پال جابز (جنھوں نے اسٹیو جابز کو گود لیا تھا) امریکی کوسٹ گارڈ میں کام کرتے تھے۔ یہ دوسری جنگِ عظیم کے بعد کا زمانہ تھا جب اُن کے جہاز کو ڈی کمیشنڈ کیا جانا تھا۔ اُن کا جہاز سان فرانسسکو کے ساحل پر لنگر انداز ہوا تھا۔ اُنھوں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ شرط لگائی تھی کہ وہ دو ہفتوں کے اندر کسی لڑکی کو خود سے شادی کرنے کے لئے راضی کرسکتے ہیں۔ وہ ایک انجن مکینک تھے۔ اُن کا قد چھ فٹ تھا، اُن کی شکل کسی قدر جیمس ڈین سے ملتی تھی۔لیکن یہ اُن کی شکل نہیں تھی جس کی وجہ سے کلارا ہیگوپین (Clara Hagopian)، جو ایک آرمینیائی مہاجر کی بیٹی تھیں، اُن کی طرف متوجّہ ہوئیں تھیں بلکہ اس کا سبب اُن کے پاس گاڑی کا ہونا تھا۔ اپنی پہلی ملاقات کے دس دن بعد اُن کی منگنی ہوگئی۔ اور یوں پال اپنے دوستوں کے ساتھ لگائی جانے والی شرط جیت گئے۔ اُن کی شادی خوشگوار ثابت ہوئی اور وہ لوگ زندگی بھر ساتھ رہے اور چالیس سال بعد موت نے اُن کو جدا کیا۔
پال رینہولڈ جابز نے وسکونسن کے ایک قصبے جرمن ٹاؤن میں پرورش پائی تھی۔ باوجود اس کے کہ اُن کے والد کو شراب کی عادت تھی اور وہ تشدّد بھی کرتے تھے پال نے سلجھی ہوئی اور پُرسکون طبیعت پائی تھی۔ اُنھوں نے ہائی اسکول کے بعد پڑھائی کو خیرآباد کہ دیا تھا اور مختلف جگہ بطور مکینک کے کام کیا یہاں تک کہ اُنّیس سال کی عمر میں اُن کو کوسٹ گارڈ میں نوکری مل گئی باوجود اس کے کہ وہ تیرنا نہیں جانتے تھے۔ وہاں اُن کو USS General M. c. Leigh’s پر تعینات کیا گیا جہاں اُنھوں نے دوسری جنگِ عظیم میں عملے کی فراہمی کا کام کیا۔ اُنھوں نے وہاں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا لیکن وہ سی مین کے عہدے سے آگے نا جا سکے۔ کلارا نیو جرسی میں پیدا ہوئیں جہاں اُن کے والدین آرمینیا سے ترکوں سے بچ بچا کے آئے تھے جہاں سے وہ سانفرانسسکو کے شہر مشن ڈسٹرکٹ منتقل ہوگئے تھے۔ کلارا کا ایک راز تھا جو وہ کسی کو نہیں بتاتی تھی۔ اور وہ یہ تھا کہ اُن کی پہلی شادی ہوئی تھی لیکن اُن کا شوہر جنگ میں مارا گیا تھا۔ تو جب کلارا پال جابز سے ملیں تو وہ ایک نئی زندگی شروع کرنا چاہتی تھیں۔
پال اور کلارا اُن بہت سے لوگوں کی طرح تھے جنھوں نے جنگ کی صورتحال کا سامنا کیا تھا اور اب وہ کہیں سیٹ ہوکر ایک پُرسکون زندگی گُزارنا چاہتے تھے جو ہنگاموں سے دور ہو۔ اُن کے پاس قلیل رقم تھی اس لئے وہ کُچھ سال کے لئے وسکونسن منتقل ہوگئے اور پال کے والدین کے ساتھ رہائش اختیار کی اور پھر انڈیانا چلے گئے جہاں پال کو ایک کمپنی انٹرنیشنل ہارویسٹر میں مشینسٹ کے طور پر نوکری مل گئی۔ پال کو پُرانی گاڑیوں کا شوق تھا اور وہ اپنے فارغ اوقات میں پرانی گاڑیوں کو خرید کر اُن کی مرمّت کرکے اُن کو بیچ کر اضافی پیسے کما لیتے تھے۔ آخرِکار پال نے اپنی نوکری کو چھوڑ کر کل وقتی طور پر پرانی گاڑیوں کی خرید و فروخت کا کام شروع کردیا۔
کلارا کو البتہ سان فرانسسکو سے عشق تھا اور 1952 میں اُنھوں نے پال کو سان فرانسسکو واپس چلنے کے لئے راضی کر لیا۔ اُنھوں نے سانفرانسسکو کے سن سیٹ ڈسٹرکٹ میں گولڈن گیٹ پارک کے جنوب میں ایک اپارٹمنٹ حاصل کیا اور پال کو ایک فائنانس کمپنی میں “ریپو مین” کی نوکری مل گئی جہاں اُن کا کام نادہندگان کی گاڑیوں کی چابیاں واپس حاصل کرنا تھا۔ ساتھ میں اُنھوں نے پُرانی گاڑیوں کی خرید و فروخت کا کام جاری رکھا اور اس سے اُن کی اچھی گُزر بسر ہونے لگی۔
لیکن اُن کی زندگی میں کمی تھی اور وہ تھی اولاد کی۔ کلارا کچھ اس طرح حاملہ ہوئیں کہ اُس میں کچھ پیچیدگیاں آگئیں اور کلارا ماں بننے کی صلاحیت سے ہی محروم ہوگئی۔ نتیجتاً 1955 میں شادی کے نو سال بعد وہ کسی بچّے کو گود لینے کے لئے دیکھنے لگے۔
پال جابز کی طرح جونّا شیبل کا تعلق وسکونسن کے نواحی علاقے سے تھا اور وہ جرمن نسل سے تعلق رکھتی تھیں۔ جونّا کے والد آرتھر شیبل نے گرین بے کے نواح میں ہجرت کی تھی۔ اُن کا mink کا فارم تھا اور ساتھ میں کئی اور کاروبار تھے جس میں ریئل اسٹیٹ اور فوٹوانگریونگ شامل تھے۔ وہ ایک سخت مزاج باپ تھے خاص طور پر جونّا کے کسی سے تعلق رکھنے کے معاملے میں۔ اُنھوں نے جونّا کی پہلی پسند جو ایک آرٹسٹ تھا لیکن کیتھولک نہیں تھا کو سختی سے مسترد کردیا تھا۔ اس لئے یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں تھی کہ اُنھوں نے جونّا سے مکمل قطع تعلق کرنے کی دھمکی دی جب جونّا ایک شامی عبدالفتح “جان” جندالی، جو ایک مسلمان تھا، کے عشق میں گرفتار ہوگئیں۔ جندالی ایک ٹیچنگ اسسٹنٹ تھے۔
