مشہور نوبل انعام یافتہ ماہر طبیعات کا بدنامِ زمانہ نظریہ آج بھی سائنسدانوں کو چَکرا دیتا ہے اور خدا کو ماننے والوں کو تکلیف میں مبتلا کرتا ہے۔
سائینٹفک امیَریکن میگزین
مقالہ نگار: ڈیَن فاک 27 جولائی 2021
مترجم: بُش احمد آسٹریلیا
اہم نوٹ: مترجم کا مقالے میں مندرجہ آرأ سے متفق ہونا ضروری نہیں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
پچھلے ہفتے سٹیوَن وائن بَرگ (Steven Weinberg) اٹھاسی(88) سال کی عُمر میں انتقال کر گئے۔ وہ نہ صرف نوبل انعام یافتہ سائنس دان تھے بلکہ پچھلی نصف صدی کے مشہور فصیح و بلیغ ادیبوں میں سے ایک تھے۔ اُنکا مشہور (یا شاید بدنام) بے مقصد کائنات کا نظریہ اُن کی مقبولِ عام کتاب (The First Three Minutes) ’’پہلے تین مِنٹ‘‘ کے آخری صفحے سے پچھلے صفحے پر پڑھا جا سکتا ہے۔ یہ کتاب 1977میں شائع ہوئی تھی۔ تیرہ عشاریہ آٹھ ارب (13.8Billion) سال پہلے بِگ بیَنگ (Big Bang) کے دھماکے سے کائنات کے معرضِ وجود میں آنے کی کہانی اور آئندہ ان گنت اربوں سال مستقبل میں کائنات کے تبدیل ہونے اور بالآخر ختم ہونے کے بارے میں خیال آرائی کرتے ہوئے وہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ کائنات کا وجود جیسا اور جو بھی ہے وہ ہرگز ہم انسانوں کے واسطے نہیں ہے۔ ’’جتنا زیادہ ہم کائنات کو سمجھتے جاتے ہیں اُتنا ہی یہ بے مقصد اور بے معنی لگتی ہے!‘‘
ہزاروں سالوں سے انسان نے وائین برگ کے اِس نظریئے کے بالکل برعکس اور یکسر مختلف سمجھا ہے، فرض کیا ہے تسلیم کیا ہے۔ ہمارے آباؤاجداد اپنے اردگِرد کی دنیا پر نظر دوڑاتے تھے، انسانوں، جانوروں، پہاڑوں، سمندروں، سورج، چاند اور ستاروں میں کارفرما مافوق البشر مقدس خدائی دیکھتے تھے۔ مثلاً پرانے عہد نامہ میں حضرت داؤد کی زبور کہتی ہے، ’’آسمان اللہ کے جلال کا اعلان کرتے ہیں، آسمانی گنبد اُس کی دستی صناعی کی مہارت کا مظہر ہے‘‘۔
قرآن اعلان کرتا ہے، ’’بَدِيْعُ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ‘‘ ’’وہ ( اللہ) آسمانوں اور زمین کو ازسرِنو پیدا کرنے والا (مؤجد) ہے ۔‘‘ (سورۃ الانعام:101)۔
آئزِک نیوٹن نے بھی کائنات کو مقصد اور معانی سے بھرپُور دیکھا۔ 1687 میں شائع شُدہ اپنی مشہور کتاب پرنسیپیا (Philosophiæ Naturalis Principia Mathematica) میں اُس نے لکھا، ’’سُورج، سیّاروں اور دُنبالہ دار سیّاروں کا اتنا بہترین اور خوبصورت نظام صرف ایک ذہین اور طاقتور فوق البشر ہستی کی ہی عملداری اور منصوبہ بندی سے معرضِ وجود میں آ سکتا ہے۔‘‘
