یہ کتاب کیسے لکھی گئی
۲۰۰۴ کی ابتدائی گرمیوں میں مجھے اسٹیو جابز کی ایک کال موصول ہوئی۔ اسٹیو جابز سے میری دوستی کچھ سالوں سے رہی ہے جس میں بعض مواقعوں پر گرمجوشی آتی رہی ہے خاص طور پر جب وہ کوئی نئی پروڈکٹ کی رُو نمائی کرنے جارہا ہوتا تھا اور چاہتا تھا کہ وہ ٹائم میگزین کے سرِ ورق کی زینت بنے یا سی این این پر اُس کی اسٹوری چلے۔ یہ وہ ادارے تھے جہاں میں اُس وقت کام کر رہا تھا۔ لیکن اب جبکہ میں ان دونوں میں سے کسی جگہ پر نہیں تھا تو اُس سے رابطہ بھی نہیں ہوا تھا۔ ہم نے کچھ تو ایسپن انسٹیٹیوٹ کے بارے میں بات کی، جہاں میں نے کچھ عرصہ قبل ہی پڑھانا شروع کیا تھا۔ میں نے اُس کو کولوراڈو میں ہمارے انسٹیٹیوٹ کے موسمِ گرما کے کیمپس سے خطاب کرنے کی دعوت دی۔ اُس نے کہا وہ بخوشی آنا چاہتا ہے لیکن اسٹیج پر نہیں۔ اس کی بجائے وہ واک کرنا پسند کرے گا تاکہ ہم بات کرسکیں
یہ کچھ عجیب سا لگا۔ اُس وقت تک میں یہ نہیں جانتا تھا کہ طویل چہل قدمی کرنا سنجیدہ گفتگو کرنے کے لئے اُس کا ترجیحی طریقہ کار تھا۔ حاصل اُس کا یہ تھا کہ وہ چاہتا تھا کہ کہ میں اُس کی خود نوشت لکھوں۔ میں نے کچھ ہی عرصہ پہلے بینجمن فرینکلن کی سوانح حیات لکھی تھی اور البرٹ آئن سٹائن کی سوانح پر کام کر رہا تھا۔ میرا ابتدائ ردّ عمل حیرت اور تمسخر کے ساتھ تھا کہ کیا وہ اپنے آپ کو بینجمن فرینکلن اور البرٹ آئن سٹائن کی صف میں کھڑا پاتا ہے۔ کیونکہ میں یہ سمجھتا تھا کہ وہ ابھی بھی اپنے گھٹتے بڑھتے کیریر کے درمیان میں ہے جس میں ابھی کئ عروج و زوال باقی ہیں۔ میں نے کہا ابھی نہیں، شائد اگلے دس یا بیس سالوں میں جب تم ریٹائر ہو جائو
میں اُس کو 1984 سے جانتا ہوں جب وہ مین ہٹن آیا تھا کہ ٹائم میگزین کے ایڈیٹرز کے ساتھ لنچ کرسکے اور ایپل کے نئے میکنٹوش کمپیوٹر کا تعارف کرو اسکے۔ وہ اُس وقت بھی تُند مزاج تھا اور ٹائم کے ایک نامہ نگار کے ساتھ اُس کا رویہ جارحانہ تھا کہ اُس نے اُسے ایک ایسی اسٹوری سے زک پہنچائی تھی جس میں بہت انکشافات تھے۔ لیکن اُس سے بعد میں بات کرکے مجھے اپنا آپ اُس کا اسیر محسوس ہوا، جیسا کہ اور بھی بہت سے لوگوں کا اُس کی شخصیت کے بارے میں یہی خیال تھا۔ ہمارا تعلق ایک دوسرے سے قائم رہا حتّیٰ کے اُسے ایپل سے نکالے جانے کے بعد بھی۔ جب اُسکو کوئی نئی چیز متعارف کرانی ہوتی تھی، جیسا کہ اگلا کمپیوٹر یا پکسار مووی، اُسکی مسکراہٹ کا مرکز میری ذات ہوجاتی اور وہ مجھے نشیبی مین ہٹن کے سوشی ریسٹورنٹ لے جاتا، یہ کہنے کے لئے کہ وہ جو کچھ بھی تشہیر کر رہا ہے اُسکے اب تک کے کئے جانے والے کام میں سے بہترین کام ہے۔ مجھے وہ اچّھا لگا۔
