ایک امریکی بزنس مین کنگ جیلیٹ نے 1903 میں ایک نئی ایجاد متعارف کروائی۔ یہ ڈسپوزیبل ریزر تھا۔ اس ایجاد سے قبل شیو کرنے کے لئے سٹیل کے ریزر کو ہر شیو سے پہلے تیز کرنا پڑتا تھا۔ استرا تیز کرنے کے لئے چمڑا، جس میں سخت کاربن کے ذرات ہوں یا دوسرے کئے چیزیں استعمال کی جاتی تھیں۔ سٹیل کا ریزر بہت مہنگی چیز تھا جس کو سٹیل کے سب سے اونچے گریڈ سے بنایا جاتا تھا کیونکہ صرف یہی سٹیل بالوں کو بغیر توڑے کاٹ سکتا تھا۔ (اگر کسی نے کند بلیڈ سے شیو کی ہو تو وہ ایسا نہ کئے جانے سے ہونے والی تکلیف سے واقف ہو گا)۔ شیو کرنا حجام کا کام تھا۔
جیلیٹ نے نئے دریافت کردہ بیسمر پراسس سے سستے فولاد سے ایسے بلیڈ بنانا شروع کئے جن کو استعمال کے بعد کند ہو جانے کی صورت میں پھینکا جا سکتا تھا۔ پہلے سال بکنے والے ریزروں کی تعداد 51 اور بلیڈوں کی تعداد 168 تھی۔ اگلے سال 90884 ریزر اور 123648 بلیڈ بکے۔ 1915 تک جیلیٹ کی کمپنی اپنی مینوفیکچرنگ امریکہ کے علاوہ کینیڈا، برطانیہ، فرانس اور جرمنی تک پھیلا چکی تھی اور سات کروڑ سے زیادہ بلیڈ سالانہ تک پہنچ چکی تھی۔ یہ ہر باتھ روم کا آئٹم بنتا جا رہا تھا۔ اور آج بھی ہے۔ جب کوئی ماضی کی طرف جانے کو یاد کرتا ہے تو ماضی کے کند بلیڈ یقینی طور پر اس میں نہیں ہوتے۔
شیونگ بلیڈ کے اس کاروبار میں ایک نیا موڑ ابھی آنا تھا۔ اس قدر عجیب حد تک سادہ کہ یہ صرف حادثاتی طور پر ہی دریافت ہو سکتا تھا۔
یورپ میں پہلی جنگِ عظیم کی تیاری تھی۔ بہترین ہتھیاروں سے مسلح ہونے کی دوڑ میں ہیری برئیرلے کے پاس یہ ذمہ داری تھی کہ وہ دریافت کریں کہ کونسی مرکب دھات گن کی نالی بنانے کے لئے بہترین رہے گی۔ وہ شیفیلڈ میں میٹالرجی کی لیب میں کام کر رہے تھے۔ سٹیل میں مختلف چیزوں کا اضافہ کرتے، اس سے نمونہ تیار کرتے، سختی اور مضبوطی کا ٹیسٹ کرتے۔ برئیرلی کو یہ تو پتا تھا کہ سٹیل کاربن اور لوہے سے ملکر بنا ہے اور یہ بھی کہ دوسرے عناصر کے اضافے سے خاصیتیں بدل جاتی ہیں لیکن اس کا بالکل اندازہ نہیں تھا کہ آخر کیوں؟ لیکن تجربے سے نتائج دیکھ کر کام کر رہے تھے۔ کبھی ایلومینیم ڈال دیا تو کبھی کچھ اور۔
ان کو اس کوشش میں کوئی کامیابی نہیں مل رہی تھی۔ اپنے ناکام نمونے وہ ایک کونے میں پھینکتے جا رہے تھے۔ ایک خوش قسمت حادثہ اس وقت ہوا جب انہوں نے اپنے ضائع کر دئے جانے والے نمونوں پر نظر ڈالی۔ اس زنگ لگتے ڈھیر میں ایک چمک نظر آئی۔ بجائے اس کو نظر انداز کر دینے کے، انہوں نے وہ نمونہ نکالا اور اس کی اہمیت کا احساس ہوا۔ اس کو زنگ نہیں لگا تھا۔ انہوں نے اپنے ہاتھ میں دنیا کا پہلا سٹین لیس سٹیل کا نمونہ پکڑا ہوا تھا۔