اِن تین سو سالوں میں سائنس ہائی جمپ اور لانگ جمپ چھلانگیں لگا کر ترقی کرتی گئی اور سائنسدان خدا کے موضوع پر خیال آرائی کم کرتے گئے۔ کئی مُفکروں نے تجویز کیا کہ کائنات ایک عظیم الشان گھڑی کی مانند چلتی ہے۔ آغاز میں تو شاید ایک خالق کی ضرورت تھی جِس نے اِس میں چابی بھر دی لیکن اب یہ ضرور خود سے ہی چل رہی ہے۔ آئن سٹائن جو اکثر خدا کے بارے میں استعارے اور اشارے استعمال کرتا تھا، اُس نے ایک مختلف مؤقف اِختیار کیا۔اُس نے خُدا کی ایک علیحدہ اپنی ذات ماننے کی بجائے کائنات اور فِطرت کے وحدت الوجود کی خدائی کا تصور کیا۔
بیسویں صدی کے دوسرے نِصف میں کئی لوگوں نے اِس قِسم کے کمتر خداؤں کو بھی فالتو سمجھا۔ سٹیفن ہاکنگ (Stephen Hawking) نے اپنی 1988 میں شائع کتاب (A Short History of Time) ’’وقت کی ایک مختصر تاریخ‘‘ میں اِس امکان پر خیال آرائی کی کہ کائنات کا کوئی باضابطہ آغاز نہیں تھا۔ اُسکی متنازع ’’بغیر باؤنڈری‘‘ تجویز جو اُس نے جِم ہارٹَل (Jim Hartle) کے ساتھ مِل کر 1980 میں پیش کی تھی یہ کہتی ہے کہ ’’ممکن ہے کہ کائنات کے آغاز کے لمحات میں وقت (Time) خلأ (Space) بن گیا ہو! یعنی وقت اگر صِفر یا زیرو نہیں تھا تو تخلیق کا لمحہ یعنی کُن فیکون بھی نہیں تھا اِسلئے خدا کے لئے بھی کچھ کرنے کے لئے نہیں تھا‘‘۔ کوئی عجب نہیں کہ (Evolution) ارتقأ کی تھیوری پڑھانے سے ہچکچانے والے اُستاد (big bang cosmology) بِگ بیَنگ کاسمولوجی پڑھانے سے بھی گریز کرتے ہیں!!
ہاکنگ کی مادیت پرست مُنکر روح فلاسفی کے ساتھ وائین برگ اور کئی اور نامور ماہرین طبیعات نے بھی اتفاق کیا ہے جو یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ کائنات محض اتفاق اور قدرتی قانون کے اِمتزاج سے معرضِ وجود میں آئی۔ جہاں ولیم شیکسپئیر کے ڈرامے میں پرنس ہیملٹ مختصر ترین واقعے میں بھی ایک مقصد دیکھتا ہے، ’’ایک چِڑیا کے گِرنے میں بھی مخصوص مشیّتِ ایزدی ہے!‘‘ آجکل کے بیشتر سائنسدان صرف غیر ذاتی یعنی انسانوں کی پسند ناپسند سے لاتعلق لاپروا طبیعات کے اُصول دیکھتے ہیں۔
جب میَں نے 2009 میں وائین برگ کاانٹرویو کیا تو اُس نے اس لمبے تاریک سائے کا ذکر کیا جو اُسکی کتاب کے ایک فقرے میں ’’بے مقصد‘‘ کائنات کے لفظ کی وجہ سے اُس کی زندگی پر چھا گیا تھا۔ ’’مجھے بہت منفی رَدِّ عمل کا سامنا کرنا پڑا ہے‘‘ اُس نے کہا، ’’بعض دفعہ یہ رَدِّ عمل اِس صورت میں ظاہر ہوتا ہے، ’’اچھا؟ تو تمہاری کیا توقع تھی؟ کہ کائنات کاکوئی مقصد ہونا چاہیئے؟‘‘ کچھ لوگ کہتے ہیں، ’’یہ امر سائنس کے دائرہ عمل سے باہر ہے کہ سائنس فیصلہ کرے کہ کائنات کا کوئی مقصد ہے یا نہیں!‘‘۔ اِس بات سے میں متفق ہوں۔ میرا بھی یہی خیال ہے کہ سائنس یہ فیصلہ نہیں کر سکتی کہ کائنات کا کوئی مقصد نہیں ہے۔ لیکن سائنس یہ گواہی دے سکتی ہے کہ ایسے کِسی مقصد کو ڈھونڈنے میں اسے ناکامی ہوئی ہے۔‘‘
وائین برگ نے خاص طور پر (natural theology) فِطری الٰہیات کی فلاسفی پر سخت تنقید کی۔ مثلاً مندرجہ بالا زبور اور قرآن کی آیتوں سے یہ استدلال لیا جائے کہ دنیائے فطرت کے مطالعہ اور عقل کے استعمال سے خدا کے بارے میں سیکھا جا سکتا ہے۔ ’’فِطری دینیات اب ناکارہ ہو چُکی ہے۔ ہم فِطرت میں خدا کا ہاتھ یا عمل دخل نہیں دیکھتے۔ اِس مشاہدے سے آپ کیا نتیجہ نکالتے ہیں، کیا سبق سیکھتے ہیں وہ آپ پر منحصر ہے!‘‘
