قدیم یونانی جب یونانی کے علاقہ میں آئے تھے اور انہوں نے مختلف جگہوں پر اپنی آبادیاں قائم کیں ۔ جسے وہ پولیس یعنی شہر کہتے تھے ۔ لیکن حقیقت میں یہ شہری ریاستیں تھیں ۔ یہ شہری ریاستیں چھوٹے چھوٹے جزیروں میں بھی قائم تھیں اور ان کی تعداد سکیڑوں میں تھی ۔ ارسطو کہا کہنا ہے جزیروں کو چھوڑ کر ان کی تعداد ۱۵۷ تھی ۔ ان کی زبان اگرچہ ایک تھی مگر ان میں سیاسی اتحاد نہیں تھا اور یہ آپس میں لڑتی رہتی تھیں ۔ ان شہروں یا ریاست کے باشندے اپنے کو آزاد لوگ کہتے تھے ۔ یعنی ایک خاص آئین ، قوانیں کے مطابق زندگی بسر کرتے تھے ۔ ان لوگوں کو سیاسی آزادی حاصل تھی اس لیے وہ سیاسی مسائل پر آزادنہ بحث کرتے اور اکثریت کی رائے ہر چیز پر غالب رہتی تھی ۔
ان اجتماعات کے لیے شہر کے شروع میں کسی محفوظ مقام پر اجتماع گاہ بنائی جاتی تھی ۔ ہر ریاست خود کفیل تھی اور اپنی حفاظت خود کرتی تھی ۔ ان ریاستوں لوگ عموماً ایک جگہ آباد نہیں تھے ۔ عاہم طور پر لوگ ادھر ادھر آباد تھے ، جہاں وہ مختلف کام کرتے تھے ۔ لیکن خطرے یا جنگ کے موقع پر وہ سمٹ کر پہاڑی قلعوں میں آجاتے تھے ۔ یہ ریاستیں اپنی شہریت کے حقوق قریب کی بستیوں کو بھی دے دیا کرتے تھے ۔ ایسا بھی ہوتا تھا کہ کئی یا بہت سی ریاستیں مل کر اپنی حفاظت کے لیے ایک لیگ بنا لیتی تھیں اور متحد ہوکر دشمنوں سے جنگ لڑا کرتی تھیں ۔ اس طرح امن کے زمانے میں عبادت ، کھیل اور تہواروں کے موقع پر بھی جمع ہوتے تھے ۔
یونان میں کئی جگہیں ایسی تھیں جو کہ مقدس کہلاتی تھیں ۔ ان میں مشہور ڈیلفی کا اپولو مندر مشہور تھا ۔ یہاں ہر دو سال کے بعد ایک بڑا میلا لگا کرتا تھا ۔ یہاں تمام یونان سے لوگ عبادت ، ہاٹف غیبی (کسی معاملے میں دیوتاؤں رائے معلوم کرنے کے لیے) ، انصاف یا امن اور کھیلوں کے لیے جمع ہوتے تھے ۔ اس اجتماعات میں یونان کی مختلف رہاستوں کے نمائندے باہمی رائے زنی کے لیے جمع ہوتے تھے اور اس مجلس کو ایمفکیٹونک کونسل کہتے تھے ۔ ان ریاستوں میں دو ریاستیں ممتاز تھیں ۔ ایک اٹیکا جس کو ایتھنز بھی کہا جاتا ہے ۔ ایتھنز عہد قدیم میں یونان کا علم و فنون ، تہذیب و تمدن کا مرکز بھی رہا ہے ۔ اس لیے اس شہر کے دروازے سب کے لیے کھلے ہوئے تھے ۔ جہاں لوگوں کی مرضی سے حکومت کی جاتی تھی ۔ دوسری یونانی ریاست اسپارٹا تھی ۔ قدیم یونان کی تاریخ دو ان ریاستوں کی کشمش پر مشتمل ہے ۔
سپارٹا کا شہر پیلوپونیس کے جنوبی ساحل سے تقریباً پچیس میل دور لاکونیا کہ ایک کنارے پر واقع تھا ۔ مونٹ ٹیگیٹس کا پہاڑ اس کے میدان کے مغربی حصے پر پھیلا ہوا تھا ۔ یہ قدیم شہر تھا اور اسے ۱۰۰۰ ق م سے پہلے ڈورین نسل کے لوگوں نے آباد کیا تھا ۔ اس شہر میں ڈروین لوگوں کے علاوہ دوسروں کا داخلہ ممنوع تھا ۔ اگرچہ شہر عالموں اور شاعروں کی بہت آؤ بھگت ہوا کرتی تھی ۔