جندالی شام کے ایک اثر و رسوخ رکھنے والے خاندان کی نویں اولاد تھے۔اُن کے والد کی آئل ریفائنریز اور دوسرے کاروبار تھے جو کہ زیادہ تر دمشق اور حمس کے علاقے میں تھے اور ایک وقت ایسا بھی تھا کہ وہ علاقے میں گندم کی قیمت کو کنٹرول کرتے تھے۔ جندالی کی والدہ، جیسا کہ اُنھوں نے بعد میں بتایا، “ایک روایتی مسلمان خاتون تھیں جو ایک قدامت پسند تعبدادار گھریلو خاتون تھیں۔ شیبل فیملی کی طرح جندالی خاندان بھی تعلیم کا قدردان تھا۔ عبدالفتح کو Jesuit بورڈنگ اسکول بھیجا گیا حالانکہ وہ مسلمان تھے جس کے بعد اُنھوں نے بیروت کی امریکن یونیورسٹی سے انڈر گریجویٹ کی ڈگری حاصل کی جس کے بعد اُنھوں نے یونیورسٹی آف وسکونسن میں پولیٹیکل سائنس میں پی ایچ ڈی کرنے کے لئے داخلہ لیا۔
سن 1954 کی گرمیوں میں جونّا، عبدالفتح کے ساتھ شام گئیں۔ اُنھوں نے حمس میں دو مہینے گُزارے جہاں جونّا نے عبدالفتح کی فیملی سے شامی کھانے بنانے سیکھے۔ جب وہ وسکونسن واپس پہنچے تو جونّا کو پتہ چلا کہ وہ حاملہ ہو چُکی ہیں۔ وہ دونوں اُس وقت تیئیس (23) سال کے تھے لیکن اُن دونوں نے شادی نا کرنے کا فیصلہ کیا۔ جونّا کے والد اُس وقت بسترِ مرگ پر تھے اور اُنھوں نے اُن کو عبدالفتح کے ساتھ شادی کی صورت میں عاق کرنے کی دھمکی دی تھی۔ جونّا ایک چھوٹی سی کیتھولک کمیونٹی میں رہتی تھیں جہاں ابارشن ایک آسان option نہیں تھا۔ تو 1955 کے شروع میں اُنھوں نے سان فرانسیسکو کا سفر اختیار کیا جہاں ایک ڈاکٹرتھا جو غیر شادی شدہ ماؤں کی دیکھ بھال کرتا تھا، اُن کے بچّوں کی ڈیلیوری کرواتا تھا، اور خاموشی کے ساتھ اُن کے بچّوں کے adoption کرواتا تھا۔
جونّا کا ایک مطالبہ تھا کہ اُن کے بچّے کو جو جوڑا adopt کرے وہ کم سے کم کالج گریجویٹ ہو۔ تو ڈاکٹر نے اُن کے بچّے کو ایک وکیل اور اُس کی بیوی کو دینے کا بندوبست کرلیا۔ لیکن جب جونّا کے پاس، فروری 24، 1955 کو لڑکے کی پیدائش ہوئی تو وہ وکیل جوڑا یہ کہ کر پیچھے ہٹ گیا کہ وہ لڑکی کو adopt کرنا چاہ رہے تھے۔ تو وہ بچّہ وکیل کا بچّہ بننے کی بجائے ایک ہائی اسکول ڈراپ آؤٹ میکینک پال اور اُن کی بُک کیپر بیوی کلارا کا بیٹا بن گیا۔ پال اور کلارا نے اپنے نئے بچّے کا نام اسٹیون پال جابز رکھا۔
جب جونّا کو یہ پتہ چلا کہ اُس کے بچّے کو adopt کرنے والے کالج گریجویٹ تو کیا ہائی اسکول گریجویٹ بھی نہیں ہیں تو اُس نے adoption کے کاغذات پر دستخط کرنے سے انکار کردیا۔ یہ تناؤ کُچھ ہفتے تک جاری رہا اگرچہ کہ بچّہ اپنے نئے والدین کے گھر میں سیٹ ہو چکا تھا۔ آخرِکار جونّا نے اس شرط پر adoption کے کاغذات پر دستخط کئے کہ پال اور کلارا اُس کے بچّے کی کالج کی تعلیم کی فنڈنگ کے لئے ایک سیونگز اکاؤنٹ کھولیں گے۔
جونّا کے adoption کے کاغذات پر دستخط نا کرنے کی ایک اور وجہ بھی تھی۔ اُس کا والد بسترِ مرگ پر تھا اور اُس کی وفات کے بعد اُس کا عبدالفتح کے ساتھ شادی کا ارادہ تھا۔ اُس کو اُمید تھی کہ وہ بعد میں اپنے خاندان کو منا لے گی اگر ایک دفعہ اُس کی شادی ہوجائے جس کے بعد وہ اپنے بچّے کو بھی واپس لے سکے گی۔
آرتھر شیبل کا انتقال اگست 1955 کو ہوا، جب تک adoption تکمیل تک پہنچ چکی تھی۔ اُسی سال کرسمس کے فوراً بعد ہی جونّا اور عبدالفتح نے گرین بے میں سینٹ فلپ کیتھولک چرچ میں شادی کی۔ اگلے سال عبدالفتح نے بین الاقوامی سیاسیات میں پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی اور اُسی وقت اُن کے پاس ایک بیٹی کی پیدائش ہوئی جس کا نام مونا رکھا گیا۔ 1962 میں جونّا اور جندالی کے مابین طلّاق ہوگئی جس کے بعد جونّا کی در بدر کی زندگی کی شروعات ہوتی ہے جسے اُس کی بیٹی، جو بڑی ہو کر ایک نامور ناولسٹ مونا سمپسن بنی نے اپنی کتاب “Anywhere but Here” میں میں قلمبند کیا۔ چونکہ اسٹیو کی adoption مکمّل ہو چکی تھی لہٰذا بیس سال سے پہلے وہ ایک دوسرے سے نہیں مل سکتے تھے۔
اسٹیو جابز کو شروع ہی سے معلوم تھا کہ وہ لے پالک ہے۔ “میرے والدین اس سلسلے میں میرے ساتھ بلکل واضح تھے”، اُس نے یاد کیا۔ اُس کو واضح طور پر یاد تھا کہ جب وہ چھ یا سات سال کا تھا تو اُس نے اس بارے میں اُس کے گھر کے سامنے رہنے والی لڑکی کو اس بارے میں بتایا تھا۔ “تو اس کا مطلب ہے تمھارے حقیقی والدین تمہیں اپنے پاس نہیں رکھنا چاہتے تھے؟” لڑکی نے سوال کیا۔ جابز کا کہنا تھا ”میرے ذہن بلکل تاریک ہوگیا”، “میں روتے ہوئے گھر میں گیا اور میرے والدین نے کہا “نہیں، تمہیں یہ سمجھنا ہوگا” وہ بہت سنجیدہ تھے اور اُنھوں نے سیدھا میری آنکھوں میں دیکھا۔ اُنھوں نے کہا “ہم نے تمہیں خاص طور پر چُنا تھا” میرے دونوں والدین نے یہ کہا اور اسے آہستہ آہستہ میرے لئے دہرایا۔ اور اُنھوں نے اُس جملے کہ ہر لفظ پر زور دیا”
