مشرقی ہند میں قبریں گول ہوتی تھیں اور استوپ کہلاتی تھیں ۔ گوتم بدھ سے پہلے قبروں کی کوئی اہمیت نہیں تھی ۔ مگر گوتم کے مرنے کے بعد اس کی راکھ کے مدفن کی حثیت سے استوپ کو اہمیت اور مذہبی علامت دی جانے لگی اور اس کو اتنی زیادہ دینی حثیت حاصل ہوگئی کہ گوتم اور دوسرے بدھ متی بزرگوں کے آثار کے لیے استوپ بنانا بڑے ثواب کا کام سمجھا جانے لگا ۔ عموماً ہر استوپ کے ساتھ بھکشوؤں کے رہنے کے لیے دھار ( خانقاء ) اور ان کے اجتماع کے لیے ایک چیتا ( عبادت گاہ ) بنوائی جاتی تھی ۔ شروع میں استوپ نیم دائرے کی شکل کا ٹھوس گنبد ہوتا تھا ، جو قبر کی طرح بغیر کرسی کے بنایا جاتا تھا اور اس کے بیچ میں تابوت کی جگہ وہ آثار رکھے جاتے تھے جن کی پرستش مقصود ہوتی تھی ۔ استوپ کی چوٹی پر ایک چوکور جنگلہ ہوتا تھا اور اس کے اوپر ایک چتر ۔ چونکہ بدھوں میں جس چیز کا احترام کیا جاتا تھا اس کے گرد طواف کیا جاتا تھا اس لیے استوپ کے گرد ایک گول چبوترا بنادیا جاتا تھا ۔ بعد میں استوپ کے مزید احترام کے خیال سے ایک جنگلے کے ذریعے اس کی احاطہ بندی کی جانے لگی ۔ اس جنگلے کے چاروں طرف سمتوں کے لحاظ سے دروازے ہوتے تھے ۔ دھار کا نقشہ وہی ہوتا تھا جو استوپوں کا ہوتا تھا ۔ یعنی بیچ میں صحن اور اس کے چاروں طرف کمرے اور کوٹھریاں جو صحن میں کھلتی تھیں ۔ صرف یہ ترمیم کردی گئی کہ تین طرف کمرے اور ایک طرف ٹہلنے کے لیے لان رکھا گیا تھا ۔
اسٹوپا کو بدھ کی قبر بھی کہا جاتا ہے ۔ بدھ کی خاک آٹھ اسٹوپوں میں محفوظ کی گئی تھی ۔ اشوک ان آثار کو نکال کر سلطنت کے تمام بڑے شہروں اور صوبوں میں بھجوا دیا اور حکم دیا کہ وہاں شاندار اسٹوپے تعمیر کرا کر انہیں دفن کیا جائے ۔ یوں یہ خاک چوراسی ہزار اسٹوپوں میں محفوظ ہوئی ۔ چنانچہ اسٹوپوں کو بدھ کی قبر بھی کہا جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ بدھ کے پیروکاروں اور بزرگ کو بھی دفن کیا جاتا تھا اور بدھ کے تبرکات پر بھی اسٹوپے تعمیر کیئے گئے ۔ چنانچہ فاہیان ایک اسٹوپے کا ذکر کرتا ہے جو کہ بدھ کے کشکول پر بنایا گیا تھا ۔ اس طرح شکرانے کے طور پر امیر آدمی بھی اسٹوپے تعمیر کراتے تھے ۔ زائرین اسٹوپے کے گرد طواف کرتے تھے اور اس کے ساتھ اسٹوپے کی گولائی پر نظر رکھتے تھے اور اس پر آویزاں مجسموں کو دیکھتے جاتے تھے ، جن میں مہاتمہ بدھ کی زندگی کے مختلف ادوار بیان کئے جاتے تھے ۔ یہ اسٹوپے مہاتمہ بدھ کی زندگی کے بارے میں پتھریلی کتاب تھے ۔ اسٹوپے کے گنبد پر ہمیشہ سات چھتریاں ہوتی تھیں جو سات آسمانوں کو ظاہر کرتی تھیں ۔ اشوک کے دور میں بدھ مت نے عروج پایا ۔ اس نے بدھ مت قبول کرلیا تھا اور اس نے اپنی سلطنت کے آٹھ مقامات پر بڑے اسٹوپے تعمیر کرائے تھے اور ہر اسٹوپے میں گوتم بدھ کے تھورے تھورے تبرکات محفوظ کئے تھے ۔ ٹیکسلہ کا دھرم راجیکا ان میں سب سے بڑا تھا ۔ شاہی اسٹوپوں کی دیکھ بھال کے لئے بھشکو مقرر تھے ۔ ان کے رہنے کے لئے دہار بنا دیئے گئے اور آس پاس کی زمین اس کے لئے وقف کردی گئی ۔