اگرچہ وائین برگ نے کبھی اپنے اِلحاد کو چھپانے کی کوشش نہیں کی، شاید صِرف (Richard Dawkins) رِچرڈ ڈاکنگز اور (Sam Harris) سام ہیَرِس ہی اِس موضوع پر زیادہ بولے ہیں، وائین برگ کی ہمدردی اُن لوگوں کے ساتھ تھی جو ذاتی، روحانی، شہ رَگ سے بھی قریبی تعلق رکھنے والے خدا کی خواہش رکھتے ہیں۔
’’میرا خیال ہے کہ ایسی دُنیا جِس پر ایک ایسے خالق کی حکومت ہو جو انسانوں کی پروا کرتا ہو، کہیں زیادہ پُرکشش اور ترغیب انگیز ہے اُس دنیا کی نسبت جو قدرت کے غیر ذاتی لاتعلق قوانین پر چلتی ہے جِن کو صرف ریاضی کے اُصولوں سے ہی سمجھا جا سکتا ہے۔قوانین جِن کے اندر کوئی ایسا اشارہ تک نہیں کہ اُن کا انسانی زندگی سے کسی بھی قسم کا مخصوص تعلق ہے‘‘، وائین برگ نے مجھے بتایا۔ سائنس کے اُصول اپنانے کا مطلب زندگی کی مشکلات کا سامنا کرنا ہوتا ہےاور موت کا، اِس تسلّی کے بغیر۔
’’ہم نے مَر جانا ہے۔ ہمارے پیاروں نے مَر جانا ہے۔ اور یہ یقین کرنا یا رکھنا بہت دِلکش ہے کہ موت انجام نہیں ہے، خاتمہ نہیں ہے کہ ہم قبر کے بعد بھی زندہ رہیں گے اور اپنے پیاروں کو دوبارہ مِلیں گے۔ خدا کے بغیر زندہ رہنا آسان نہیں ہے اور اُن معنوں میں مذہب کی کشش میَں محسوس کرتا ہوں۔
اور یہ بھی صحیح ہے کہ ہم مذہب کے اِس احسان کو مانیں کہ اس نے ہمیں بڑی بڑی عالیشان عبادت گاہیں، ماتمی مجلسیں، المیہ موسیقی کی دُھنیں اور عُمدہ شاعری عطا کی ہے۔ اور یہ سب کچھ ہمیں ترک کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم ان سے بھی لُطف اندوز ہو سکتے ہیں اور میں بھی ہوتا ہوں۔ لیکن میرا خیال ہے کہ میَں اِن چیزوں کو اور بھی انجوائے کر سکتا تھا اگر میں یہ سمجھتا کہ اِن میں واقعی مزید کچھ ہے جو میَں نہیں مانتا۔ بس یہ سب خوبصورت شاعری ہے، خوبصورت عمارتیں ہیں اور خوبصورت موسیقی لیکن یہ کِسی فوق البشر حقیقت کا پرتو نہیں۔‘‘
’’پہلے تین منٹ‘‘ کی فلاسفی جو وائین برگ نے اپنی کتاب میں پیش کی تھی اب اس کی بازگشت کئی مقبولِ عام طبیعات کی کتابوں میں سُنی جا سکتی ہے۔ماہر طبیعات (Sean Carroll) شان کیَرول 2016 میں شائع اپنی کتاب (The Big Picture) ‘‘دی بِگ پِکچَر‘‘ میں خیر و شر سے لاتعلق کائنات میں خوفزدہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں سمجھتا۔
’’ہمارا کام‘‘ وہ لکھتا ہے، ’’سمجھوتہ کرنا ہے ایک ایسی کائنات کے ساتھ زندگی گزارنے کا جو ہماری پروا نہیں کرتی۔ ہمیں اِس امر میں فخر کرنا چاہیئے کہ چاہے کچھ بھی ہو جیسا بھی ہو، ہم تو پروا کرتے ہیں نا!‘‘۔ سٹرِنگ (String) تھیوری کا سائنسدان (Brian Greene) برائن گرین بھی یہی کہتا ہے کہ آخر تک سب فزکس ہی فزکس نظر آتی ہے۔ 2020 میں شائع ہوئی اپنی کتاب ’’وقت کے اختتام تک‘‘ (To the End of Time) وہ لکھتا ہے، ’’ذرّات (Particles) اور فیلڈز (Fields)۔ طبعی قوانین اور آغاز کی شرائط۔ حقیقت کی گہرائی میں جتنا ہم ڈوبتے جاتے ہیں ہمیں کسی اور چیز کا ثبوت نہیں ملتا۔‘‘