متروک۔ چُنا ہوا۔ خاص۔ یہ تصورات جابز کی شخصیت کا حصّہ بن گئے یا جیسا کہ وہ اپنے آپ کو سمجھتا تھا۔ اُس کے قریبی دوستوں کا یہ ماننا تھا کہ یہ معلومات کہ اُسے چھوڑ دیا گیا تھا نے اُس کے ذہن پر اثرات ڈالے تھے۔ اُس کے ایک دیرینہ قریبی ساتھی ڈیل یوکیم ( Del Yocam) نے کہا “وہ اپنے ماحول کو اپنے قابو میں رکھنا چاہتا ہے اور وہ اپنی پروڈکٹ کو اپنی ذات کا اضافہ شدہ حصہ سمجھتا ہے”۔ Greg Calhoun جو کالج کے فوری بعد کے زمانے میں جابز کے قریب ہوگئے تھے ایک اور بات بتاتے ہیں۔ “اسٹیو نے مجھ سے بہت دفعہ چھوڑے جانے اور اس کی وجہ سے ہونے والی تکلیف کے بارے میں بات کی” اُنھوں نے کہا۔ “اس بات نے اُس کو خودمختار بنا دیا۔ اُس نے ایک نیا راستہ اختیار کیا” ۔
بعد میں اُس نے اُسی عمر میں جس عمر میں اُس کے والد نے اُس کو چھوڑا تھا اُس نے بھی وہی کام کیا ( اگرچہ بعد میں اُس نے اپنی چھوڑی ہوئی اولاد کو اپنا لیا)۔کرسین برنین، جو اُس بچی کی ماں تھی جس کو جابز نے چھوڑ دیا تھا کہتی ہیں کہ اس حقیقت نے کہ جابز کو چھوڑ دیا گیا تھا جابز کو بُری طرح توڑ پھوڑ کر رکھ دیا تھا اور اس سے جابز کے کُچھ رویوں کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ “وہ جس کو لاوارث چھوڑا گیا اُس نے بھی اپنی اولاد کو لاوارث چھوڑ دیا۔ ہرٹز فیلڈ جنھوں نے جابز کے ساتھ 1980 کے اوائل میں ایپل میں کام کیا تھا اُن چند افراد میں سے ہیں جو برینن اور جابز دونوں کے نزدیک رہے ہیں کہتے ہیں “اسٹیو کے متعلق بنیادی سوال یہ بنتا ہے کہ بعض اوقات وہ اضطراری طور پر اتنا ظالمانہ اور کُچھ لوگوں کے لئے نقصان دہ کیوں ہوجاتا تھا”۔ اس بات کا تعلق بچپن میں چھوڑے جانے سے ہے۔ اندرونی طور پر مسئلہ اُس کو چھوڑے جانے کا ہی تھا۔
جابز نے ان سب چیزوں کو مسترد کیا۔ جابز کا کہُا تھا کہ چونکہ مجھے میرے حقیقی والدین نے چھوڑ دیا تھا اس وجہ سے میں نے محنت کی تاکہ میرے والدین مجھے واپس لے لیں یہ مضحکہ خیز ہے۔ اُس نے اصرار کیا کہ اس بات کا جاننا کہ میں لے پالک ہوں اس نے مجھے مزید خودمختاری کا احساس دیا۔ میں نے ہمیشہ اپنے آپ کو خاص محسوس کیا۔ میرے والدین نے ہمیشہ مجھے خاص ہونے کا احساس دلایا
وادیِ سلیکون ( Silicon Valley)
پال اور کلارا جابز نے اپنے نئے بیٹے (اسٹیو) کے لئے جو بچپن تخلیق کیا تھا وہ روایتی تھا۔ جب اسٹیو دو سال کا ہوا تو اُنھوں نے ایک بچّی کو گود لے لیا اور اُس کا نام Patty رکھا اور تین سال بعد شہر کے نواحی علاقے میں منتقل ہو گئے۔ فنانس کمپنی ، CIT، جس کے پال نمائندہ تھے، نے پال کا اپنے پالو آلٹو ( Palo Alto) کے آفس تبادلہ کردیا تھا، لیکن پال اُس علاقے میں رہنا afford نہیں کرسکتے تھے تو اُنھوں نے ماؤنٹین ویو ( Mountain View) کے ایک سب ڈویژن میں رہائش اختیار کر لی جو جنوب کی جانب سستا علاقہ تھا۔
وہاں پال نے اپنے میکینک اور گاڑیوں کے مشغلے کو ساتھ چلانے کی کوشش کی۔ “اسٹیو یہ تمھاری کام کی جگہ ہے” پال نے اسٹیو سے گیراج کے ایک سیکشن کو مارک کرتے ہوئے کہا۔ جابز کو یاد تھا کہ وہ اپنے والد کی کاریگری پر یکسوئی سے کافی متاثر ہوا کرتا تھا۔ “میں سمجھتا ہوں کہ میرے والد ڈیزائن کا احساس بہت اچھا تھا” اُس نے کہا، “کیونکہ وہ کسی بھی چیز کو بنانا جانتے تھے۔ اگر ہمیں کیبنٹ کی ضرورت ہوتی تو وہ اُسے خود بناتے۔ جب اُنھوں نے گھر کی باڑ تعمیر کی تو اُنھوں نے مجھے ہتھوڑی دی تاکہ میں اُن کے ساتھ کام کرسکوں”۔
آج پچاس سال بعد بھی وہ باڑ ماؤنٹین ویو کے گھر کی پُشت اور بازو میں ویسی ہی کھڑی ہے۔ جب جابز مجھے اپنے گھر کی وہ باڑ دکھا رہا تھا اُس نے ایک اہم سبق کے بارے میں بتایا جو اُس کو اُس کے والد نے دیا تھا۔ اُس کے والد نے اُس کو کہا تھا کہ کیبنٹ اور باڑ کی پشت کو بھی اچھے طریقے سے بنانا ضروری ہے حالانکہ وہ نظروں سے چھپے ہوئے ہوتے ہیں۔ “اُن کو چیزوں کو درست طریقے سے کرنے سے عشق تھا۔ وہ اُن چیزوں پر بھی بہت محنت کرتے تھے جو آپ دیکھ نہیں سکتے”۔
