ایک سرکاری دفتر کے بڑے بابو، ’ستارہ سینما‘کے ایک ایک پوسٹر کو بہت غور سے دیکھ رہے تھے،تقریباً ننگی تصویریں۔ ستارہ میں ’صرف بالغوں کے لیے‘ فلم چل رہی تھی۔
دسمبر کی دھندلی شام تھی۔ ٹھنڈ زیاہ نہیں تھی۔ آج سنیچر تھا اور کل دفتر کی چھٹی اس لیے بڑے بابو ٹہلتے ہوئے گھر سے نکل پڑے تھے…. سڑک پر آتی جاتی بھرے بھرے جسم کی عورتیں، جینس اور ٹی شرٹ میں ملبوس معصوم، دل کش لڑکیاں انہیں لبھارہی تھیں۔
وہ ستارہ پر کھڑے تھے، شکار کی تلاش میں۔
مہینہ، پندرہ دن میں انہیں ’شکار‘ کی ضرورت محسوس ہونے لگتی تھی۔ اب یہی ان کا محبوب مشغلہ تھا۔
پچاس پار کرچکے بڑے بابو کی بیوی کے انتقال کو کئی سال ہو چکے تھے۔ دو بیٹیاں تھیں، جو بھرا جسم اور بھاری جہیز کے ساتھ سسرال جا چکی تھیں۔ بیٹا کوئی نہیں تھا …… دفتر سے آنے کے بعد بس خالی ہی خالی۔ چھوٹے بھائی کے بچّوں میں ان کا دل نہیں لگتا تھا اور جس سے وہ دل لگانا چاہتے تھے، وہ ان کی نیت بھانپ کر لفٹ نہیں دیتی تھی۔ چھوٹے بھائی کی بیوی۔ بھائی، جو پڑوسی شہر میں ملازم تھا اور ہفتہ میں صرف ایک ہی دن گھر آتا تھا۔
سولہ، سترہ سال کا وہ لڑکاحسرت بھری نگاہوں سے ستارہ سنیما میں چل رہی فلم کے ایک ایک پوسٹر کو دیکھ رہا تھا …… بڑے بابو لڑکے کے قریب پہنچے …… ”کیا ٹائم ہوا ہوگا؟“ انہوں نے لڑکے سے پوچھا۔ لڑکا تھوڑا سمٹ گیا۔ کوئی جواب نہیں ملنے پر بڑے بابو خود ہی بولے ……”ابھی آدھا گھنٹہ ہے فلم شروع ہونے میں …… کیوں؟“
”شاید!“ لڑکے نے مختصر جواب دیا۔
”پچھلے ہفتے جو فلم چل رہی تھی اس میں، تم نے دیکھی تھی؟“ بڑے بابو نے لڑکے کی جھجھک ختم کرنی چاہی۔
”نہیں!“ لڑکے کو انجان لوگوں سے باتیں کرنے کا تجربہ نہ تھا۔
”ارے! نہیں دیکھی…… اس میں تو بہت شان دار سین تھے۔“ بڑے بابو نے اپنے تجربے سے لڑکے میں ’تپش‘ پیدا کی، اور بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا ……”کہاں رہتے ہو ……؟“
لائن پار۔“ لڑکے نے اپنی جانب سے ہوشیاری سے کام لیا کہ صرف لائن پار بتایا، کیوں کہ لائن پار ایک بڑی اور گھنی آبادی ہے۔ جس میں بہت سے محلے ہیں۔
”فلم دیکھو گے؟“
”نہیں!“ لڑکا یہ کہہ کر واپس جانے کے لیے گھوما۔
”کیوں نہیں دیکھ رہے؟ ایک صاحب بہت تعریف کر رہے تھے۔“ بڑے بابو لڑکے کے ساتھ چلنے لگے۔
”پیسے کم ہیں۔“ لڑکے نے مایوسی سے کہا۔
”کتنے ہیں؟“ بڑے بابو نے جال پھینکا۔
”کیوں؟“ لڑکا ڈرا۔
”ارے بھئی تھوڑا آگے جاکر میری ریڈی میڈ گارمنٹ شاپ ہے۔ کم پیسے ہیں تو دیے دیتا ہوں …… پھر کبھی دکان پر آکر دے جانا۔“ بڑے بابو نے جال کسا …… دکان ان کے دوست کی تھی۔”لیکن……“ لڑجا تذ بذب میں تھا۔ سوچ رہا تھا …… ”شاید مجھے اپنی دکان سے کپڑے خرید نے کے لیے پٹا رہا ہے“