سپارٹا کے لوگ قدامت پسند اور سادہ تھے اور ان کے لیے جب قوانین ایک ممتاز قانون داں لاگس نے بنائے تھے ۔ جب ڈیلفی کے مندر میں ان قوانین کے بارے میں استخارہ کروایا تو وہاں سے جواب ملا جب تک لاگس کے قوانین پر عمل ہوتا رہے گا رہاست قائم رہے گی ۔ کہا جاتا ہے ہے لاگس نے سپاڑتا کی لوگوں سے حلف اٹھوایا کہ وہ اس کے بنائے ہوئے قوانین پر عمل کریں گے اور اس کے بعد غائب ہوگیا اور پھر دوبارہ نظر نہیں آیا ۔ سپارٹا میں لوگ بہت عرصہ تک اس کے قوانین پر عمل پیرا نہیں ہوئے اور اس میں کوئی کسی قسم کی تبدیلی نہیں کی ۔
ان قوانین کے مطابق سپارٹا کا معاشرے تین حصوں میں مستقیم تھا ۔ (۱) حکمران جو پرگیزدہ لوگ کہلاتے تھے (۲) ہمسائے جنہیں شہری حقوق حاصل تھے لیکن سیاسی حقوق سے محروم تھے اور یہ آزادنہ کسی پیشے کو اپنا سکتے تھے ۔ (۳) ہیلاٹ جو کہ غلام تھے ۔ اسپارٹا ایک پولیس ریاست تھی ۔ جس میں فرد کا وجود ریاست کی بہتری کے لیے تھا اور جسمانی صحت اور فوجی رجحان پر زور تھا ۔ اس کا ہر شہری فوج خدمات انجام دیتا تھا ۔ عمدہ گفتگو اور اعلیٰ تقریر و تحریر کو پسند نہیں کیا جاتا تھا ۔ کنبے کو سختی کے ساتھ محدود اور کمزور اولاد کو شہر کی ایک فصیل سے پھینک کر تلف کردیا جاتا تھا ۔ بچے سات سال کے بعد ماؤں سے لے کر بیس سال کی عمر تک ریاستی تربیت گاہ میں رہتے تھے ۔ انہیں فوجی تربیت اور ورزش کے ذریعہ ایک اچھا سپاہی بنایا جاتا تھا ۔ اس دوران وہ ہومر اور دوسرے شاعروں کی کتابیں پڑھ سکتے تھے ۔ اٹھارہ سے بیس سال کے دوران انہیں خاص جنگی تربیت دی جاتی تھی ۔ اس طرح تیرہ سال کی تربیت کے بعد جس میں بھاگنا ، کشتی لڑنا ، کمند پھینکنا اور مختلف کرتبوں کے ذریعہ انہیں مظبوط پھرتیلا ، جفاکش نڈر اور اچھا سپاہی بن جاتا تھا ۔ بیس سال کے بعد انہیں شادی کی اجازت مل جاتی تھی مگر وہ گھر پر نہیں رہ سکتے تھے اور تربیت گاہ میں ہی دوسروں کو تربیت دیتے تھے ۔
تیس سال کے بعد وہ مکمل شہری بن جاتا تھا اور اسے اسمبلی بیٹھنے اور دوسرے عہدے اختیار کرنے اور گھر پر رہنے اور کھانے کی اجازت نہیں ہوتی تھی اور اس وقت بھی فوج کا ملازم سمجھا جاتا تھا ۔ ہر شخص کو اپنے حصے کی خوراک کے لیے روپیہ دینا پڑتا تھا ۔ ہر میز پر پندرہ آدمی شریک ہوتے تھے ، کسی کی شراکت کے لیے باقی چودہ آدمیوں کی رائے لی جاتی تھی ۔ سب ارغونی لباس پہنتے تھے ۔ یہ پندرہ فرد جنگ و امن میں ایک دوسرے کے گہرے دوست ہوتے تھے ۔
