمہوریت کے علمبرداری کرنے والوں کارکنوں کےلیے بھی بہت بڑا سوالیہ نشان ہے
مسلم لیگ کا تنظیمی ڈھانچہ جو مشرف آمریت. اور 97 سے اقتدار نہ ہونے کے باوجود نا ٹوٹ سکا وہ اب روبہ زوال ہے
شہباز شریف کی لندن موجودگی کے دوران شاہد خاقان عباسی اور احسن اقبال کے دورہ کراچی نے کارکنوں کو امید دی تھی وہ امید کرونا کے لپیٹ میں آگئی ہے لیکن دنیا کرونا کے ساتھ جینا سکھینے کی بات کر رہی ہے
کیا شہبازشریف کرونا کے ہوتے ہوئے اپنی پارٹی کے کارکنوں کو امید و حوصلے دے گے کہ وہ اپنے کارکنوں کے ساتھ زیادتی نہیں ہونے دے گے یا نظریاتی کارکن کرونا کی لپیٹ میں گم ہوجائے گے