جب اُس کو ایپل میں بحال کردیا گیا تو ہم نے اُس کی تصویر ٹائم میگزین کے سرِورق پر شایع کی، اور اُس کے بعد جلد ہی ایک سلسلے کے لئے، جو ہم اس صدی پر اثر انداز ہونے والوں پر کرنا چاہ رہے تھے، اپنے خیالات پیش کرنے لگا۔ وہ اپنی مہم " سوچو مختلف" ( Think Different) شروع کر چکا تھا جس میں شامل چند مشہور شخصیات وہی تھیں جو ہمارے بھی زیرِ غور تھے۔ اور ان تاریخی اثرات کا جائزہ لینے کی کوششوں کو وہ دلچسپ سمجھتا تھا۔
اُس کی سوانح حیات لکھنے کی تجویز کو جب سے میں نے رد کیا تھا اُس وقت سے اُس نے مجھ سے زیادہ رابطہ رکھنا شروع کردیا تھا۔ ایک موقع پر میں نے اُس سے یہ تصدیق کرنے کے لئے کہ ایپل کے لوگو کا ماخذ کیا برطانیہ کا کمپیوٹر موجد ایلن ٹیورنگ ہے جس نے جرمنی کا جنگ کے زمانے کا خفیہ کوڈ توڑا تھا اور سائنائڈمیں بجھا ہوا سیب کھا کر خودکشی کرلی تھی، یہ بات مجھ کو میری بیٹی نے بتائ تھی۔ اُس نے جواب دیا کاش اُس نے ایسا ہی سوچا ہوتا لیکن ایسا نہیں تھا۔ اس کے کے نتیجے میں ایپل کی ابتدائ تاریخ کے بارے میں معلومات کا تبادلہ شروع ہوا اور میں نے اپنے آپ کو کتاب کا ابتدائ کام کرتے ہوے پایا اس صورت میں کہ میں یہ کتاب لکھنے کا فیصلہ کروں۔ جب میری لکھی ہوی آئن سٹائن کی سوانح عمری شایع ہوئ تو پالو آلٹو میں ہونے والی کتاب کی ایک نشست میں وہ آیا اور علیحدگی میں لے گیا تاکہ ایک دفعہ پھر یہ مشورہ دے سکے کہ وہ ایک اچھا موضوع ثابت ہوسکتا ہے۔
اُس کی استقامت نے مجھے چکرا کر رکھ دیا۔ وہ اپنی خلوت کو کسی کے ساتھ شریک نہ کرنے کے حوالے سے مشہور تھا اور میرے پاس کوئ وجہ نہیں تھی کہ میں یہ یقین کروں کہ اُس نے کبھی میری کتاب پڑھی بھی ہوگی۔ شائد کسی دن ، میں مسلسل یہی کہتا۔لیکن 2009 میں اُس کی بیوی نے دو ٹوک انداز میں کہا
" اگر تم نے کبھی اسٹیو پر کتاب لکھنی ہے تو بہتر ہے ابھی لکھو"۔ وہ اپنی دوسری طبّی تعطیلات لے چکا تھا۔ میں نے اُس سے اقرار کیا کہ جب اسٹیو نے پہلی بار کتاب کا خیال پیش کیا تھا تو مجھے علم نہیں تھا کہ وہ بیمار ہے۔ اُس نے کہا تقریباً کسی کو بھی پتہ نہیں تھا کہ وہ بیمار ہے۔ اُس کی بیوی نے بتایا کہ کینسر کے آپریشن کے لئے جانے سے ٹھیک پہلے اُس نے مجھے بلایا اور وہ ابھی تک اس کو (اپنی بیماری کو) خفیہ رکھ رہا تھا۔
میں نے تب اس کتاب کو لکھنے کا فیصلہ کیا۔ جابز نے مجھے اُس وقت حیران کردیا جب اُس نے آسانی سے یہ تسلیم کرلیا کہ اِس کتاب پر اُس کا کوئ اختیار نہیں ہوگا اور یہاں تک کہ وہ قبل از اشاعت اُس کو دیکھے گا بھی نہیں۔ "یہ تمھارے کتاب ہے" اُس نے کہا۔ " میں اِس کو پڑھوں گا بھی نہیں" لیکن اُس کے بعد جب خزاں آئ تو ایسا لگا کہ اُس نے تعاون کرنے کے معاملے پر نظرِ ثانی کی ہے، اگرچہ کہ مجھے پتہ نہیں تھا، وہ کینسر کی پیچیدگیوں کے دوسرے مرحلے کا شکار ہوا تھا۔ اُس نے میری کالز کا جاب دینا بند کردیا تھا، اور میں نے کتاب لکھنے کے منصوبہ کو کچھ عرصے کے لئے ملتوی کردیا تھا۔