اَس کے والد نے گاڑیوں کی مرمّت کرکے اُن کو بیچنے کا سلسلہ جاری رکھا جبکہ اُس نے گیراج میں اپنی پسندیدہ تصاویر آویزاں کیں۔ پال اسٹیو کو گاڑیوں کی مختلف خصوصیات، باریکیوں، اور نزاکتوں کے بارے میں سمجھاتے تھے۔ کتاب کے سلسلے میں پال نے بات کرتے ہوئے بتایا کہ پال اپنے ہاتھوں کو گندہ کرنے میں بلکل دلچسپی نہیں رکھتا تھا اور اُس نے کبھی بھی مکینیکل چیزوں میں دلچسپی نہیں لی۔
“مجھے گاڑیوں کی مرمّت کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی” جابز اس بات کو قبول کرتا ہے۔ “ مگر میں اپنے والد کے ساتھ ساتھ رہنے میں دلچسپی رکھتا تھا” جابز نے کہا۔ حالانکہ بڑے ہوتے ہوئے اُسے اس بات کا زیادہ احساس تھا کہ وہ لے پالک ہے لیکن وہ اپنے والد سے مزید قریب ہوگیا تھا۔ ایک دن جب وہ اندازً آٹھ سال کا تھا تو اُس کے ہاتھ اُس کے والد کی کوسٹ گارڈ کے زمانے کی ایک تصویر لگی۔”وہ انجن روم میں تھے اور اُنھوں نے اپنی شرٹ اُتاری ہوئی تھی اور وہ جیمس ڈین کے مشابہ لگ رہے تھے۔ یہ ایک بچے کے لئے خوشی کا موقعہ تھا کہ کیا بات ہے میرے والدین کبھی اتنے جوان اور خوش شکل بھی ہوا کرتے تھے”
گاڑیوں کے ذریعے اسٹیو کے والد نے اُسے پہلی دفعہ الیکٹرونکس سے روشناس کروایا تھا۔ “میرے والد کو الیکٹرونکس کی گہری سمجھ نہیں تھی لیکن گاڑیوں اور دیگر چیزوں کی مرمّت کے درمیان اُن کا سامنا الیکڑانکس کی کئی پیچیدگیوں سے ہوا۔ اُنھوں نے مجھے الیکڑانکس کی ابتدائی چیزیں بتائیں اور میں نے اُن میں گہری دلچسپی لی۔” اُس سے زیادہ دلچسپ استعمال شدہ پرزوں کے حصول کے لئے کئے جانے والے چکّر ثابت ہوئے۔ “ہر ویک اینڈ کباڑ خانے کا ایک چکّر لگتا تھا۔ ہم جنیریٹر، کاربوریٹر، اور تمام قسم کے پُرزوں کی تلاش میں رہتے تھے”۔ اُس کو اپنے والد کو کاؤنٹر پر مول تول کرتے دیکھنا یاد تھا۔ “وہ کباڑیوں سے بہت اچھی طرح ڈیل کرتے تھے کیونکہ وہ کاؤنٹر پر موجود لوگوں کے مقابلے میں چیزوں کی قیمت زیادہ بہتر جانتے تھے”۔ اس چیز نے جابز کے والدین کو اپنے اُس وعدہ کو پورا کرنے میں کافی مدد دی جو اُنھوں نے اُس کو گود لیتے ہوئے اُس کی تعلیم کے متعلق کیا تھا۔ “میرے کالج کا فنڈ کچھ اِس طرح سے جمع ہوا کہ میرے والد نے فورڈ فالکن کے لئے 50$ ادا کئے اور اُس پر کُچھ ہفتے کام کرکے 250$ میں بیچ دیا۔۔IRS کو بتائے بغیر۔
جابز اور اُس علاقے میں رہنے والے دیگر لوگوں کے مکانات ایک ریئل اسٹیٹ ڈیویلپر جوزف ایچلر نے تعمیر کئے تھے۔ اس کمپنی نے 1950 سے 1974 کے عرصے کے دوران گیارہ ہزار سے زائد گھروں کی تعمیر کی تھی۔ جوزف مکانات کی تعمیر کے سلسلے میں فرینک لائیڈ رائٹس کے وژن سے متاثر تھے جس میں ہر امریکی کے لئے سادہ مگر جدید گھر تعمیر کرنا شامل تھا۔ “ایچلر نے بہت عمدہ کام کیا تھا” جابز نے والٹر کو ایک دفعہ چہل قدمی کرتے ہوئے بتایا۔ “اُس کے گھر اسمارٹ، سستے، اور اچھے تھے۔ اُن گھروں کے ذریعے ایچلر نے صاف ستھرے اور سادے گھر کم آمدنی والے گھروں کی پہنچ میں لادئیے تھے۔اُن میں چھوٹے چھوٹے بہترین خصوصیات تھیں جیسے فرش میں radiant heating۔ آپ اُن پر کارپیٹ رکھ دیں اورآپ کو بہترین گرم فرش مل جائے گا”
جابز نے بتایا کہ ایچلر کے گھروں کے لئے جو جذبات اُس کے دل میں تھے اُنھوں نے اُسے مارکیٹ کے لئے اچھی ڈیزائن کی ہوئی پروڈکٹ بنانے پر راغب کیا۔ “ مجھے محبت ہے اس چیز سے کہ اگر آپ ایک بہت ہی اچھا ڈیزائن سادہ خصوصیات کے ساتھ جس کی قیمت بھی زیادہ نا ہو لاسکیں”۔ “یہ ایپل کا اصل وژن تھا۔ یہی ہم نے اُس وقت پہلے میک کے ساتھ کرنے کی کوشش کی۔ یہی ہم نے اُس وقت iPod کے ساتھ کیا۔
جابز کے گھر کے ہی سامنے ایک شخص رہتا تھا جو ایک کامیاب ریئل اسٹیٹ ایجنٹ تھا۔ “وہ اتنا ذہین نہیں تھا” جابز نے یاد کیا، “لیکن وہ بہت اچھے پیسے بناتا دکھائی دیتا تھا۔ تو میرے والد نے سوچا میں بھی ایسا کرسکتا ہوں۔ مجھے یاد ہے اُنھوں نے بہت محنت کی۔ اُنھوں نے وہ رات کی کلاسیں لیں، لائسنس کا ٹیسٹ پاس کیا، اور ریئل اسٹیٹ میں گھس گئے۔ پھر ریئل اسٹیٹ مارکیٹ کریش کر گئی” نتیجتاً اسٹیو کی فیملی نے ایک سال تک خود کو معاشی بحران میں گھرا پایا جبکہ اسٹیو ایلیمنٹری اسکول میں تھا۔ اُس کی والدہ نے Varian ایسوسیئیٹس کے میں بُک کیپر کے طور پر جاب کرلی جو سائنٹیفک انسٹرومنٹ بناتی تھی، اور اُنھوں نے دوسری مورگیج نکال لی۔ ایک دن اُس کی چوتھی جماعت کی ٹیچر نے اُس سے پوچھا “ ایسا کیا ہے جو تم کائنات کے بارے میں نہیں سمجھتے؟” جابز نے جواب دیا، “ مجھے سمجھ نہیں آتا کہ ایک دم سے میرے والد ٹوٹے ہوئے سے کیوں لگتے ہیں”۔ جابز اس بات پر فخر کرتا تھا کہ اُس وقت اُس کے والد نے لوگوں کے ساتھ چرب زبانی سے کام نہیں کیا جس کی وجہ سے وہ بہتر سیلز مین بن سکتے تھے۔ “ آپ کو ریئل اسٹیٹ میں لوگوں کو بہت لبھانا پڑتا ہے اور وہ اس میں اچھے نہیں تھے نا ہی یہ اُن کی فطرت تھی۔ “میں ان کی اس بات پر فخر کرتا ہوں”۔ پال جابز دوبارہ میکینک بن گئے۔