لڑکیوں کو بھی اسی طرح کی تربیت دی جاتی تھی ۔ لیکن یہ تربیت انہیں شادی تک دی جاتی تھی ۔ انہیں ایسی جسمانی اور ذہنی تربیت دی جاتی تھی کہ وہ بہادر اور نڈر بچوں کی مائیں بنیں ۔ وہ لڑکوں کی طرح جسمانی کھیلوں میں حصہ لیتی تھیں ۔ اس کی انہیں خاص تربیت دی جاتی تھی ۔ لڑکیاں اس قدر مختصر لباس پہنتی تھیں کہ دوسرے یونانی انہیں دیکھ کر حیران رہ جاتے تھے ۔ لیکن اعتدال ، پاکیزگی اور سادگی سپارٹا کے نمایاں اصول تھے ۔ لڑکیاں گھروں رہتی تھی اور کفایت شعاری کے ذریعے پیسے جمع کرلیتی تھیں ۔ وہ خود بھی بہادر ہوتی تھیں اور مردو کو بہادری کے لیے ابھارہ کرتی تھیں ۔ جب وہ اپنے بیٹے یا شوہر کو جنگ پر جاتے ہوئے ڈھال پکڑاتی تھیں تو کہتی تھیں فتح یاب ہوکر ڈھال سمیت واپس آنا یا اس ڈھال پر مرمٹنا ۔ سپارٹا کی سوسائٹی اگرچہ بڑی سخت اور ضوابط کی پابند تھی لیکن معمولی اور گھٹیا نہیں تھی ۔ سپارٹا ریاست دوسری ریاستوں کے برعکس فرد کو فنون لطیفہ اور سائنسی کارنامے کے بجائے انہیں صرف لڑاکا بناتی تھی ۔
سپارٹا کی ریاست میں ایک ہی وقت دو حکمران اور پانچ ایفورز جو ان حکمرانوں سے زیادہ طاقت ور ہوتے تھے ۔ یہ ہر سال عام ووٹوں سے چنے جاتے تھے ۔ جب فوج کسی مہم کے سلسلے میں باہر جاتی تھی تو ان میں سے کسی ایک کی سردگی میں جاتی تھی جسے مکمل اختیارات حاصل ہوتے تھے ۔ اٹھائیس امرا کی ایک کونسل ہوتی تھی ، ان کی عمریں ساٹھ سال سے زیادہ ہوتی تھی ۔ یہ امرا انتظامی امور میں مجسٹریٹوں کی مدد کرتے اور ان معمالات پر صلاح و مشورے کرکے انہیں عوام کے سامنے یا اسمبلی میں پیش کرتے تھے ۔ اسمبلی میں بحث نہیں ہوتی تھی اور نہ ووٹوں ڈالے جاتے تھے ۔ بلکہ جس کے حق میں زیادہ شور ہوتا تھا وہ رائے دہندوں کا فیصلہ سمجھا جاتا تھا ۔ سپارٹا کے عوام اور حکومت دونوں تبدیلیاں پسند نہیں کرتے تھے ۔ اس لیے کسی نئے چیز کو قبول نہیں کرتے تھے ۔ سپارٹا کی بری فوج تمام یونان میں سب سے طاقت ور تھی ۔ اس کی نسبت اٹیکا بحری بیڑا بہت طاقت ور تھا ۔ جس سے حریف ریاستیں بھی حسد کرتی تھیں ۔
میں پہلی دفعہ سپارٹا نے دوسری ریاستوں پر اپنے جبر اور طاقت کو استعمال کیا اور ۷۳۰ ق م میں ایک ریاست میسینا کے ذرخیز میدانوں پر قبضہ کرلیا ۔ اس پر مینسینا نے دوسری ریاستوں سے مدد طلب کی اور اسپارٹا کو شکست دے کر اسے اپنے علاقہ واپس حاصل کرلیے ۔ اس پر سپارٹا کے مشہور شاعر ٹائرتیس نے اسپارٹا کے لوگوں جوش دلایا ۔ اس کے بعد سپارٹا کے لوگوں کے خیالات اور زندگی کا نقطہ نظر بدل گیا ۔ سپارٹا نے وہ علاقہ دوبارہ فتح کرلیے ۔ میسنیا کے لوگ غلام بنادیے اور وہ لوگ ہیلاٹ کہلاتے تھے انہیں زمینوں پر کام کرنا پڑتا تھا اور پیداوار میں سے ایک حصہ سپارٹاکے لوگوں کو دینا پڑتا تھا ۔ْ مگر ہیلاٹوں کی تعداد جلد ہی بہت بڑھ گئی اور ان میں آزادی کی لہریں اٹھنے لگیں ۔ لہذا ہیلائٹوں پر جبر اور سختی کی جانے لگی ۔