”لیکن‘ ویکن چھوڑو …… ایسی گرم فلم کبھی کبھی لگتی ہے۔“
فلم، وہ بھی گرم، لڑکا پگھل گیا ……”لیکن میرے پاس تو صرف پانچ روپے ہیں،بس۔“
”کوئی بات نہیں، ٹکٹ میں لے لو ں گا۔“ بڑے بابو کے لبوں پر فاتحانہ مسکراہٹ پھیل گئی۔”شکار تو پھنسا۔“
ٹکٹ کھڑکی پر بڑے بابو نے کھڑ کی میں ہاتھ ڈالا اور ہلکی آواز میں بولے۔”دو ٹکٹ دینا۔کارنر کے۔“ کارنر سن کر بکنگ کلرک نے چشمے کے پیچھے سے بڑی غور سے دیکھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فلم چل رہی تھی۔ پردے کے علاوہ تمام ہال میں اندھیرا تھا۔ بڑے بابو کا لڑکے کے ساتھ ’کھیل‘ شروع ہوئے چند منٹ ہی ہوئے ہوں گے کہ دوسرے شکاریوں نے جال کس دیا۔ نجانے کہاں سے اور کیسے دونوں ٹکٹ چیکر’پر کٹ‘ ہو گئے۔دونوں کی ٹارچ کی روشنی ٹھیک اپنے ٹارگیٹ پر تھی۔ لڑکا اور بڑے بابو بوکھلا گئے۔ زبان پر الفاظ نہ تھے۔ صفائی دینے کا موقع نہ تھا۔
”چلو ہمارے ساتھ۔“ ایک ٹکٹ چیکر نے تحکمانہ لہجے میں کہا۔
”کیوں …… کہاں؟“ بڑے بابو ہکلائے …… جبکہ لڑکا گونگا‘ ہو چکا تھا۔
”چلتا ہے یا پولس کو بلاؤں …… چل شرافت سے۔“ دوسرے ٹکٹ چیکر نے بڑے بابو کا گریبان پکڑلیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سنیما ہا ل کے مینجر کے دفتر میں۔۔۔۔۔
”تمہیں شرم نہیں آتی بڑے میاں۔“ مینجر نے ٹہلتے ہوئے سگریٹ کا پیکٹ نکالا۔ اور کوئی وقت ہوتا تو بڑے بابو اس 40 سالہ نظر آرہے مینجر کے بڑے میاں کہنے پر تلملا جاتے، لیکن یہ موقع اپنی عمر دبانے اور سامنے والے کی عمراٹھانے کا نہیں تھا۔
”کیوں بے! ابھی سے شروع ہو گیا۔“ منیجر نے ان دونو سے نظر یں چراکرٹکٹ چیکر کو آنکھ ماری۔”پولیس کو بلاؤ۔“
”ابھی بلاتا ہوں۔“ ایک ٹکٹ چیکر چلا گیا۔
”سر! مجھے معاف کر دیجئے! میری کوئی غلطی نہیں ہے سر……“ لڑکا خوف سے کا نپتے ہوئے رونے لگا۔ اس کا چہرہ زرد پڑگیا تھا۔
”دیکھئے مینجر صاحب!“ بڑے بابو اٹک اٹک کر بول رہے تھے۔”پولیس کو کیوں بلاتے ہیں۔ آپس میں بات کرتے ہیں نا۔“ بڑے بابو نے مینجر کو اشاروں میں لالچ دیا، مینجرجس کا منتظر تھا۔ کافی دنوں کے بعد کوئی، اچھّا شکار پھنسا تھا۔
”ہاں کہئے۔۔۔کیا بات کرنا چاہتے ہیں۔“ مینجر نے طنزیہ کہا۔
”فی الحال تو مجھے ٹوالیٹ میں جانے کا موقع دیا جائے۔ پریشر بڑھ رہا ہے۔ بعد میں سکون سے بات ہوگی۔“ بڑے بابو نے جلدی جلدی کئی پہلو بدلتے ہوئے کہا۔
مینجر نے عجیب سامنہ بنایا اور ٹکٹ چیکر کو لے جانے کا اشارہ کیا۔ چیکر نے بڑے بابو کو دل ہی دل میں گالی دی۔