کاربن اور کرومیم کی ٹھیک مقدار کے اضافے سے انہوں نے بڑا ہی خاص کرسٹل سٹرکچر تیار کر لیا تھا۔ کاربن اور کرومیم دونوں ہی لوہے کے کرسٹل میں داخل ہو جاتے ہیں۔ کرومیم اس کو مضبوط تو نہیں کرتا (اس وجہ سے اسے پہلے پھینک دیا گیا تھا) لیکن اس سے زیادہ دلچسپ کام کرتا ہے۔ فولاد ہوا اور پانی میں زنگ کھا جاتا ہے۔ زنگ کا سرخ سفوف آئرن آکسائیڈ ہے۔ جب یہ زنگ اترتا ہے تو اگلی تہہ تک جاتا رہتا ہے۔ سٹیل کے سٹرکچر کے لئے یہ بڑا مسئلہ ہے۔ اس وجہ سے سٹیل کے پل ہوں یا گاڑیاں، ان کو رنگ کرنا پڑتا ہے۔ لیکن جب کرومیم اس میں موجود ہو تو کچھ مختلف ہو جاتا ہے۔ کرومیم آکسیجن سے خود بڑھ کر تپاک سے ملتا ہے اور کرومیم آکسائیڈ بنا دیتا ہے۔ یہ شفاف اور سخت تہہ سٹیل پر مضبوطی سے چپک جاتی ہے۔ یہ ایک حفاظتی تہہ بن جاتی ہے اور آکسیجن لوہے سے ملاپ نہں کر سکتی۔ اس پر اگر سکریچ بھی پڑ جائے تو یہ خود مرمت کر لیتی ہے یعنی کرومیم کے آکسائیڈائز ہو جانے کے بعد یہ تہہ دوبارہ بن جاتی ہے۔
بعد میں رئیرلے نے سٹیل لیس سٹی کے چاقو بنائے لیکن تیز دھار نہ ہونے کی وجہ سے ناکام رہے لیکن ان کا کچن میں ایک اور بڑا مقبول استعمال انہوں نے شروع کیا جو اب دنیا بھر میں ہے، کچن کا سنک۔ سٹین لیس سٹیل اب کی جدید دنیا کی علامت ہے۔ مضبوط، سستا، چمکدار اور صاف لگنے والا۔ سو سال سے بھی کم مدت میں یہ وہ دھات بن گئی ہے جس سے ہم سب سے زیادہ واقف ہیں۔ اس کے بنے چمچے ذائقے میں اپنا اضافہ نہیں کرتے کیونکہ کرومیم آکسائیڈ بے ذائقہ ہے اور لعاب سے کسی قسم کا ری ایکشن نہیں کرتی۔ ہم وہ پہلی جنریشن ہیں جس کو اپنی کٹلری کو نہیں چکھنا پڑتا۔
سٹین لیس سٹیل کو مضبوط بنا کر میٹالرجسٹس نے ایک اور مسئلہ حل دیا جو ریزر کو زنگ لگنے کا تھا اور شیو کرنے کے لئے نفیس کٹنگ بلیڈ بنانا ممکن کر دیا، جس کے اثرات دنیا بھر میں لوگوں کے چہروں اور جسموں پر نظر آتے ہیں۔ سٹین لیس ٹیل زنگ نہ لگنے کی وجہ سے تعمیرات، برتنوں، زیورات، کیمیکلز، کھانے کی پیکنگ، ادویات، پائپ، صنعت، ٹرانسپورٹ، راکٹ، پاور سٹیشن، اسلحہ وغیرہ میں استعمال ہوتا ہے۔
ساتھ لگی تصویر جیلیٹ سیفٹی ریزر کے چند پیٹنٹ کی۔