وقت کا سفر جاری رہے گا ایک جینیئس کی موت سے وقت کا سفر رک نہیں جائے گا
سٹیون ہاکنگ
کی موت کی خبر ہمارے عہد کے سب سے بڑے انسان کو موت کی خبر ہے
1963 میں ڈاکٹروں نے انھیں بتلایا تھا کہ وہ صرف دو برس ہی زندہ رہ پائیں گے
اس وقت وہ اکیس برس کے تھے ان پر لو گیرگ بیماری LOU GEHRIG’S DISEASE جس کو MOTOR NEURON DISEASE بھی کہتے ہیں، کا حملہ ہوا تھا جس میں انسان کا جسم آہستہ آہستہ مفلوج اور معذور ہو جاتا ہے۔ ڈاکٹروں نے اس بیماری کی تشخیص کی تھی اور ہاکنگ کو بتایا گیا تھا کہ وہ صرف دو سال زندہ رہ سکیں گے۔ لیکن ہاکنگ کا حوصلہ نہیں ٹوٹ سکا وہ زندہ رہنا چاہتا تھا۔ بعد میں انکی بیماری بہت ہی آہستہ آہستہ آگے بڑھی اور وہ معذوری اور بہت سی مخصوص حالات میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوئے مگر انھوں نے اسے اپنی لاچاری اور مجبوری کا سبب نہیں بنایا۔ بلکہ ایک ایسی بھرپور فعال زندگی گزاری کہ تندرست اور صحت مند انسان بھی ایسی زندگی نہیں گزار سکتے
ہاکنگ 1942 میں انگلستان کے شہر اکسفورڈ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کو طب اور ان کی والدہ کو سیاست اور فلسفے سے گہرا لگائو تھا۔
اگرچہ بیماری کے اثرات نے انہیں آہستہ آہستہ مفلوج و معذور بنا کر جسمانی طور پر ویل چیر تک محدود کر دیا لیکن اس کے باوجود وہ ذہنی طور پر اپنا تحقیقی اور تخلیقی کام کرتے رہے۔ ان کی کتاب
A BRIEF HISTORY OF TIME
بہت مقبول ہوئی ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے پچھلے تین ہزار برس کی سائنس کا تجزیہ پیش کیا ہے۔ انہوں نے اپنی کتابون میں بتایا کہ یونانی فلاسفروں نے انسانیت کو منطق اور سائنسی فکر سے روشناس کرایا۔ اکیسویں صدی کے قابلِ احترام سائنسدانوں میں شمار ہوتے ہیں۔
سٹیون ہاکنگ جس وجہ سے عظیم ترین سائنسدانوں کی لسٹ میں شامل کئے گئے وہ ان کی بلیک ہول کی تھیوری تھی
ان کی سائنسی تھیوری کہ بلیک ہول BLACK HOLE ایک خاص طرح کی ریڈئیشن خارج کرتے ہیں اب درست ثابت ہو گئی ہے اور ہاکنگ ریڈئیشن HAWKING RADIATION کہلاتی ہے۔ ہاکنگ ایک طویل عرصے کیمبرج کی معتبر یونیورسٹی کے شعبہِ تحقیق کے ڈائرکٹر تھے۔ وہ اپنی جسمانی معذوری اور ویل چیر کی پابندی کے باوجود سماجی‘ سیاسی اور پیشہ ورانہ طور پر فعال زندگی گزارتے ہیں۔ انہیں دنیا کے بے شمار ایوارڈ مل چکے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ ان کے ذہن میں گلیلیو‘ نیوٹن اور آئن سٹائن یکجا ہو گئے ہیں۔ انہیں ساری دنیا کی یونیورسٹیوں سے دعوت نامے آتے ہیں۔ لوگ ان کی تقاریر بڑے شوق سے سنتے ہیں۔ وہ ان کی سنجیدہ گفتگو سے مسحور بھی ہوتے ہیں اور ان کے طنز و مزاح سے محظوظ بھی ہوتے ہیں۔
ہاکنگ نے زندگی میں دو شادیاں کیں۔ ان کی پہلی بیوی نے 2007 میں جو سوانح عمری چھاپی اس کا نام TRAVELLING TO INFINITY: MY LIFE WITH STEPHEN ہے۔ اس کتاب پر جو 2014 میں فلم بنی اس کا نام THE THEORY OF EVERYTHING ہے۔ہاکنگ نے سائنس کے علم کو مقبولِ عام بنایا۔ ہاکنگ ان نابغہِ روزگار سائنسدانوں میں سے ہیں جو ہر صدی میں چند ایک ہی پیدا ہوتے ہیں۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“