بڑے بابو نے بیت الخلاء کا دروازہ بند کرتے ہی کوٹ کے اندر جیب سے موبائل نکال کر آن کیا۔ جو ایسے موقعوں پر وہ مصلحتاً بند کردیا کرتے تھے۔ اپنے ایک دوست کا نمبر ملایا۔ جو ایک معمولی اخبار کا مدیر تھا اور ایک ’چھُٹ بھئے نیتا‘ کا ساتھی۔ یہ مقامی نیتا نگر نگم کا ممبر اور صوبے میں جس پارٹی کا اقتدار تھا اسی پارٹی کا شہر صدر بھی تھا۔
ٹکٹ چیکر لڑکے کو آپریٹر روم لے گئے تھے۔ اب وہاں دو فلمیں چل رہی تھیں۔ مردہ تصویر والی،پردے پر۔ دوسری زندہ انسانوں کی۔ لڑکے کے حلق میں کانٹے چبھنے لگے تھے۔ وہ ادھ مرا ہو چکاتھا۔
مینجر کے روم میں، مینجر اور بڑے بابو کے درمیان سودے بازی چل رہی تھی۔ اچانک دوادھیڑ عمر شخص دفتر میں داخل ہوئے۔
”مینجر کہاں ہے؟“ پینٹ شرٹ میں ملبوس لمبے چوڑے شخص نے پوچھا۔
”جی کہییے۔ کیا کام ہے؟“ مینجر سختی سے بولا۔ کباب میں ہڈی اسے بہت نا گوار گزری۔
”میں ’ویکلی معصوم آواز‘ کا ایڈیٹر ہوں۔ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ آپ کے سنیما ہال میں کسی معصوم نا بالغ کے ساتھ یون اتُپیڑن ہورہا ہے۔“ حالاں کہ منیجر نے ’معصوم آواز‘ کا نام پہلے کبھی نہیں سنا تھا۔ پھر بھی وہ بوکھلا کر کھڑا ہو گیا۔”نو سر…… نیور…… ایوری تھنگ ازاو کے ہیئر۔ آپ کو غلط خبر ملی ہے۔“
”پھر بھی ہم آپریٹر روم جانا چاہیں گے۔ دیکھیں،آپ کون سی فلم دکھا رہے ہیں“ نو وارد دوسرے شخص نے کہا، جو اپنے لباس وانداز سے کوئی مقامی نیتا معلوم ہوتا تھا۔ اس نے مینجر سے نظریں بچاکر بڑے بابو کو آنکھ ماری۔ بڑے بابو نے سوچا، دوستوں نے ٹھیک وقت پر’ اینٹری ماری‘ ہے۔
”آپ کا آئی کارڈ؟“ مینجر تاڑ گیا کہ ڈرامہ کیا ہے۔
؛؛ کیوں؟۔“ مدیر نے کارڈ دکھاکر جیب میں رکھ لیا۔
دیکھیے، بات یہ ہے کہ……“ مینجر ہکلایا بازی پلٹ چکی تھی۔۔۔”مالک کو فون کرتا ہوں۔ مجھے آپریٹرروم کسی کو ایسے لے جانے کی اجازت نہیں۔“
منیجرنے مالک کو فون ملایا۔ اسے مایوسی ہاتھ لگی۔ مالک شہر سے باہر تھا۔ مینجر نے خود کو گھِرتا ہو محسوس کیا۔ حالاں کہ سنیما ہال کے تمام لوگ اس کے ساتھ تھے۔منیجر کے کیبن میں کینٹین کا مالک، ٹکٹ چیکر، گیٹ کیپر، بکنگ کلرک اور چائے بسکٹ بیچنے والے جمع ہو چکے تھے۔ شو ختم ہوگیا تھا۔ مینجر کے کہنے پر سنیما ہال کے صدر دوازے کو بند کردیا گیا تھا۔
منیجر نے جو رقم بڑے بابو سے معاملے کورفع کرنے کے لیے مانگی تھی۔ اب بڑے بابو کے دوست الٹے مینجر سے رقم کا مطالبہ کر رہے تھے۔ ورنہ”معصوم آواز“ میں بال یون اتپیڑن کے تحت خبر چھپے گی تو ہنگامہ ہو جائے گا۔
مینجر اس بات سے بے خبر کہ لڑکا آپریٹر روم میں بے ہوش ہو چکا ہے۔ مخالفین کو رعب میں لینے کے لیے،تھا نے فون ملادیا۔”میں ستارہ سنیما کا مینجر بول رہا ہوں۔ یہاں کچھ غنڈہ پرورتی کے لوگ آگئے ہیں اور بہت گندہ پن دکھا رہے ہیں۔“