سپارٹا نے پہلے لیکونیا اور پھر میسنیا کو فتح کیا اور وہاں کے لوگوں کو غلام بنالیا ۔ اس کے علاوہ ایگری گنٹیم اور اٹلی میں ٹارنیٹم میں نو آبادیاں قائم کیں ۔ اس زمانے مشرق میں سیاسی منظر نامہ بدل رہا تھا ۔ وہاں طاقت ور سلطنتیں موجود تھیں ۔ لیڈیا کی طاقتور حکومت کروسس کی سردگی میں قائم ہوئی ۔ مگر اسے ایران کے بادشاہ خورس نے فتح اور تمام ایشائے کوچک پر قابض ہوگیا ۔ اس طرح لیڈیا کا خطرہ دور ہوگیا مگر اس سے بڑا خطرہ ایرانیوں کا سر پر منڈلانے لگا ۔ یہی ہو اور دارا نے یونانی ریاستوں کو فتح کرکے ان پر اپنی حاکمیت قائم کرنے کی کوششیں شروع کیں اور بہت سی یونانی ریاستوں پر اپنی بلادستی قائم کرلی ۔ اس نئے خطرے دیکھ کر یونانی ریاستیں جن میں اٹیکا (ایتھنز) اور سپارٹا بھی شامل تھیں متحد ہوگءٰں اور ایرانی بالادستی کے خلاف بغاوت کردی ۔
اس بغاوت کا آغاز میلٹس سے ہوا ۔ میلٹس نے دوسری ریاستوں سے مدد طلب کی مگر سپارٹا نے مدد دینے سے انکار کردیا ۔ میلٹس تباہ ہوگیا لیکن یہ بغاوت دوسرے شہروں تک پھیل گئی ۔ دارا نے کوشش کی کہ جنگ کے بغیر یونانی ریاستیں ایرانی بالادستی کے لیے تیار ہوجائیں ۔ اس لیے دارا نے انہیں پیغام بھیجا ۔ مگر اٹیکا اور سپارٹا نے اسے قبول نہیں کیا ۔ دارا نے ایرٹیریا کو تباہ کرکے اٹیکا کی جانب بڑھا تو اتھنز نے سپارٹا سے مدد مانگی ۔ سپارٹا نے انکار نہیں کیا مگر یہ کہلوایا وہ مذہبی تہوار کی وجہ سے قانون کے مطابق چاند کے پورا ہونے تک مدد نہیں بھیج سکتے ہیں اور جاند پورا ہونے پر مدد بھیجی جائے گی ۔ لہذا اٹیکا والوں نے بغیر سپارٹا کے ایرانی فوجوں کا مقابلہ کیا اور ایرانی فوج کو شکست دے دی ۔ یہ اگرچہ کوئی بڑی فتح نہیں تھی مگر اس سے ایرانی سلطنت کے وقار کو ڈھچکا پہنچا اور جگہ جگہ بغاوتیں پھوٹ پڑیں ۔ ان میں سب سے بڑی بغاوت مصری کی تھی ۔ جس کی وجہ سے ایرانی مصر کی بغاوت فرد کرنے میں دس سال تک مصروف رہے اور ان کی توجہ یونان سے ہٹ گئی۔