اُس کے والد پرسکون اور نرم دل تھے۔ یہ وہ خصوصیات تھیں جن کی اُن کے بیٹے (یعنی جابز) نے تعریف زیادہ کی لیکن عمل کم کیا۔ وہ ایک پُر عزم انسان بھی تھے۔ جابز ایک مثال سے سمجھاتے ہیں۔
قریب ہی ایک انجینئر رہتا تھا جو Westinghouse میں کام کرتا تھا۔ وہ سنگل تھا نشئی تھا۔اُس کی ایک گرل فرینڈ تھی۔ وہ کبھی کبھار میری بے بی سٹنگ کرتی تھی۔ میرے دونوں والدین کام کرتے تھے اس لئے اسکول کے فوراً بعد میں چند گھنٹوں کے لئے وہاں چلے جاتا تھا۔ وہ شراب کے نشے میں اپنی گرل فرینڈ کو مارتا تھا۔ ایک رات اُس کی گرل فرینڈ اُس کی مار پیٹ سے خوفزدہ ہوکر ہمارے گھر آئی اور وہ بھی شراب پئیے ہوے پیچھے آیا۔ میرے والد نے للکارتے ہوئے اُسے کہا “یہ یہاں ہے لیکن تم یہاں نہیں آؤ گے۔” وہ وہیں کھڑا رہا۔ ہم پچاس کے عشرے کے بارے میں یہ سوچنا پسند کرتے ہیں جیسے اُس وقت سب ٹھیک ٹھاک تھا لیکن یہ بندہ اُن انجینیئرز میں سے تھا جنھوں نے اپنی زندگی خراب کر لی تھی۔
جہاں جابز رہتا تھا اُس کے یہ چیز دوسرے سب ڈویژن سے ممتاز کرتی تھی کہ آس پاس سارے انجینئرز رہتے تھے۔”جب ہم نے یہاں سکونت اختیار کی تو ہر طرف خوبانی اور plum orchards تھے۔”جابز نے یاد کیا۔”مگر ملٹری کی انویسمنٹ کی وجہ سے اس علاقے کی اہمیت بڑھنے والی تھی”۔ پولیرائڈ ( Polaroid) کیمرہ کے ایڈون لینڈ نے اُسے بتایا کہ صدر آئزن ہاور نے اُسے جاسوسی جہاز U-2 کے لئے کیمرہ بنانے کے لئے کہا تھا تاکہ سویت یونین کے خطرہ کا حقیقی اندازہ کیا جا سکے۔ “پہلا کمپیوٹر ٹرمینل میں نے اُس وقت دیکھا جب میرے والد مجھے ایمس (Ames) سینٹر لے کر آئے،” جابز نے کہا۔ “میں مکمل طور پر اُس کے عشق میں گرفتار ہوگیا”۔
دوسرے ڈیفنس کانٹریکٹر بھی 1950 کے عشرے میں قریبی علاقوں میں آگئے۔ لاک ہِیڈ میزائل اینڈ اسپیس ڈویژن، جس نے سب میرین سے لانچ کرنے والا بلیسٹک میزائل بنایا تھا، اُس کو ناسا سینٹر کے برابر میں 1956 میں قائم کیا گیا۔ جابز اُس علاقے میں چار سال بعد منتقل ہوا۔ اس ادارے میں بیس ہزار لوگ کام کرتے تھے۔ کچھ فاصلے پر ویسٹنگ ہاؤس نے میزائل سسٹم کے لئے ٹیوبز اور الیکٹریکل ٹرانفارمر بنانے کے ادارے قائم کئے۔ “آپ ان تمام ملٹری کمپنیز کے قریب تھے” جابز نے یاد کیا۔ “یہ ایک پُراسرار اور ہائی ٹیک تھا اور وہاں کام کرنا نہایت دلچسپ تھا۔
دفاعی صنعت کی وجہ سے وہاں تیزی سے ترقّی کرتی ہوئی معیشت نے جنم لیا جس کی بنیاد ٹیکنالوجی تھی۔ اس کی تاریخ 1938سے شروع ہوتی ہے جب ڈیوڈ پیکارڈ (David Packard) اپنی نئی بیوی کے ساتھ پالو آلٹو کے ایک گھر میں منتقل ہوئے جہاں ایک شیڈ تھا اور جہاں اُن کے دوست بل ہیولٹ ( Bill Hewlett) بھی جلد ہی منتقل ہوگئے۔ اُس گھر میں ایک گیراج تھا، جس نے بعد میں جاکر کام کی چیز اور مشہور ثابت ہونا تھا، جس میں اُن دونوں نے مل کر کام کیا یہاں تک کہ وہ اپنی پہلی پروڈکٹ، آڈیو آسیلیٹر (Osilator)، بنانے کے قابل ہوئے۔ 1950 میں ہیولٹ۔ پیکارڈ تکنیکی آلے بنانے میں سب سے تیزی سے ترقّی کرنے والی کمپنی تھی۔
خوش قسمتی سے اُن کاروباری حضرات کے لئے جنھوں نے اپنا کاروبار اپنے گیراج سے زیادہ پھیلا لیا تھا قریب ہی ایک جگہ تھی۔ اسٹینفورڈ یونیورسٹی کے انجینیئرنگ کے ڈین فریڈرک ٹرمین نے یہ اقدام لیا کہ یونیورسٹی میں سات سو ایکڑ رقبے پر صنعتی پارک بنایا جس کا مقصد اُس جگہ کو ٹیکنالوجی کے انقلاب کے لئے استعمال کرنا تھا جو اُس وقت رونما ہو رہا تھا۔ اس پارک میں زمین اُن لوگوں کو دی جانی تھی جو یونیورسٹی کے طلباء کے آئیڈیاز کو کاروباری شکل دے سکیں۔ اُس جگہ کے پہلے مکین Varian Associates تھے جہاں کلارا جابز کام کرتی تھیں۔ “ٹرمین اس عظیم خیال کے ساتھ آیا تھا جس نے یہاں پر ٹیکنالوجی کی صنعت کو فروغ دینے کے لئے کسی بھی قدم سے زیادہ کام کیا” جابز نے کہا۔ جب جابز کی عمر دس سال تھی تو HP میں نو ہزار ملازمین تھے اور وہ ایسی blue chip کمپنی تھی جہاں معاشی استحکام کے متلاشی سارے انجینئر کام کرنا چاہتے تھے۔