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تھانے میں۔
تھانے دار نے دیوان جی کو بلاکر ہدایت دی۔”ستارہ جاؤ، دیکھو کیا لفڑہ ہے۔ کوشش کرنا ایف۔آئی۔آر درج نہ ہواور شکار سے اُگائی اچھّی ہو جائے۔“
دیوان جی ایک سپاہی کے ہم راہ ستارہ سنیما پہنچے۔
دو گروپ الجھے ہوئے تھے۔ ایک طرف بڑے بابو اور ان کے دوست۔ دوسری طرف مینجر اوراسٹاف۔ بڑے بابو کا کہنا تھا۔”میں تو اکیلا فلم دیکھ رہا تھا۔ یہ ٹکٹ چیکر بے وجہ مجھے یہاں لے آیا۔ جانے کون لڑکا ہے۔“ بڑے بابو، دو ٹکٹ میں سے ایک ٹکٹ پھینک چکے تھے۔ کہیں تلاشی میں دو ٹکٹ نکلے تو کیا جواب دیں گے۔ جبکہ مینجر کا کہنا تھا کہ“ یہ لڑکے کے ساتھ ……“
اس سے پہلے کہ ہاتھا ہائی ہو۔ دیوان جی نے ایک ماہر شکاری کی طرح دونوں گروپ کو الگ الگ کردیا۔ ایک مینجر کے کمرے میں دوسرا کمرے سے باہر۔ دیوان جی نے دونوں طرف کی بات سنی، اور سوچا، چلو دونوں پارٹیوں سے کام بنے گا۔
پولیس اسٹیشن سے یہ بات اس چھُوٹے سے شہر کے سب سے بڑے اخبار اور مقامی ٹی وی چینل تک پہنچ چکی تھی۔ دونوں کے نمائندے ستارہ میں موجود تھے لیکن دیوان جی کے اشارے پر اخباری رپورٹر نے قلم جیب میں ہی رہنے دیا تھا۔جب کہ چینل کے کیمرہ مین کا کیمرہ بند تھا۔
دیوان جی سپاہی کے ساتھ آپریٹر روم میں داخل ہوئے۔ آپریٹر اگلے شو کی تیاری کر رہا تھا۔ لڑکا نیم بے ہوشی کی حالت میں ایک طرف کو پڑا ہوا تھا۔ لڑکے کو پانی پلاکر اس سے پتہ معلوم کر کے، دیوان جی نے سپاہی کو لڑکے کے گھر بھیج دیا۔ لڑکے کے گھروالوں کو بلانے کے لیے۔ لڑکے کے چہرے پر خوف اور دہشت تھی۔ وہ رورو کر کہہ رہا تھا۔”مجھے جانے دو، مجھے جانے دو۔“
دیوان جی بڑے بابو والے گروپ کے پاس آئے۔”دیکھو، لڑکے کی حالت بہت خراب ہے۔“
”لیکن دیوان جی ……“ مدیر نے رعب دکھانا چاہا۔
”ہاں ہاں مجھے معلوم ہے۔ بہت بڑے اخبار والے ہو نا۔ ذرا میری بات سنو۔“ دیوان جی نے بیچ میں ٹوکتے ہوئے طنز یہ لہجے میں کہا۔ بڑے بابو کے نیتا دوست نے بھی اپنی نیتا گیری دکھانا چاہی، لیکن دیوان جی کے تیور دیکھ کر اپنے الفاظ تھوک کے ساتھ نکل گیا۔دیوان جی نے اپنی بات پوری کی۔”لڑکے کی حالت خراب ہے۔ مینجر ایف۔ آئی۔آر۔ درج کرانے کو کہہ رہا ہے۔ جس کا مطلب ہے مقدمے بازی، خرچہ اور سب سے بڑی بات بدنامی۔ کیوں بڑے بابو۔“ دیوان جی نے بڑے بابو کے سرکاری نوکری میں ہونے کا فائدہ اٹھایا۔ ”اس لیے میرا کہنا ہے کہ معاملے کو یہیں ختم کر دو، لڑکے کی دوا دارو کا انتطام کرکے۔“ شکار کو کہاں دبوچنا ہے، شکاری بخوبی جانتا تھا۔ بڑے بابو نے مدیر کی شکل دیکھی، مدیر نے نیتاکی شکل دیکھی۔تینوں خاموش!
