صوبہ جموں کا اہم غزل گو شاعر:عابد مناوری
اگلے پڑاو پر یونہی خیمے لگاؤ گے
جتنی بھی ہے سفر کی تھکن بھول جاوگے
کیوں مجھے سنگسار کرتے ہو
کب میں نے کہا رسول ہوں میں ؟
مُسکراتے ہوئے بھی ڈرتا ہوں
تم نے بُزدل بنادیا ہے مجھے
وہ بھی ٹھنڈی ہوا کا جھونکا تھا
جس نے یکسر جلادیا ہے مجھے
حدِ نظر تک صحرا تھا
سر پر دھوپ بلا کی تھی
لفظ تھے سب پایاب مگر
بات نہایت گہری تھی
جنگ تو ہورہی ہے سرحد پر
اپنے گھر میں لہو لہان ہوں میں
لفظ کو پایاب کہنا کتنا خوبصورت پیرایہ شعری ہے۔
جہاں دل کے بدلے میں ملتا ہے دل
وہ دنیا جانے کہاں ہے میاں؟
اک زمانہ تھا جب لوگ یہ کہہ کر فخر کرتے تھے کہ ہمارا کلام شب خون میں چھپا ہے اور یہ کہہ کر وہ اپنی بیویوں کو رعب دکھاتے تھے لیکن سب جانتے ہیں شبخونیوں میں ظفر اقبال بانی محمد علوی کمار پاشی اور عادل منصوری کے علاوہ کوئی ابھر نہ سکا۔ہماری ریاست جموں و کشمیر سے تیسری نسل کے شعرا حکیم منظور پرتپال سنگھ بیتاب ، رفیق راز ، محمد یاسین بیگ ، ہمدم کاشمیری ،فاروق نازکی ،عابد پیشاوری عابد مناوری فاروق مضطر شجاع سلطان ،مظفر ایرج اور احمد شناس وغیرہ نئے نئے شعری جزیروں میں لنگر انداز ہوئے۔ ان میں پہلے پانچ چھ شعراء کو خاصی کامیابی حاصل ہوئی باقی بس یونہی متزبزب رہے …
فاروق مضطر بہت اچھے شاعر تھے لیکن وحید الدین خان کے مرید ہو کر شاعری سے تائب ہوگئے۔
عابد مناوری کا اصلی نام گوری نندن سنگھ بالی تھا ۔۔شاعرانہ مزاج رکھتے تھے لیکن زبان کے معاملے عابد پیشاوری سے پیچھے تھے۔۔ البتہ شعری مزاج عابد مناوری کا قابل رشک تھے ۔ شجاع سلطان ،مظفر ایرج اور احمد شناس وغیرہ محض شب خونی شاعری کرتے رہے عوام میں اتنی مقبولیت حاصل نہ کرسکے۔ ویسے بھی شبخون ہو یا کوئی اور جریدہ تقریبا” بیس کروڑ اردو جاننے والوں میں سے پانچ سات سو آدمی بھی یہ میگزین نہیں پڑھتے ۔ لہزا میگزنوں کے نام نہاد طور پر معیار ی ہونے سے بھی عوام ان سے کٹ جاتی ہے کیونکہ عوام الناس کی انکی رسائی ہے ہی نہیں اور ویسے بھی عوام کی عادت سہل پسندی ہے نہ مہم جوئی۔
وہ تو عام ھا ھو کرنے والے متشاعر لوگوں اور بھانڈوں کو معیاربند شعرا پت ترجیح دیتے ہیں۔بہر حال
عابد مناوری ۱۹۳۷ ء میں مناور میں پیدا ہوئے۔ بھبھر میر پور کے رہنے والے تھے ملکی تقسیم کے بعد جموں آئے..
بہارِ غزل انکی پہلی کتاب ۱۹۶۱ میں اور دوسرا شعری مجموعہ شمیمِ گل ۱۹۶۶ میں طباعت کے زیور سے آراستہ ہوئیں.
انکی ایک غزل
جب آسمان پر مہہ و اختر پلٹ کر آئے
ہم رخ پہ دن کی دھوپ لئے گھر پلٹ آئے
عابد مناوری کی غزل کے باقی اشعار
یوں خیال آتا ہے اسکا ، یاد آئے جسطرح
گرمیوں کی دوپہر میں شام کی ٹھنڈی ہوا
اور ابھی ہم سلگیں گے کمرے کے آتش دان میں
اور ابھی کہسار سے اترے گی برفیلی ہوا
ہم بھی اک جھونکے سے لطف اندوز ہولیتے کبھی
بھولے بھٹکے سے اس گلی میں بھی چلی آتی ہوا
اس نے لکھ بھیجا ہے یہ پیپل کے پتے پر مجھے
کیا تجھے راس آگئی بجلی کے پنکھے کی ہوا
اس مزکورہ بالا شعر کا جواب نہیں
کیونکر اے عابد بجھاپاتا میں اپنی تشنگی
مجھ تک آنے ہی سے پہلے ہوگیا پانی ہوا
۔۔۔
پانی کا ہوا کمال کی جدت طرازی ہے۔
عابد مناوری کی مزکورہ بالا غزل شہکار غزل ہے۔
عاشقی کیا حقیقی کیا مجازی۔۔۔۔عابد مناوری ہر دو روایت کا پاسبان تھا اور ترجمان بھی
انہوں نے سماج کا گہرا مطالعہ کیا اور اسے اپنے تجرباتِ شاعری کی صورت میں ہمارے سامنے رکھا ۔۔ یہاں سماج کہو یا مزہب یا سیاسی نظام… انہوں نے ایک شعر میں کشتی کی علامت برتی ہے اور بڑی مہارت سے۔۔۔۔ع
چھید ہی چھید ہیں فقط جس میں
ایسی کشتی کا بادباں ہوں میں
یاں گراں گوش ہے نگر کا نگر
یا کسی دشت میں اذاں ہوں میں
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