دارا کے بعد اس کا بیٹا خشیارشا بادشاہ بنا ۔ اس نے ایک بڑی فوج یونانیوں کو سزا دینے کے لیے روانہ کی ۔ جس میں بقول ہیروڈوٹس کے اس کی تعداد تنتیس لاکھ تھی ۔ اس نازک موقع ایتھنز اور سپارٹا مل گئے اور یونان کی ریاستوں نے پہلی دفعہ مشترکہ دشمن سے متحد لڑنے کا فیصلہ کیا اور ایرانیوں کے خلاف یونانیوں نے عزم ، حریت ، جرت ، بہادری ، اتحاد اور اعلیٰ جنگی اسٹریچی کا بے مثال مظاہرہ کرکے ایرانیوں کو شکست دی ۔ اس لڑاٗی میں سپارٹا نے بحری اور بری فوج کی کمان سمھالی ۔ اس جنگ میں سپارٹا کا کمانڈر لیونیڈاس تین سو سپاہیوں کے ساتھ تھرموپولی کے درے کی حفاظت پر متعین کیا گیا ۔ اس کی پشت پر پیلونیس بوٹیا اور فوشیا کے پانچ ہزار سپاہی تھے ۔ ایرانیوں کو خیال تھا ان کی کثیر تعداد فوج کی وجہ یونانی خوفزدہ ہوجائیں گے ۔ مگر اسپارٹی بے فکری سے کھیلوں اور دوسرے کاموں میں مصروف رہے ۔ مگر انہوں نے کوئی اقدام نہ کیا ۔ خشیارشا کو بہت حیرت ہوئی اور اس نے حکم دیا کہ انہیں زندہ پکڑا جائے ۔ دو دن تک ایرانی حملہ کرتے رہے مگر درے پر یونانیوں کا قبضہ رہا ۔ آخر ایرانیوں نے ایک پوشیدہ راستہ معلوم کرلیا ۔ لیونیڈاس کو رات کو اطلاع ملی کے دشمن کی فوجیں اس کے عقب جمع ہورہی ہیں ۔ لیونیڈاس نے ایک ہزار فوشین ، سات سو تھپسین اور تین سو اسپارٹیوں کے سوا سب رخصت کردیا اور دشمن کا انتظار کرنے لگے ۔ انہیں معلوم تھا بچنے کا کوئی راستہ نہیں ہے ۔ ایرانیوں نے انہیں گھیر لیا اور انہیں ہتھیار ڈالنے کو کہا ۔ مگر یونانیوں نے لڑنے کا فیصلہ کیا اور اس لڑائی میں لیونیداس مارا گیا ۔ اس کے سپاہیوں نے اس کو کندھے پر اٹھا کر ایک پہاڑی پر جو درے کے ساتھ تھی لے گئے اور وہاں سے درے کی حفاظت کرنے لگے ۔ وہ لڑتے رہے یہاں تک کہ صرف دو سپاہی زندہ بچے ۔
یونانیوں نے ایرانیوں کے بحری جہازوں کو ایک تنگ جگہ پر جہاں وہ حرکت نہیں کرسکتے تھے شکست دی ۔ یونانیوں نے ایران جیسی طاقت کے مقابلے میں شاندار فتح حاصل کی تھی ۔ اس لڑائی میں سپارٹا کا پورا ہاتھ تھا ۔ مگر ایتھنز بہت زیادہ شہرت حاصل ہوئی ۔ کیوں کہ جب ایرانی ایتھنز سے حوالگی کا مطالبہ کیا تو ایتھنز نے انکار کردیا اور شہر چھوڑ کر محفوظ مقام پر چلے گئے ۔ ایرانیوں کی شکست کے بعد اہل اتھنز آئے اور انہوں نے شکستہ حال شہر کی دوبارہ تعمیر شروع کی اور شہر کے گرد ایک مظبوط دیوار کی تعمیر چاہتے تھے ۔ مگر اسپارٹا نے مخالفت کی ۔ اسے ڈر تھا ایرانی دوبارہ آئے تو اسے محفوظ قلعے طور پر استعمال کریں گے ۔ مگر اہل ایتھز نے یہ بات نہیں مانی اور دیوار کی تعمیر شروع کردی ۔ اس وقت ایشائے کوچک کی بہت سی یونانی ریاستیں ایرانیوں کے ماتحت تھیں ۔ وہ ایرانیوں سے بغاوت کرنا چاہتی تھی اور اس کے لیے سپارٹا سے رہنمائی کی درخواست کی ۔ مگر اہل سپارٹا محتاط تھے اس لیے انہوں نے انکار کردیا ۔ انہوں نے اٹیکا سے اس کے لیے درخواست کی تو انہوں نے قبول کرلی ۔ اس وجہ سے ڈیلین لیگ کا صدر مقام ڈیلاس سے ایتھنز ہوگیا ۔