اُس خطے کے نمو کے لئے سب سے اہم ٹیکنالوجی ظاہر سی بات ہے سیمی کنڈکٹر کی تھی۔ ولیم شاکلے، جو بیل لیبز نیو جرسی میں ٹرازسٹر ایجاد کرنے والوں میں سے ایک تھا، ماؤنٹین ویو منتقل ہوا اور 1956 میں ایک کمپنی کی شروعات کی جو اُس وقت عام استعمال ہونے والے Germanium جیسے مہنگے میٹریل کی بجائے silicon کا استعمال کرتے ہوئے ٹرازسٹر بناتی تھی۔ لیکن شاکلے کا رویہ بد سے بدتر ہوتا چلا گیا جس کی وجہ سے اُس کے آٹھ انجینئر جن میں رابرٹ نائس اور گورڈن موور قابل ذکر تھے کو Fairchild Semiconductor سے الگ ہونے پر مجبور کردیا۔ یہ کمپنی بارہ ہزار ملازمین تک پہنچ گئی تھی لیکن 1968 میں یہ ختم ہوگئی جب نائس اس کمپنی کا CEO بننے کی جنگ ہار گیا۔ اُس ( نائس) نے گورڈن موور کو لیا اور ایک کمپنی قائم کی جس کا نام Integrated Electronics Corporation رکھا گیا اور جس کا جلد ہی مخفف Intel کردیا گیا۔ اُن ساتھ ملنے والے تیسرے شخص اینڈریو گروو تھے جنھوں نے کمپنی کی توجہ کا مرکز میموری چپس سے ہٹا کر مائکرو پروسیسر کی طرف کردیا۔ چند ہی سالوں میں اُس علاقے میں سیمی کنڈکٹر بنانے والی کمپنیوں کی تعداد پچاس سے زائد ہو گئی۔
اس صنعت کے تیزی سے بڑھنے کو Moore کے دریافت شدہ اُس تصور سے ملایا جا سکتا ہے جس نے 1965 میں integrated circuits کی رفتار کا گراف بنایا تھا جس کی بنیاد یہ تھا کہ کتنے ٹرازسٹر ایک چِپ پر رکھے جا سکتے ہیں، اور یہ گراف یہ ظاہر کرتا تھا کہ ان کی تعداد ہر گزرتے دو سالوں کے بعد دوگنی ہوجانی تھی۔ اس بات کی تصدیق 1971 میں دوبارہ ہوگئی جب انٹیل اس قابل ہوگئی کہ ایک مکمل سینٹرل پروسیسنگ یونٹ کو ایک چِپ پر چسپاں کردیا۔ یہ انٹیل 4004 تھا جس کو مائکرو پروسیسر کہا گیا۔ Moore’s کا قانون درست ثابت ہوا اور اس پر عمل کرتے ہوئے نوجوان کاروباریوں کی دو نسلوں نے اپنی زندگی بنائی جن میں اسٹیو جابز اور بِل گیٹس بھی شامل تھے۔
چِپ انڈسٹری نے اس خِطّے کو نیا نام دیا جب ڈان ہافلر، جو ایک ہفت روزہ “الیکٹرانک نیوز” میں کالم نویس تھے، نے جنوری 1971 میں ایک سلسلہ وار کالم “ سلیکون ویلی یو ایس اے” کے نام سے شروع کیا۔ چالیس میل پر محیط وادیِ سانتا کلارا جو جنوبی سانفرانسسکو سے شروع ہو کر پالو آلٹو سے گزرتے ہوئے سان جوز تک جاتی تھی کی معاشی ریڑھ کی ہڈی تھی ایل کمینو ریئل، ایک شاہانہ سڑک جو کبھی کیلیفورنیا کے ٹوئنٹی ون مشن چرچوں کو آپس میں منسلک کرتی تھی اب ایک بارونق سڑک تھی جو کمپنیز اور startups کو آپس میں ملاتی تھی۔ یہ کمپنیاں پورے امریکہ میں ہر سال کی جانے والی وینچر کیپیٹل انویسٹمنٹ کا ایک تہائی تھیں۔ “بڑا ہوتے ہوئے میں اس جگہ کی تاریخ سے بڑا متاثر تھا” جابز نے یاد کیا۔”اس بات نے مجھے اس کا حصہ بننے کا خواہشمند بنا دیا۔
بہت سے بچّوں کی طرح جابز بھی اپنے آس پاس موجود لوگوں کے جوش سے متاثر تھا۔ “آس پاس موجود اکثر افراد بہت صاف ستھرا کام کرتے تھے، جیسے photovoltaics, batteries اور ریڈار،” جابز نے یاد کیا۔” میں ان چیزوں کے بارے میں مبہوت اور لوگوں سے ان کے بارے میں پوچھتا ہوا بڑا ہوا” ان پڑوسیوں میں سب سے اہم “لیری لینگ” چھ گھر چھوڑ کر رہتے تھے۔ “ وہ ایک HP کا انجینئر کس طرح کا ہونا چاہئے کا بہترین نمونہ تھے: وہ ایک ریڈیو آپریٹر اور hard core electronics کے بندے تھے”۔ جابز نے یاد کیا۔ “وہ میرے لئے کھیلنے کی چیزیں لایا کرتے تھے۔” جب ہم چلتے ہوئے لینگ کے پرانے گھر کی جانب گئے تو جابز نے ڈرائیو وے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ “اُنھوں (لینگ) نے ایک کاربن مائکروفون، اور بیٹری اور ایک اسپیکر لیا اور اُس کو اِس ڈرائیو وے پر رکھ دیا۔ اُنھوں نے مجھے مائکروفون میں بات کرنے دی اور وہ (میری آواز) اُس سے نکل کر گونجی۔” جابز کو اُس کے والد نے سکھایا تھا کہ مائکروفون کو ہمیشہ ایک الیکٹرانک ایمپلیفائر کی ضرورت ہوتی ہے۔ “تو میں تیزی سے اپنے گھر کی جانب دوڑا، اور میں نے اپنے والد سے کہا کہ وہ غلط تھے۔”
“نہیں اس کو ایمپلیفائر چاہئے ہو تا ہے” اُس کے والد نے اُسے یقین دہانی کروائی۔ جب اسٹیو نے اس کے خلاف احتجاج کیا تو اُس کے والد نے اُسے پاگل قرار دیا۔ “وہ ( مائکروفون) ایمپلیفائر کے بنا کام نہیں کرسکتا۔ ضرور کوئی ترکیب ہوگی۔”
“میں مسلسل اپنے والد کی بات کا انکار کرتا گیا، یہ بولتا ہوا کہ اُنھیں اس کو دیکھنا ہوگا، اور آخرِکار وہ میرے ساتھ چل کر گئے اور اسے دیکھا۔ اور اُنھوں نے کہا، ہم دوزخ کے باہر چمگادڑ کی طرح ہونگے”
جابز کو یہ واقعہ واضح طور پر یاد تھا کیونکہ اُس پر پہلی دفع یہ آشکار ہوا تھا کہ اُس کا باپ ہر چیز کے بارے میں معلومات نہیں رکھتا ہے۔
