سٹاک ہوم سنڈروم
پچھلے دنوں ایک پڑھا لکھا جاھل طالبان کی حمایت میں اس برٹش جرنلسٹ عورت کی مثال دے رھا تھا کہ طالبان اتنے نرم دل ھیں کہ ان کے اخلاق کو دیکھ کر وہ عورت مسلمان ھو گئی تھی جب وہ ان کے چنگل سے نکل کر واپس انگلینڈ گئی ۔واقعی اس واقعہ سے عام بندہ بھی سوچتا ھے کہ ایسا کیوں ھوا وہ تو آزاد ھو گئی تھی پھر بھی جنہوں نے اسے سالوں قید کیے رکھا ان کے اخلاق کو دیکھ کر مسلمان ھو گئی؟
اب آگے چلتے ہیں
سویڈن کے دارلحکومت سٹاک ہوم میں اگست 1973 میں چند ڈاکو ایک بینک میں گھستے ہیں اور عملے کو یرغمال بنا لیتے ہیں چھ روز بعد جب یہ ڈرامہ ختم ھوا، سارے ڈاکو پولیس نے پکڑ لیے اور عدالت میں کیس چل پڑا مگر اغواہ ھونے والوں نے ڈاکوؤں کے خلاف نہ صرف گواہی دینے سے انکار کر دیا بلکہ ان کی رہائی کے لئے ایک کمپین بھی چلا دی اور چندے اکھٹے کرنے شروع کر دیے اور بات یہاں تک پہنچ گئی کہ ان میں سے ایک لڑکی نے جیل میں بند ڈاکو سے منگنی بھی کر ڈالی ۔
اغواہ ھونے والوں کے اس رویے نے پروفیشنل ماھر نفسیات کو چکرا کے رکھ دیا، وہ حیران رہ گئے، ان کے پیروں تلے زمین ھی نکل گئی کہ یہ رویہ کہاں اور کیسے بن پڑا۔
پوری جانچ پڑتال کے بعد ماھر نفسیات نے اس رویے کو سٹاک ہوم سنڈروم کی اصطلاح عطا کیا ۔
سٹاک ہوم سنڈروم کے شکار لوگ جب خود کو اغواہ کاروں کے چنگل سے آزاد کرانے کی امید کھو بیٹھتے ہیں تو ان میں سے چند ایک کا جسمانی اور زہنی ازیت سے بچانے والا نفسیاتی دفاعی نظام لاشعوری طور پر اغواہ کاروں کا حامی ھونے لگتا ھے اور اس طرح زیادتی کا شکار ھونے والا زیادتی کرنے والے کا وکیل بن کے کھڑا ھو جاتا ھے
حالات و واقعات کا اگر جایزه لگایا جائے تو ھمارا معاشرہ بھی اسی سٹاک ہوم سنڈروم نامی نفسیاتی بیماری کا شکار ھو چکا ھے آج جو لوگ ہمیں تباہ و برباد کرنے پہ تلے ہوئے ہیں ہمارے ھزاروں لوگوں کو بے دردی سے قتل کر چکے ہیں
وہی ھمارے ھیرو بنے ہوئے ہیں آج ھم ان ہی کا دفاع کرتے ہیں کبھی مزہب کے نام پر اور کبھی بیرونی سازش کے نام پر ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“