سپارٹا جو کہ یونان کی ایک بڑی طاقت تھا ۔ اس نے دیکھا کہ اٹیکا کے اثر و رسوخ میں اضافہ ہورہا ہے اور اس کی عظمت باقی نہیں رہی ہے اور یونانی شہری ریاستیں ایک ایک کرکے ایتھنز کے حلقہ میں شامل ہورہے ہیں ۔ چنانچہ سپارٹا نے سازش کی اور ڈیلین لیگ کو اٹیکا کے خلاف بغاوت کے لیے ابھارا ۔ اس نے یونانی ریاستوں کو اٹیکا سے آزادی دلائے کا جھانسا دیا ۔ مگر ڈیلین لیگ نے اسی نہیں سنی گئی ۔ اس پر سپارٹا نے خشکی ریاستوں کو اکھٹا کرکے ایک نیا اتحاد پیلوپونیسیسن لیگ قائم کیا ۔ اس پر ایتھنز نے ایک یونانی ریاستوں ایک کانفرنس کی بلائی ، مگر اس میں سپارٹا کی وجہ سے خشکی کی کسی ریاست نے اپنا نمائندہ نہیں بھیجا ۔ بد اعتمادی اور خوف کی فضا پیدا ہوچکی تھی ۔ اس لیے ایتھنز نے بھی جنگ کی تیاری شروع کردی ۔ مگر یہ دونوں طاقتیں حملہ کرنے کے بجائے جائزہ لے رہی تھیں اور موقع کی منتظر تھیں ۔
۴۳۳ ق م میں ایک ریاست کور سیرا کی دوسری ریاست کورنتھ سے لڑائی چھڑ گئی ۔ کورنتھ سپارٹا کا حلیف تھا ۔ اس لیے کور سیرا نے ایتھنز سے مدد طلب کی اور کورنتھ نے سپارٹا سے مدد طلب کی ۔ اس لڑائی میں کورنتھ کو شکست ہوئی تو اس نے سپارٹا سے درخواست کی ایتھنز کے خلاف اعلان جنگ کردے ۔ اس جنگ سے پہلے سپارٹا میں پیلوپونیسیسن لیگ کانفرنس ہوئی ۔ سپارٹ کے سالار آرچیڈ اموس نے سمجھانے کی کوشش کی کہ یہ جنگ لمبے عرصہ تک چلے گی اور اگلی نسلوں کے درمیان فیصلہ ہوگا ۔ لیکن پیلوپونیسیسن لیگ کے ممبروں نے کافی بحث کے بعد جنگ کا فیصلہ کیا ۔ سپارٹا کے پاس ایک بڑی اور عمدہ بری فوج تھی لیکن اس کے پاس بحری بیڑا نہیں تھا ۔ جب کہ ایتھنز کے پاس کوئی بری فوج تھی اور اس کا بحری بیڑا بہت طاقت ور تھا ۔
۴۲۱ ق م میں ان کے درمیان لڑائی شروع ہوئی اور دونوں ہی یورپ کی لیڈری کا خواب دیکھ رہے تھے ۔ سپارٹا کی فوجوں نے اٹیکا یعنی ایتھنز پر حملہ کردیا ۔ ایتھنز کا لیڈر پرکلیز نے دیہات سے لوگوں کو ایتھنز کے قلعہ میں پناہ گزین ہوگئے ۔ سپارٹا کی فوجوں نے فضلوں اور باغات کو تباہ کر کے ایتھنز سے چھ میل کے فاصلے پر پہنچ گئیں ۔ جب سپارٹا کی فوجیں گرد نواع میں تباہی مچارہی تھیں تو ایتھنز کے جوانوں نے پرکلینز سے مقابلے کی اجازت مانگی ، مگر پرکلینز نے نہیں دی ۔ کیوں کہ وہ جانتا تھا کہ کوئی بری فوج سپارٹا کی فوج کا مقابلہ نہیں کرسکتی ہے اور سمندر پر ایتھنز کے بحری بیڑے کا قبصہ ہے اور اس سے انہیں خوراک کی فراہمی آسانی سے ہوسکتی ہے اس لیے بہتر ہے کہ لڑائی کو لمبا کیا جائے ۔ چنانچہ اس نے سختی سے اپنے لوگوں کو لڑنے سے باز رکھا اور پیلونیسس کے ساحل پر دشمنوں کی شہروں پر حملہ کرنے کے لیے سو بحری جہازوں کا ایک بیڑا روانہ کیا ۔ اس طرح یہ جنگ کئی سال تک جاری رہی ۔