پھر ایک زیادہ پریشان کن بات اُس کو پتہ چلی: وہ اپنے والدین سے زیادہ تیز (smart) تھا۔ اُس نے ہمیشہ اپنے والد کی صلاحیت اور اور مہارت پر ناز کیا تھا۔ “وہ پڑھے لکھے آدمی نہیں تھے لیکن میں نے ہمیشہ یہی سوچا تھا کہ وہ انتہائی ذہین ہیں۔ وہ بہت آگے تک نہیں پہنچ سکے لیکن وہ بہت کُچھ کر سکتے تھے۔ تقریباً تمام مکینیکل مسئلوں کا وہ حل نکال لیتے تھے۔” لیکن کاربن مائکروفون کے واقعے کے بعد سے جابز نے یہ محسوس کرنا شروع کیا کہ درحقیقت وہ اپنے والدین سے زیادہ ذہین اور تیز ہے۔ “یہ ایک بہت بڑا موقع تھا جس نے میرا دماغ اُڑا کر رکھ دیا تھا۔ جب میں نے یہ محسوس کیا کہ میں اپنے والدین سے زیادہ اسمارٹ ہوں، مجھے اپنی اس سوچ پر شدید پشیمانی محسوس ہوئی۔ میں اُس لمحے کو کبھی نہیں بھولوں گا۔ اس دریافت اور اس حقیقت نے کہ وہ لے پالک ہے، بعد میں اُس نے اپنے دوستوں کو بتایا کہ اُس کو لوگوں ( اپنے خاندان اور دنیا) سے الگ کردیا۔
کچھ عرصے بعد آگہی کی ایک اور پرت اُس پر کُھلی۔ نا صرف اُس پر یہ آشکار ہوا کہ وہ اپنے والدین سے زیادہ ذہین ہے بلکہ اُس کو یہ بھی پتہ چلا کہ اُس کے والدین یہ جانتے بھی ہیں۔ پال اور کلارا جابز بہت پیار کرنے والے والدین تھے اور وہ اپنی زندگیوں کو اُس رنگ میں ڈھالنے کے لئے تیار تھے جو اسٹیو کے لئے فائدہ مند ہو جو بہت ہی ذہین تھا۔ وہ اپنے بیٹے کے لئے کسی بھی حد تک جانے کے لئے تیار تھے۔ اور یہ چیز جلد ہی اسٹیو کے سامنے بھی آگئی۔ “ میرے دونوں والدین مجھے جان چُکے تھے۔ یہ جاننے کے بعد کہ میں بہت خاص ہوں اُنھوں نے بہت ذمّہ داری محسوس کی۔ وہ میرے لئے مختلف چیزیں لاتے رہتے تھے اور مجھے بہتر اسکول میں ڈالنے کا اہتمام کرتے تھے۔ وہ میرے لئے اپنی ضروریات کو پیچھے رکھنے کے لئے تیار تھے”
تو جابز نا صرف اس احساس کے ساتھ بڑا ہوا کہ اُسے چھوڑ دیا گیا تھا بلکہ اس احساس کے ساتھ بھی کہ وہ خاص ہے۔ اُس کے اپنے خیال کے مطابق یہ اُس کی شخصیت کے بننے میں بہت اہمیت کا حامل تھا۔
اسکول
جابز کے ایلیمنٹری اسکول شروع کرنے سے قبل ہی اُس کی والدہ نے اُسے پڑھنا سکھا دیا تھا۔ اس بات نے اگرچہ کچھ مسائل پیدا کئے جب جابز نے اسکول جانا شروع کیا۔ “میں شروع کے چند سالوں میں کچھ بور سا ہو گیا تھا اور اس کی وجہ سے میں مشکل میں بھی پڑا۔ جلد ہی یہ واضح ہوگیا کہ جابز کے ساتھ سختی سے نہیں نمٹا جا سکتا تھا۔ “مجھے اسکول میں گھر کی نسبت مختلف ماحول کا سامنا تھا اور میں نے اُن حالات کو پسند نہیں کیا۔ اور اُنھوں نے مجھے سمجھا اور وہ میرے اندر کا تجسّس باہر نکالنے میں کامیاب رہے”۔
اُس کا ایلیمنٹری اسکول جس کا نام مونٹا لوما ایلیمنٹری اسکول تھا اُس کے گھر سے چار بلاک کے فاصلے پر تھا۔ اُس نے اپنی بوریت کا علاج لوگوں کے ساتھ عملی مزاق کرکے کیا۔ میرا ایک بہت اچھا دوست تھا رِک فیرینٹینو اور ہم دونوں اپنی حرکتوں کے باعث ہر طرح کی مُشکلات کا شکار رہتے تھے”، جابز نے یاد کیا۔ “جیسے ہم نے چھوٹے چھوٹے پوسٹرز بنائے تھے جن پر لکھا تھا “اپنے پالتو جانور اسکول لانے کا دن”۔ وہ وقت دیکھنے کے لائق تھا جب ہر طرف کتے اور بلیاں دوڑتے پھر رہے تھے اور اُستاد بے بسی سے یہ سب دیکھ رہے تھے”۔ ایک دفعہ اُنھوں نے چند بچّوں کو اس بات پر راضی کیا کہ وہ اپنی سائیکلوں پر لگے لاک کے نمبر اُن کو بتائیں۔ “پھر ہم باہر گئے اور سائیکلوں کے لاک تبدیل کردئیے اور کوئی بھی اپنی سائیکل کا لاک نہیں کھول سکا۔ وہ لوگ رات دیر گئے تک اس مسئلے کو سلجھاتے رہے”۔ جب وہ تیسری جماعت میں تھا تو اُس کے عملی مزاق خطرناک رخ اختیار کر گئے۔ “ایک دفعہ ہم نے آتش گیر مادہ اپنی اُستاد مسز تھرمین کی کرسی کے نیچے رکھ دیا۔ ہم نے اُن کو ذہنی صدمہ پہنچایا”۔”
اُسے دو یا تین دفعہ اپنی ان حرکتوں کی وجہ سے گھر واپس بھیجا گیا۔ اُس وقت تک اُس کے والد نے اُس کو خاص اہمیت دینی شروع کردی تھی، اور اپنے پرسکون لیکن مضبوط انداز میں اسکول والوں کو بھی باور کروادیا تھا کہ وہ اُن سے بھی یہی توقّع رکھتے ہیں۔ “ دیکھیں یہ اُس کی غلطی نہیں ہے” پال جابز نے اُس کے اساتذہ سے کہا۔ “ اگر آپ اُس کی دلچسپی قائم نہیں رکھ سکتے تو یہ آپ کی غلطی ہے”۔ اُس کے والدین نے اُس کی اسکول میں کی جانے والی حرکتوں پر کبھی اُسے سزا نہیں دی۔ “ میرے والد کے والد شرابی تھے اور اُنھیں بیلٹ سے مارا کرتے تھے، لیکن میرا نہیں خیال کہ مجھے کبھی مارا گیا ہو” اُس کے دونوں والدین اُس نے کہا “جانتے تھے کہ یہ اسکول والوں کی غلطی ہے جو اُس کے اندر پڑھنے کی جستجو پیدا کرنے کی بجائے اُس کو فضول چیزیں یاد کرنے کو دیتے تھے”۔ اسی عمر میں وہ حسّاسیت اور غیر حسّاسیت، گھُلنے ملنے یا جدا رہنے کا امتزاج بن گیا تھا اور یہ ساری عمر اُس کے ساتھ رہا۔