لڑکے کا باپ آچکا تھا۔سپاہی اسے سمجھا رہا تھا۔”یہ ابھی نابالغ ہے۔ بچّوں کی جیل جائے گا۔ ایسے کیسوں میں وہاں کیاکیا ”سہنا“ پڑتا ہے۔ معلوم ہے تمہیں۔۔۔۔۔ سمجھ رہے ہو نا۔“
باپ نے سمجھتے ہوئے ادھ مرے بیٹے کے تھپّڑ رسید کیا۔”…… یہ گل کھلایا ہے۔“ لڑکے کے باپ کی چھوٹی سی جنرل اسٹور تھی۔ گڑگڑاتے ہوئے بولا۔”حضور، اسے معاف کر دیجئے۔ اس کا کوئی قصور نہیں ہوگا۔ پھر بھی……“
”ارے بھئی میرا کیا ہے۔ میں تو معمولی سپاہی ہوں۔ معاف کرنے والے تو دیوان جی ہیں۔“ سپاہی لڑکے کے باپ کے کان کے قریب پھسپھسایا۔ ”تھوڑا لالچی ہے دیوان۔“ لڑکے کے باپ کو اندازہ تھا کہ پیسوں کی ضرورت پڑسکتی ہے۔ اس نے خاموشی اور چپکے سے، اپنی جیب کے پیسے سپاہی کی جیب میں ڈال دیے۔
ایک طرف کھڑے اخباری رپورٹر اور مقامی چینل کا کیمرہ مین آپس میں اندازہ لگا رہے تھے کہ کل’شکار‘ میں ان دونوں کا کتنے فی صد حصّہ ہوگا؟
اب دیوان جی مینجر کے دفتر میں تھے۔
”دیکھ بھئی مینجر۔ معاملہ سنگین روپ اختیار کر چکا ہے۔ لڑکے کا باپ ایف۔آئی۔آر۔ درج کرانے کو کہہ رہا ہے۔ جس کا مطلب ہے مقدمہ بازی، نوٹوں کا خرچ، سنیما ہال پر تالا اور تیرے مالک کو پتہ چلے گا تو تیری نوکری گئی سمجھ۔ سمجھا کہ نہیں۔“
”لیکن دیوان جی، میری غلطی۔“ مینجر نے صفائی دینی چاہی۔
”ابے غلطی گئی تیل لینے…… لونڈے کی حالت دیکھ حالت۔ابے اس کو میں نے جان بوجھ کر اسپتال نہیں بھیجا ہے۔ ورنہ کل کے اخبار میں تماشہ بن جائے گا تو۔ باہر چینل اور اخبار والوں کو میں نے ہی روک رکھا ہے۔ ورنہ اب تک۔۔۔۔۔ اور سن دلت کا لونڈا ہے وہ۔ راج نیتی شروع ہو جائے گی راج نیتی۔ اس لیے لونڈے کے ساتھ جن جن نے………… تیرا اسٹاف اور تو سب پیسے اکٹھّا کر۔ لڑکے کے باپ کو علاج کے لیے دینے ہیں۔ اور سُن!۔۔۔۔۔۔۔۔سالے! ان سوشل ورکر اور ِاسویں سیوی سماجک سنستھاؤں کو معلوم پڑگیا نا۔ تو بس، تیری۔۔۔۔۔……“
مقامی چینل کے اس کیمرہ مین نے، جس نے ابھی تک اپنا کیمرہ نہیں کھولا تھا۔ اپنا موبائل کھول کر دہلی کے ایک بڑے اور مشہور نیوز چینل کے نیوز رپورٹر کو فون ملادیا جو اس کا گُرو تھا اور اپنے شہر کی سنسنی خیز خبروں کی خبر دے کر گُرود کشنا ادا کیا کرتا تھا۔
”سر! یہاں زبردست اور ایک دم گرما گرم، تازہ شکار ہے۔ اور سر ابھی تک کسی بھی چینل کو اس کی خبر نہیں ہوئی ہے۔“ کیمرہ مین نے مختصراََ ساری بات بتادی۔ جسے سن کر ادھر سے آواز آئی۔”کیا اس کانڈ میں کوئی بڑا نام پھنسا ہے؟“
”نہیں سر!“ کیمرہ مین نے جواب دیا۔
”کیا کوئی مشہور نیتا انولو ہے؟“
”نو سر بٹ……“
”کیا لڑکا مر گیا؟“
”نو سر!……“
”تو کیا خاک ہے۔ بے کار۔ ایک دم بوگس۔۔۔۔۔ اِسٹوری میں دم نہیں ہے۔“
اور جھنجھلا کر ادھر سے فون بند کر دیا گیا۔