پھر، غیر متوقع طور پر، اُس نے سن 2009 کی پہلی سہ پہر مجھے فون کیا۔ وہ اپنے گھر پر، پالو آلٹو میں، صرف اپنی بہن، مونا سمپسن، کے ساتھ تھا۔ اُس کی بیوی اور اُن کے تین بچّے اسکیئنگ کے ایک مختصر دورہ پر گئے تھے، لیکن وہ اتنا صحت مند نہیں تھا کہ اُن کا ساتھ دے سکتا۔ وہ بات کرنے کے موڈ میں تھا ، اور ہم نے ایک گھنٹے سے زیادہ بات کی۔ اُس نے یاد کرتے ہوئے شروع کیا کہ وہ ایک فریکئونسی کاؤنٹر بنانا چاہتا تھا جب وہ بارہ سال کا تھا اور اُس نے فون بک میں بل ہیولٹ ( HP کے بانی) کو دیکھ کر اُس کو فون کیا کہ پرزے حاصل کرسکے۔جابز نے کہا کہ پچھلے بارہ سال میں، جبکہ وہ ایپل واپس آیا ہے، نئ مصنوعات بنانے کے سلسلے میں اُس کے بہترین سال رہے ہیں۔ لیکن اُس سے بھی زیادہ اہم اُس کا مقصد وہ کرنا ہے جو ہیولٹ اور اُس کے دوست ڈیوڈ پیکارڈ نے کیا ہے، یعنی ایک ایسی کمپنی کی تخلیق جو جدید تخلیقی صلاحیتوں سے اتنا مالا مال ہو کہ اُن کو بھی پیچھے چھوڑ دے۔
"میں نے بچپن میں ہمیشہ اپنے آپ کو ہیومینیٹیز کرتے ہوئے دیکھا لیکن مجھے( برقیات) ایلیکٹرونکس پسند تھی،" اُس نے کہا۔ " پھر میں نے اپنے ایک ہیرو، ایڈون لینڈ، کو اُن لوگوں کی اہمیت کے بارے میں یہ کہتے ہوے سنا جو ہیومینیٹیز اور سائنس کے سنگم پر کھڑے ہو سکیں، اور میں نے یہ فیصلہ کرلیا کہ مجھے ایسا بننا ہے۔" یہ بالکل ایسا ہی تھا کہ وہ اپنی سوانح کا مرکزی خیال تجویز کررہا تھا ( اور اس صورتِحال میں، کم سے کم، یہ مرکزی خیال صحیح بھی نکلا)۔ وہ تخلیقی صلاحیت جو ظہور پزیر ہوسکتی ہے جب ہیومینیٹیز اور سائنس ایک مضبوط شخصیت میں یکجا ہو جائیں، ایک ایسا موضوع تھا جن میں میری گھری دلچسپی تھی جب میں فرینکلن اور آئنسٹائن کی سوانح حیات کررہا تھا، اور میرا یقین ہے کہ یہ اکیسویں صدی میں اختراعی معیشت بنانے کی کنجی ہے
میں نے جابز سے پوچھا کہ وہ یہ کیوں چاہتا ہے کہ میں اُس کی سوانح حیات لکھوں۔ " میں سمجھتا ہوں کہ تم میں یہ صلاحیت ہے کہ لوگوں سے بات کرواسکو"، اُس نے جواب دیا۔ یہ ایک خلافِ توقع جواب تھا۔ مجھے معلوم تھا کہ مجھے اُن لوگوں سے انٹرویو کرنا پڑے گا جن کو اُس نے نوکری سے نکالا ہوگا، گالی دی ہوگی، ترک کیا ہوگا، یا دوسری صورت میں مشتعل کیا ہوگا، اور مجھے ڈر تھا کہ میرے اُن سے بات کرنے سے وہ پرسکون نہیں ہوگا۔ اور دراصل وہ مضطرب ہوا بھی جب اُن لوگوں کے الفاظ اُس کے کانوں میں پہنچے، جن کا میں انٹرویو کررہا تھا۔ لیکن کچھ مہینوں بعد اُس نے لوگوں کی حوصلہ افزائ کرنی شروع کردی کہ وہ مجھ سے بات کریں، حتّی کہ جو حریف تھے، سابقہ گرل فرینڈز۔ اُس نے چیزوں کو میری پہنچ سے دور رکھنے کی بھی کوشش نہیں کی۔ ا"اُس نے کہا، " میں نے زندگی میں کئ ایسی چیزیں کی ہیں جن پر مجھے فخر نہیں ہے، جیسے میں نے تیئیس سال کی عمر میں اپنی گرل فرینڈ کو حاملہ کردیا تھا اور جس طریقہ سے میں نے اس صورتحال کا سامنا کیا تھا۔" اُس نے کہا، "لیکن میری زندگی میں اتنا بھی نہیں ہے کہ میں چھپائوں۔" اُس نے کتاب کے متن کے بارے میں کہ میں کیا لکھتا ہوں کوئ اختیار نہیں حاصل کیا، نہ ہی اُس کو پہلے سے پڑھنے کے لئے کوئ اصرار کیا۔ اُس کی شمولیت صرف اُس وقت ہوئ جب ناشر سرِورق کے بارے میں فیصلہ کررہا تھا۔ اُس نے جب سرِورق کا ابتدائ نمونہ دیکھا تو اُس نے اس کو اتنا ناپسند کیا کہ اُس نے دوسرے نمونہ کے لئے اپنی رائے دینے کی اجازت مانگی۔ مجھے خوشگوار حیرت بھی ہوئ اور میں نے آسانی سے اُسے اجازت بھی دے دی
میری اُس کے ساتھ چالیس سے زیادہ ملاقاتیں اور گفتگوئیں ہوئیں۔ جن میں سے کچھ اُس کے پالو آلٹو کے گھر کے لیونگ روم میں باقائدہ ملاقاتیں تھیں، جبکہ دیگر لمبی چہل قدمی کرتے ہوئے، ڈرائیو کرتے ہوئے یا ٹیلی فون پر کی گئیں۔ میری دو سال کی آمدورفت کے دوران وہ مزید گہرائ میں جاکر انکشافات کرنے لگا اگرچہ بعض دفعہ میں نےاُس چیز کا مشاہدہ کیا کہ جس کو اُس کے سابقہ ساتھی اُس کی "حقائق کو مسخ کرنے کی عادت کہتے تھے"۔ بعض دفعہ وہ نادانستہ طور پر ہماری دماغی کیفیت ہوتی ہے جو ہم سب کے ساتھ ہوتی ہے؛ اور بعض دفعہ وہ حقیقت کے بارے میں اپنے نکتہ نظر کو اپنے اور میرے دونوں کے لئے توڑ مروڑ رہا ہوتا تھا۔ اُس کی کہانی کی تصدیق کے لئے میں نے اُس کے سو سے زیادہ دوستوں، رشتہ داروں، حریفوں، مخالفوں اور ساتھیوں سے ملاقاتیں کیں۔
اُس کی بیوی نے بھی کتاب پر کسی قسم کےاختیار یا پابندی کی درخواست نہیں کی، نہ ہی اُس نے اُس متن کو پہلے سے دیکھنے کی بات کی جو میں شایع کرنے والا تھا۔ درحقیقت اُس نے میری بڑی حوصلہ افزائ کی کہ میں اُس کی ناکامیوں اور اُس کی طاقت کے بارے میں ایماندار رہوں۔ وہ اُن چند تیز اور مضبوط لوگوں میں سے ہے جن سے میں کبھی ملا ہوں۔ " اُس کی زندگی اور شخصیت کے کچھ گوشے ہیں جو بہت ابتر ہیں اور وہ حقیقت ہیں" اُس نے قبل ازیں مجھے کہا۔ " تم نے ہرگز اُن کو نہیں دھو ڈالنا۔ وہ توڑنے مروڑنے میں ماہر ہے، لیکن اُس کے پاس ایک شاندار کہانی ہے، اور میں چاہتی ہوں کہ وہ سچّائ کے ساتھ بیان کی جائے۔"
میں یہ قاری پر چھوڑتا ہوں کہ وہ اس بات کا فیصلہ کریں کہ کیا میں اس مہم میں کامیاب ہوا۔ مجھے یقین ہے کہ اس دوران میں کچھ کردار ایسے ہیں جو کچھ واقعات کو مختلف انداز میں یاد کریں گے یا سوچیں گے کہ بعض اوقات میں جابز کی غلط بیانی کے جال میں پھنس گیا تھا۔ ایسا تب ہوا جب میں ہینری کیسینجر کے بارے میں کتاب لکھ رہا تھا، جو کہ کچھ انداز میں اس منصوبہ کے لئے اچھی تیاری تھی، میں نے جانا کہ لوگوں کے جابز کے بارے میں بہت شدید منفی اور مثبت قسم کے جزبات ہیں اور اس میں Rashomon effect( یعنی ایک ہی واقعہ کی متضاد تشریح ہونا) بہت نمایاں تھا۔ لیکن میں نے اپنی بہترین کوشش کی کہ متنازع واقعات کے حوالے سے توازن رکھوں اور اپنے ذرائع کے بارے میں شفّاف رہوں۔