جب اُس کا چوتھی جماعت میں جانے کا وقت آیا وہ اُس کے اسکول والوں نے فیصلہ کیا کہ بہتر یہی ہوگا کہ اُسے اور فیرینٹینو کو علیحدہ کلاسوں میں رکھا جائے۔ اس کلاس میں اُس کی اُستاد، جن کا نام اِیموجن ہِل تھا اور وہ “ٹیڈی” کے نام سے جانی جاتی تھیں بہت تیز تھیں۔ اور بقول جابز کے وہ اُس کے لئے بہت اچھی ثابت ہوئیں۔ اُنھوں نے کچھ دن جابز کو دیکھنے کے بعد اندازہ لگایا کہ جابز کو نمٹنے کا بہترین طریقہ اُس کو لالچ دے کر کام کروانے کا ہے۔ ایک دن اسکول کے بعد اُنھوں نے جابز کو ریاضی کی ورک بُک دی اور کہا کہ وہ چاہتی ہیں کہ جابز اُسے حل کرنے کے لئے گھر لے جائے۔ جابز نے سوچا کہیں اُن کا دماغ تو نہیں چل گیا لیکن اُس کے بعد اُنھوں نے کہا کہ اگر جابز بڑی تعداد میں سوالوں کے صحیح جوابات دے گا تو وہ اُسے ایک بڑا لالی پاپ اور پانچ ڈالر دیں گی۔ اور جابز نے وہ ورک بُک دو دن میں ہی مکمّل کر کے واپس کردی۔ کچھ مہینوں کے بعد اُسے اُس رشوت کی ضرورت نہیں رہی بلکہ وہ زیادہ سے زیادہ سیکھنا اور اپنی اُستانی کو خوش کرنا چاہتا تھا۔
اُنھوں نے بعد میں جابز کو کیمرہ بنانے کی کٹ بھی لا کر دی۔ جابز کے مطابق اُس نے اُس اُستانی سے سب سے زیادہ سیکھا اور اگر وہ نا ہوتی تو شائد جابز جرائم کی زندگی کی طرف نکل جاتا۔ اس بات نے اس خیال کی مزید تصدیق کی کہ جابز ایک خاص بچّہ تھا۔ اُس کلاس میں اُنھوں نے صرف جابز پر ہی توجّہ دی تھی۔ اُن کو جابز میں کچھ خاص نظر آیا تھا۔
اُنھوں نے جابز میں صرف ذہانت ہی نہیں دیکھی تھی بلکہ کچھ اور بھی نظر آیا تھا۔ کچھ سالوں وہ وہ ایک تصویر دکھانا پسند کرتی تھیں جو ہوائی (Hawaii) کے دن کے موقع پر لی گئی تھی۔ جابز اُس دن کی مناسبت سے ہوائین شرٹ پہنے بغیر ہی آگیا تھا لیکن تصویر میں وہ بلکل سامنے اور بیچ میں کھڑا تھا۔ اُس نے ہوائین شرٹ کسی سے حاصل کرلی تھی۔
چوتھی جماعت کے اختتام پر مسز ہِل نے جابز کا ٹیسٹ لیا۔ جابز نے اُس میں ہائی اسکول کے درجے کی کارکردگی دکھائی تھی۔ اب یہ بات نا صرف جابز اور اُس کے والدین پر واضح تھی بلکہ اسکول کے اساتذہ پر بھی عیاں تھی کہ جابز اپنی عمر سے زیادہ عقلمند ہے۔ اُس کے اسکول والے ایک نہایت ہی شاندار پیشکش کے ساتھ سامنے آئے کہ کیوں نا جابز کو دو جماعتوں کو چھوڑ کر سیدھا ساتویں جماعت میں ڈال دیا جائے۔ اُس کے والدین نے مگر اُس کو ایک جماعت چھڑوا کر چھٹی جماعت میں ڈلوایا۔
جابز کے لئے یہ تبدیلی کافی مشکل ثابت ہوئی۔ اُس نے اپنے آپ کو اپنے سے ایک سال بڑی عمر کے بچّوں میں پایا اور تنہا محسوس کیا۔ اس پر سب سے بُری بات یہ ہوئی کہ چھٹی جماعت ایک مختلف اسکول کریٹنڈن مڈل میں تھی۔ وہ اسکول اُس کے پُرانے اسکول سے آٹھ بلاک کے فاصلے پر تھا لیکن اس اسکول کے اطراف میں بہت سارے لسانی گروہ موجود تھے جن میں لڑائی معمول کی بات تھی۔ بہادری کے اظہار کے لئے چھریاں لانا معمول تھا۔ جابز نے جب اُس اسکول میں داخلہ لیا تھا اُنھی دنوں اُس اسکول کے ایک گروہ کو گینگ ریپ پر جیل کی سزا ہوئی تھی اور ساتھ والے اسکول کی بس کو اس لئے تباہ کردیا گیا تھا کہ اُس اسکول نے کریٹنڈن اسکول کو ریسلنگ کے میچ میں ہرا دیا تھا۔
جابز کو بھی اس اسکول میں بہت تنگ کیا گیا اور ساتویں جماعت کے بیچ میں اُس نے اپنے والدین کو الٹی میٹم دے دیا کہ اُسے کسی اور اسکول میں داخل کروایا جائے۔ معاشی طور پر یہ ایک سخت مطالبہ تھا۔ اُس کے والدین بمشکل گزارہ کر رہے تھے۔ جب اُنھوں نے اُسے منع کرنا چاہا تو اُس نے کہا کہ وہ اسکول چھوڑ دے گا۔ تو اُنھوں نے یہ دیکھا کہ اچھے اسکول کن علاقوں میں ہے اور اپنی تمام جمع پونجی جمع کر کے اکیس ہزار ڈالر میں ایک مکان بہتر علاقے میں خریدا۔
وہ لوگ تین میل جنوب کی جانب منتقل ہوئے تھے۔ وہ جس گھر میں منتقل ہوئے وہ ایک منزلہ تھا اور سب سے اہم بات اس میں گیراج تھا جس میں پال جابز گاڑیوں کا کام کرسکتے تھے اور اسٹیو الیکٹرانکس کا۔ اس کی ایک اور خصوصیت یہ تھی وہ کوپرنٹو۔ سنی ڈیل اسکول ڈسٹرکٹ میں آتا تھا جو وادی کا محفوظ ترین اور بہترین اسکول تھا۔ وہ جب اس علاقے میں منتقل ہوئے تو مضافات میں باغات موجود تھے اور وہاں پ