اسپینوزا کے مطابق خدا نے کہا ہوگا،
دعا کرنا اور اپنے سینے کو پیٹنا چھوڑ دو۔
میں چاہتا ہوں کہ تم زندگی سے لطف اٹھاو۔
میں چاہتا ہوں کہ تم گاو، کھیلو اور لطف اٹھاو ان چیزوں سے جو میں نے تمہارے لئے بنائے ہیں۔
ان اداس حال، اندھیرے اور ٹھنڈے گرجا گھروں میں جانا چھوڑ دو جو تم نے خود بنائے ہیں اور خیال کرتے ہو کہ یہ میرا گھر ہے۔
میرا گھر پہاڑ، جنگل، دریا، جھیلیں اور ساحل ہے جہاں میں رہتا ہوں اور تم سے محبت کا اظہار کرتا ہوں۔
اپنی دکھ بھری اور غربت زدہ زندگی کے لئے مجھ پر الزامات لگانا بند کرو۔
میں نے کبھی نہیں کہا کہ تم نے کچھ غلط کیا ہے تبھی تم غریب ہو،
نا ہی یہ کہا کہ تم گنہگار ہو،
یا تمہاری جنسیت خراب ہے۔
سیکس ایک ایسا تحفہ ہے جو میں نے تمہیں دیا ہے جو تمہیں محبت اور خوشی کا احساس دیتا ہے۔
مجھے ہر اس بات کا الزام نہ دو جس کا تم نے خود سے یقین کرلیا ہے۔
ان مقدس صحیفوں کو پڑھنا بند کرو
جن کا مجھ سے کوئی لینا دینا نہیں۔
اگر تم مجھے ابھرتے صبح کے خوبصورت مناظر میں، اپنے دوستوں کی آنکھوں میں نہیں دیکھ سکتے تو پھر تم مجھے کسی کتاب میں بھی نہیں ڈھونڈ پاو گے۔
مجھ پر بھروسہ رکھو اور مجھ سے رو رو کر درخواستیں کرنا بند کرو۔
مجھ سے ڈرنا بند کرو۔
میں تمہارا کوئی فیصلہ نہیں کرتا۔
میں تم پر تنقید نہیں کرتا۔
میں تمہیں اذیت نہیں دیتا
نا ہی تمہیں سزا دیتا ہوں۔
میں صرف محبت ہوں۔
مجھ سے معافی مانگنا بند کرو۔
معاف کرنے کو کچھ نہیں ہیں۔
اگر میں نے تمہیں پیدا کیا تو میں نے تمہیں جذبے، خوشی، احساس، ضروریات، تضادات اور آزادانہ خواہش سے بھر دیا۔
اگر تم صرف اسی کے مطابق کوئی ردعمل ظاہر کرتے ہو جو میں نے تمہارے اندر تخلیق کیا ہیں تو میں تم پر کس طرح الزام لگا سکتا ہوں؟
اگر میں نے ہی تم کو ایسے پیدا کیا ہے تو میں پھر تمہیں کس طرح سزا دے سکتا ہوں؟
کیا تمہیں لگتا ہے کہ میں اپنے تمام بچوں کو جلانے کے لئے ایسی جگہ تیار کرسکتا ہوں جو صحیح کام نہیں کرتے؟
کیا خدا ایسا کرسکتا ہے؟
بھول جاو
ہر اس حکم اور قانون کو جو تم پر قابو پانے کی تدبیریں ہیں،
جو تمہیں مجرم بناتی ہیں۔
اپنے پڑوسی کا احترام کرو اور دوسروں کے ساتھ وہ سلوک نہ کرو جو تم اپنے ساتھ نہیں ہونا چاہتے۔
اپنی زندگی پر توجہ دو،
اپنی ذہنی کیفیت کو اپنا راہنما بناو۔
یہ زندگی آزمائش نہیں ہے،
امتحان نہیں ہے،
نا ہی جنت کا پیش خیمہ ہے۔
یہی سب کچھ ہیں،
جو یہاں ہیں،
اب ہیں
اور تمہیں اس کی ضرورت ہے۔
میں نے جو کیا بالکل مفت کیا۔
کوئی انعام نہیں،
کوئی جرمانہ نہیں،
کوئی گناہ یا فضیلت نہیں،
کوئی اسکور بورڈ نہیں،
کوئی ریکارڈ نہیں توڑ رہا،
تم اپنی زندگی کو جنت یا جہنم بنانے کے لئے بالکل آزاد ہو۔
میں تمہیں یہ نہیں بتا سکتا کہ تمہاری زندگی کیا ہے،
البتہ میں تمہیں ایک مشورہ دے سکتا ہوں،
جیو ایسے جیسے تمہارے پاس صرف آج ہے،
جیسے یہ تمہارا آخری موقع ہے محبت کرنے کا،
جیسے یہی تمہاری پہلی اور آخری زندگی ہو۔
لہذا جب تمہیں یہ یقین ہوجائے تو تم ہر موقع سے لطف اندوز ہوں گے جو میں نے تم کو دیا ہے۔
یقین کرو میں تم سے نہیں پوچھوں گا کہ تم نے اچھا سلوک کیا ہے یا نہیں۔
ہاں۔ میں تم سے یہ پوچھنے جا رہا ہوں
کہ
کیا تمہیں زندگی پسند ہے؟
تمہیں سب سے زیادہ کیا پسند ہے؟
اور تم نے کیا سیکھا؟
مجھ پر یقین کرنا چھوڑ دو۔
یقین صرف اندازہ لگانا اور تصور کرنا ہے۔
میں نہیں چاہتا کہ تم مجھ پر یقین کرو،
میں چاہتا ہوں کہ تم مجھے محسوس کرو،
جب تم اپنے محبوب کے ہونٹ چومتے ہو،
جب تم اپنی چھوٹی بچی کو گلے لگاتے ہو،
جب تم اپنے کتے کو پیار کرتے ہو،
جب تم سمندر میں نہاتے ہو
تب تم مجھے محسوس کرو۔
میری تعریف کرنا چھوڑ دو۔
تمہیں کیا لگتا ہے
کہ
میں کوئی مصری دیوتا ہوں جو تمہاری تعریف کرنے پہ خوش ہوجاتا ہوں؟
میں پریشان ہوں کہ تم میری تعریف پہ تعریف کئے جارہے ہو۔
ستائش کرتے ہوئے تھک گئے ہو۔
میں تمہاری شکر گزاری سے تنگ آگیا ہوں۔
کیا تم شکر گزار ہو؟
اگر تم واقعی شکر گزار ہو تو اس شکر گزاری کو اپنی زندگی، اپنی صحت، اپنے تعلقات اور اپنی دنیا کی دیکھ بھال کرکے دکھاو۔
خوشی کا اظہار کرکے دکھاو۔
میری تعریف کا یہی واحد راستہ ہے۔
باتوں کو جوڑنا اور طوطے کی طرح بار بار ایک ہی بات دہرانا بند کرو۔
تمہیں میرے بارے میں مزید سیکھنے کی ضرورت نہیں۔
صرف اتنا ہی سیکھ لو
کہ
تم یہاں ہو،
تم زندہ ہو،
اور یہ دنیا معجزوں سے بھری ہوئی ہے۔
تمہیں مزید معجزوں کی کیا ضرورت ہے؟
اتنی وضاحت کیوں چاہتے ہو؟
مجھے باہر تلاش کرنا بند کرو۔
تم مجھے باہر کہیں نہیں ڈھونڈ پاو گے۔
مجھے تم میں ڈھونڈو۔
میں تم میں ہی موجود ہوں۔
محبت کے نام سے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...