جن سپارٹا والوں کا سامان جنگ ختم ہوگیا تو وہ واپس چلے آئے ۔ ان کے ساتھ مارے گئے لوگوں کی ہڈیاں اور ایک خالی تابوت نامعلوم سپاہی کا تھا ۔ ان سب کا مشترکہ جنازہ پڑھا گیا ۔ جنازے کے بعد تقریریں ہوئیں ۔ جس میں اہل ایتھنز کے عزم و استقلال کی تعریفیں کیں گئیں ۔ اگلے برس پھر سپارٹا نے اٹیکا پر یلغار کی ۔ جو اب میں ایتھنز نے بحری بیڑے کو سپارٹا کے ساحلی قلعوں پر حملے کے لیے روانہ کیا گیا ۔ مگر جلد ہی اہل ایتھنز کو سپارٹا سے بھی ایک خوفناک دشمن طاؤن سے مقابلہ ہوا اور ایک تہائی ایتھنز کی آبادی اس کا شکار ہوگئی ۔ اب ایتھنز کے لوگ سپارٹا سے صلح کرنا چاہتے تھے ۔ لیکن یہ ممکن نہیں تھا ۔ اس لیے لوگ پرکلیز کے مخالف ہوگئے اور اسے جلاء الوطن کردیا ۔
۴۲۵ ق م میں ایتھنز کے بحری بیڑے نے سپارٹا کے ایک اتحادی پیلوس کو عجیب و غریب طریقہ سے فتح کرکے سپارٹا کہ ۴۲۰ سپاہیوں کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کردیا ۔ اس واقع سے سارا یونان حیران ہوگیا اور سپارٹا کو مایوسی ہوئی اور ایک سفیر ایتھنز صلح کے بھیجا ۔ ایتھنز میں اس وقت جو لیڈر تھے وہ عوام کے جذبات کو بھرکا رہے تھے ۔ چنانچہ ان کے لیڈر کلیون نے سپارٹا کی یہ پیش کش ٹھکرادی اور سفیر واپس لوٹ گیا اور دوبارہ دونوں کے درمیان لڑائی شروع ہوئی یہ لڑائی پورے یونان میں پھیل گئی ۔
یہ جنگ دس سال تک جاری رہی ۔ سپارٹا کا کمانڈر براسیڈاس اور کلیون دونوں مارے گے ۔ ان کے مارے جانے پر لڑائی کچھ دیر کے لیے تھم گئی اور تمام فریق اس لڑائی سے تنگ آچکے تھے ۔ جس کا انجام نظر نہیں آرہا تھا ۔ مگر اٹیکا نے بہت سے نئے علاقوں جس میں افریقہ بھی شامل تھا قبضہ کی کوشش اور جھگڑوں میں حصہ لینے لگا ۔ اس پر سپارٹا نے ایران سے سمجھوتا کرلیا اور ایتھنز اور اس کی حلیف ریاستوں کے خلاف حملے شروع کردیئے ۔ یہاں تک ایتھنز کی بحری طاقت کو تباہ کرکے اسے بری طرح شکست دے دی گئی اور اٹیکا صلح پر مجبور ہوگیا ۔ اس نے مجبور ہوکر سپارٹا کی ساری شرائط مان لیں ۔
اس طویل جنگ کے بعد یونان کی سب طاقتوں کی طاقت ختم ہوگئی سپارٹا کی قوت کچھ عرصہ تک قائم رہی ۔ مگر اس کی ۳۷۹ ق م میں لیوکڑا کی لڑائی میں تھیبز سے شکست کھانے کے بعد بالکل ہی ختم ہوئی ، خود تھیبز بھی تباہ ہوگیا ۔ یہی وجہ ہے یونانی ریاستیں مقدونیہ کے فلپ اور اس کے بیٹے سکندر کا مقابلہ نہیں کرسکیں اور اس کے سامنے سرنگوں ہوگئیں ۔ (ختم شد)
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...