یہ کتاب گہری شخصیت کی حامل ایک تخلیقی انٹرپرینیئر (entrepreneur ) کی اتار چڑھائو سے بھر پور زندگی کے بارے میں ہے جس کی کمالِ فن کے جذبہ اور جارحانہ طرز نے چھ صنعتوں میں انقلاب برپا کردیا: پرسنل کمپیوٹر، animated موویز، موسیقی، فون، ٹیبلٹ کمپیوٹنگ اور ڈیجیٹل پبلشنگ۔۔ آپ اس میں ساتویں صنعت، ریٹیل اسٹورز کی شامل کرسکتے ہیں، جس میں جابز اگرچہ انقلابی تبدیلی نہیں لایا لیکن اُس کے بارے میں سوچا ضرور۔ اس کے ساتھ ساتھ اُس نے ڈیجیٹل مواد کے لئےویب سائٹس کے برخلاف Apps کی بنیاد پر نئ منڈی کی راہیں کھولیں۔ اس راستے پر اُس نے نہ صرف مصنوعات کو تبدیل کیا بلکہ، اپنی دوسری کوشش میں ایک ایسی دیرپا کمپنی بنائ، جس پر اس کی شخصیت کی گہری چھاپ تھی، اور جس میں ایسے ڈیزائنرز اور بہادر انجینیئرز بھرے پڑے تھے جو اُس کے وژن کو لے کر آگے بڑھ سکتے تھے۔ اگست 2011 میں ٹھیک اُس سے پہلے جب وہ سی ای او کے عہدے سے ہٹا، وہ ادارہ جو اُس نے اپنے والدین کے گیراج سے شروع کیا تھا دنیا کا سب سے اہم ادارہ بن چکا تھا
یہ کتاب بھی، میں اُمید کرتا ہوں ایجاد کے بارے میں ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب ریاست ہائے متحدہ امریکہ ایسے راستے تلاش کررہا ہے تاکہ اپنی ایجادات کا پلڑا بھاری رکھ سکے اور جب دنیا بھر کے معاشرے یہ تگ و دو کر رہے ہیں کہ ڈیجیٹل عہد کی اختراعی اقتصادیات بنا سکیں، جابز کی شخصیت اختراع، تخیل، اور دیرپا ایجاد کی مشعلِ راہ بن کر کھڑی ہے۔ وہ جانتا تھا کہ اکیسویں صدی میں اہمیت بنانے کا بہترین طریقہ کہ تخلیق کو ٹیکنالوجی سے جوڑا جائے، تو اُس نے ایک ایسی کمپنی بنائ جہاں تخیلات کی راہوں کو بہترین انجینیئرنگ کے ساتھ ملایا گیا۔ وہ اور اُس کے ایپل کے ساتھی مختلف انداز میں سوچنے کے قابل ہوسکے: اُنھوں نے نہ صرف فوکس گروپ کے سہارے انتہائ جدید مصنوعات بنائیں، بلکہ ایسے نئے آلات اور سہولیات جو کہ صارف اُس وقت تک جانتا ہی نہیں تھا کہ اُسے اُس کی ضرورت ہے۔
وہ کوئ مثالی باس یا انسان نہیں تھا، کہ اُس کی پیروی کی جائے۔ شیطانیت سے بھرپور وہ اپنے اطراف موجود لوگوں کو غصہ دلاسکتہ تھا، مایوسی کی طرف دھکیل سکتا تھا۔ لیکن اُس کی شخصیت، جذبہ، اور مصنوعات ان سب کا آپس میں ربط تھا، بلکل اُسی طرح جیسے ایپل کا ہارڈویئر اور سافٹ ویئر ایک مربوط نظام کا حصہ لگتا ہے۔ اس کی کہانی اس لئے نصیحت آموز ہونے کے ساتھ ساتھ سبق آموز بھی ہے جو ایجادات، کردار، قیادت، اقدار کے اسباق کے ساتھ ہے۔
شیکسپیئر ہنری پنجم ۔ ایک خود پسند اور اور نابالغ شہزادہ کی کہانی جو کہ جزباتی مگر حسّاس، کٹھور مگر جزباتی، متاثر کن لیکن ناقص بادشاہ بن جاتا ہے۔۔۔نصیحت سے شروع ہوتی ہے
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...