جہان تک معانی، مفہوم یا مقصد کی بات ہے تو برائن گرین وائین برگ کے مؤقف سے متفق ہے۔ ’’اربوں سال سورج کے چمکنے کی مُدت کے ایک قلیل سے وقفے میں ہمیں ایک عظیم الشان کام سونپا گیا ہے کہ ہم خود اپنا مقصد تلاش کریں۔‘‘
2020 میں شائع شدہ کتاب’’ہر چیز کا خاتمہ‘‘ (The End of Everything) میں ماہر سماوی طبیعات (Astrophysicist) کیٹی میَک (Katie Mack) بہت سے ماہرین فلکیات (Astronomers) اور ماہرین طبیعات (Physicists) کی آرأ کا ذکر کرتی ہیں جو کسی نہ کسی زاوئیے سے وائین برگ۔کیَرول۔گرین کا مشترکہ مؤقف دہراتے ہیں۔ کائنات بذاتِ خود کسی مقصد یا معانی کو ساتھ لئے معرضِ وجود میں نہیں آتی ہے بلکہ ہمیں اپنا مقصد خود تلاش کرنا پڑتا ہے۔ اسی کتاب کے آخری سے پچھلے صفحے پر، صاف ظاہر ہے یہیں ایسی چیزیں لکھی جاتی ہیں، کیٹی میَک خیال آرائی کرتی ہے۔’’ہمارے ہونے کا یہ عظیم الشان تجربہ۔ یہ ایک سفر ہے۔ میَں اپنے آپ سے بار بار کہتی ہوں، یہ ایک سفر ہے!‘‘
وائین برگ کے مطابق سائنس اور مذہب کے پاس ایک دوسرے کو کہنے کے لئے کوئی بھی تعمیری مثبت مواد نہیں ہے۔ اس کے اکثر ہمعصر اس مؤقف سے متفق ہیں لیکن سب نہیں۔ لیکن سائنس کی تاریخ مختلف رستہ بھی اِختیار کر سکتی تھی۔ ہم خیالی پلاؤ پکا سکتے ہیں۔ نسل در نسل سائنسدان سب نیوٹن کے ساتھ کندھے سے کندھا ملائے کھڑے، فطرت کا مشاہدہ اور تحقیق کرتے اِس یقین کے ساتھ کہ ایسا کرنے سے وہ خدا کے ذہن کو سمجھ جائیں گے۔ یقیناً آج بھی وائین برگ کے ساتھ نوبل پرائز حاصل کرنے والے پروفیسر عبدالسلام جیسے کٹّر خدا پرست سائنسدان ہونگے۔ ویَٹی کَن (Vatican) کے ماہر فلکیات گائے کونسول میَگنو (Guy Consolmagno) کی بھی مثال دی جا سکتی ہے۔
لیکن ایسے سائنسدان اقلیت میں ہیں۔ جُوں جُوں سائنس اور مذہب نے علیحدہ رستہ اِختیار کرنا شروع کیا اور اِس رَوِش کی رفتار ڈاروِن (Darwin) کے ارتقأ کے نظام پر کام کرنے سے مزید تیز ہونی شروع ہو گئی، سائنس مذہب سے لاتعلق یعنی سیکولر ہو گئی۔ مؤرخ جان رابرٹس (Jon Roberts) لکھتا ہے، ’’سائنیٹفک گفتگو سے خدا کا ذِکر غائب ہو جانا ماڈرن سائنس کی نمایاں خصوصیت ہے۔‘‘ وائین برگ نے اِس تعریف سے اتفاق کیا ہوگا۔ جیسا کہ اُس نے 1999 میں اپنے سامعین کو بتایا، ’’سائنس کی سب سے بڑی کامیابیوں میں سے ایک کامیابی یہ ہے کہ اِس نے ذہین لوگوں کا مذہبی ہونا ناممکن تو نہیں کیا لیکن کم از کم اِتنا تو ممکن کر دیا ہے کہ وہ غیر مذہبی ہو سکتے ہیں۔ ہمیں اِس کامیابی سے پِسپا نہیں ہونا چاہیئے۔‘‘
“