پہلے ان اسٹوپوں پر گوتم بدھ کی مورتیاں کندہ ہوتی تھیں ۔ یونانیوں نے جب بدمت قبول کیا تو وہ مے کے پیالوں کی جگہ کنول کے پھول تراشے اور ان میں یونانی دیوتاؤں کی جگہ گوتم کی مورتیاں بنائیں اور رفتہ رفتہ ان اسٹوپوں پر گوتم کی زندگی واقعات کو بیان کیا جانے لگا ۔ عموماََ گوتم بدھ کی زندگی کے واقعات خاص کر کپل وستو کی زندگی کے واقعات کی منظرکشی کی جاتی تھی ۔ مثلاََ ایک جگہ گوتم بدھ کی کپل وستو سے اپنے خادم کے ہمراہ روانگی کا منظر ۔ دوسری جگہ گوتم بدھکا گھوڑا اکن نہکا آقا سے رخصت ہوتے وقت جھک کر ان کے قدم چوم رہا ہے اور بدھ کے تین چیلے دائیں بائیں کھڑے ہیں ۔ کشنوں کے دور میں سنگ تراشی کی جگہ مٹی اور چونے کی ابھرواں موتیاں اور نقش و نگار بنانے لگے ۔ چنانچہ گندھارا آرٹ کا سب سے حسین شاہکار گوتم بدھ کی وہ مورتی ہے جو کالواں اسٹوپا سے دریافت ہوئی تھی ، اس منظر میں گوتم اپنے منڈوا میں پالتی مارے بیٹھا ہے دو چیلے اس کے دائیں بائیں کھڑے ہیں ۔ یہ کچی مٹی کے ہیں لیکن سر پکی مٹی کا ہے اور دھر کچی مٹی کا بنا ہوا ہے ۔ جب ہنوںے اس اسٹوپا کو آگ لگائی تو سر پک گیا تھا ۔
اشوک نے بے شمار اسٹوپہ بنوائے اس کے اسٹوپوں کا ذکر مشہور چینی سیاحوں فاہیان اور ہیونگ سانگ نے ذکر کیا ہے ۔ اشوک کے بعد یونانیوں نے بدھ مت قبول کرلیا ۔ انہوں نے وادی گندھارا میں بہت سے اسٹوپے بنوائے ۔ مشہور کشن فرمانراو کنشک نے بھی بدھ مت قبول کرلیا تھا اس کے دارلحکومت پشاور اور متھرا تھے ۔ پشاور کا مشہور اسٹوپا کنشک نے بنایا تھا ۔ اس کے علاوہ بہت سے اسٹوپے پشاور ، کشمیر اور برصغیر کے مختلف مقامات پر بنوائے تھے ۔ اس کے بعد اس سرزمیں پر بدھ مت کو ذوال آگیا پہلے ہنوں نے ان کے وہا اور اسٹوپوں کو تباہ اور بھکشوؤں کو قتل کیا ۔ راجہ ہریش وردھن خاندان کا راجہ آخری مشہور فرمان روا بدھ مت اختیار کرلیا تھا اس سے کچھ جان پیدا ہوئی مگر اس کے بعد اس سرزمین پر سے بدھ مت فنا ہوگیا ۔ رہی سہیں کسر مسلمانوں نے پوری کردی ۔
مشہور اسٹوپوں میں کالواں اسٹوپا مانکوالیا اسٹوپہ ، دھرم راجیکا وادی گندھارا ، نالندہ , سانچی ، گیا اور مالندا کے اسٹوپے زیادہ مشہور ہیں ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