مؤرخ اگر اسلامی سلطنتوں کی تاریخ لکھے گا تو اس کی تاریخ اس وقت تک مکمل نہیں ہو گی جب تک کہ وہ اپنے دامن قرطاس میں اندلس کو جگہ نہ دے، اندلس جو اب اسپین کے نام سے جانا جاتا ہے، یہ وہی ملک ہے جہاں مسلمانوں کی آٹھ سو سالہ تاریخ کے سنہرے نقوش موجود ہیں۔ اندلس کا چپہ چپہ مسلمانوں کی عظمت و شوکت کے آج بھی گواہ ہیں وہاں کی خوبصورت وادیاں، فلک بوس عمارتیں، روح پرور فضائیں، اٹکھیلیاں کرتی ہوئی ندیاں، لق و دق پہاڑ مسلمانوں کی چہچہاہٹ سے آج بھی گونج رہے ہیں، اور زبان حال سے یہ کہ رہے ہیں کہ ہمارا رکھ والاکہاں ہے؟ کہاں گۓ وہ جو ہمیں حمد و ثناء کے گیت سنایا کرتے تھے کہاں گئے وہ جن کی زبان سے ہم ہمہ وقت اپنے پروردگار کی تسبیح سنا کرتے تھے، وہ شہر غرناطہ جسمیں مسلمانوں کے آٹھ سو سالہ عروج و زوال کی تاریخ ہے جس قوم نے یہاں تلواروں کے سائے میں تکبیر کے زمرہ بلند کئے تھے وہ آٹھ صدیوں تک اپنے جاہ و جلال کے لوہا منوانے کے بعد طاؤس و رباب میں مدہوش ہو کر ایسی سوئ کہ آج اس کا نام و نشان تک بھی نہیں، وہ جبل الطارق جو طارق بن زیاد کی شجاعت و بہادری کی ایک تصویر کھینچتی ہے اور ان کے مجاہدانہ کردار کے آج بھی گواہ ہیں، جن کے حصہ میں قدرت نے اندلس کو رکھا تھا جس وقت طارق بن زیاد اندلس کے لئے روانہ ہوئے تھے اس وقت اندلس میں ایک عیسائی حکمران تھا جو اپنی ستم رانیوں اور بے جا کارستانیوں سے بہت مشہور تھا عوام اس سے تنگ آچکے تھے ضرورت تھی ایک ایسی قیادت کی جو ان کے تمام کارستانیوں کو ختم کرکے امن و امان قائم کرے، چنانچہ طارق بن زیاد سات ہزار لشکر کے ساتھ روانہ ہوتے ہیں جب بحر اوقیانوس کو پار کرکے ساحل اندلس پر پہنچتے ہیں تو ساری کشتیاں جلا دیتے ہیں اور لشکر سے مخاطب ہو کر یوں گویا ہوتے ہیں، مجاہدو۔ آگے دشمن ہے اور پیچھے سمندر، واپسی کا کوئی راستہ نہیں اگر ہم فتحیاب ہوئے تو فتح اللہ کی اور اگر شہید ہوئے تو جنت کی حوریں ہمارے منتظر ہیں، پھر کیا تھا مجاہدین کا یہ لشکر شوق شہادت لۓ نعرہ تکبیر کی صدا میں آگے بڑھتے ہیں اور فتوحات کے انبار لگا دیتے ہیں اور آٹھ سو سال کیلئے اندلس میں اپنا علم گاڑ دیتے ہیں، اور پھر پوری آب وتاب کے ساتھ عدل و انصاف کا پرچم لہراتا رہا،لیکن زمانہ نے کروٹ لی اور زوال کے تھپیڑوں نے مسلمانوں کو تہ و بالا کر دیا ، اندلس کا وہ شہر قرطبہ۔ جو ایک مرکز علم و فن تھا۔ بچہ بچہ کتابوں کا دلدادہ تھا جس شہر کے بارے میں یہ مشہور تھا کہ جس کے گھر میں کوئی کتاب نہیں وہ گھر تمام نعمتوں سے خالی ہے، جہاں بڑے بڑے اہل علم۔ بڑے بڑے علماء و دانشورانِ نے جنم لیا اور دنیا کو اپنے علم و فضل سے سیراب کیا آج وہاں کا حال یہ ہے کہ ڈھونڈنے پر ایک آدھا صاحب علم و فن مل جائیں علم کی بے حرمتی کا یہ عالم کہ اصطبلوں میں کتابیں پڑی ہوئی ہیں لیکن ان کو اٹھانے والا کوئی نہیں، وہ جامع قرطبہ جس کی مثال دنیا میں نہیں ملتی تھی جہاں ہمہ وقت تکبیر کی صدا گونجتی تھی، جو اپنی خوبصورتی اور حسن و جمال میں آپنی مثال آپ تھی ۔ جہاں پانچوں وقت نمازیوں کا سیلاب امنڈ پڑتا تھا آج حال یہ ہے کہ نماز کی تو دور کی بات کوئی اللہ کا نام لینا والا نہیں ایک ویرانی میں تبدیل ہو چکی ہے حد تو یہ ہے کہ وہاں طرح طرح کے مجسمہ بنے ہوئے ہیں اور ڈھول تاشے کا اڈہ ہے پوری عمارت معبد میں تبدیل ہو چکی ہے اور سیرو سیاحت کی جگہ بنی ہوئی ہے، الحمراء کا وہ تاریخی قلعہ جو چوتھی صدی میں تعمیر ہوا تھا وہ الحمراء جس کا ذکر بچپن سے تاریخ میں پڑھتے آۓ تھے آج ایک پیکر عبرت بنا ہوا ہے، اس پرشکوہ عمارت کے سامنے یا اس کے اندر کبر و نخوت کے کتنے پیکر۔ أنا ولا غیری۔ کے نعرے لگارہے تھے اور کتنے متکبرین کا غرور اس کی دہلیز پر خاک میں مل گیا، یہاں کتنے سروں پر بادشاہت کا تاج رکھا گیا اور کتنے تاجوروں کے سر اتار دئیے تاریخ نہ جانے کتنے راز اپنے کھنڈروں میں چھپائے آج یہ عمارت کھڑی ہے جو عبرت و بصیرت کا درس دے رہی ہے،
وہ مدینہ الزہراء جو اپنے حسن و جمال، شان و شوکت اور پرشکوہ و جلال کے اعتبار سے دنیا بھر میں اپنی مثال آپ تھا وہ خدا جانے کتنے عجائبات پر مشتمل تھا اسمیں مصنوعی دریا بھی بناۓ گۓ اور جانوروں کے باغ بھی بظاہر وہ زمانہ جسمیں زہرا تعمیر کیا گیا اندلس میں مسلمانوں کے عروج و زوال کا زمانہ تھا اور اس شہر کو دیکھ کر دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں لرزہ براندام ہو جاتی تھیں اگر حقیقت شناس نگاہوں سے دیکھا جائے تو اندلس میں مسلمانوں کے زوال کا آغاز انہیں عشرت کدوں کی تعمیر سے ہوا جنہوں نے کہ مسلمانوں سے رفتہ رفتہ ان سے زہد ان کی جفا کشی اور ان کی بے تکلف زندگی کی قوت چھین لی،
تاریخ بڑی تلخ ہے جب مسلمانوں نے اندلس کو فتح کیا اور وہاں کے مالک بن بیٹھے آغاز دور میں مسلمانوں میں دنیا سے بے رغبتی تھی، آخرت کو وہ اپنا اوڑھنا بچھونا بناۓ ہوۓ تھے، اپنے شعار کو باقی رکھے ہوۓ تھے، اسلامی رواداری، آپسی بھائی چارہ، اتحاد و اتفاق پر کار بند تھے تو ان کی ترقی عروج پر تھی لیکن جیسے جیسے ان سے اچھائیاں رخصت ہونے لگیں تو مرحلہ وار ان میں زوال شروع ہوا اور ایک وقت ایسا آیا کہ وہاں سے مسلمانوں کا نام و نشان مٹ گیا، ان کی مسجدیں معبد میں تبدیل کردی گئیں، مقدس مقامات کو فحاشیوں میں تبدیل کردیا گیا، اور وہاں وہ سب کچھ ہوا جو نہیں ہونا چاہیے،
اسی سے ملتی جلتی تاریخ ہمارے ہندوستان کی ہے ہمارے اس ملک میں اٹھارویں صدی سے پہلے مسلمانوں کی حکومت تھی اور ایک ہزار سال تک پوری آب وتاب کے ساتھ قائم رہی، ہر طرف مسلمانوں کا دور دورہ تھا، اسلامی جھنڈے ہر طرف لہرا رہے تھے، گویا ایسا لگ رہا تھا کہ ابھی ابھی اسلام کا دور شروع ہوا ہے، تاریخ بیان کرنا مقصود نہیں ہے لیکن اتنی سی بات ضرور ہے کہ اگر اس ملک میں چہار جانب خوبصورتی ہے اگر یہ ملک دنیا کا منبع سیاحت ہے اور اگر دنیا میں اس ملک کی پہچان ہے تو وہ یہاں کے مسلم حکمرانوں کی بدولت ہے، اگر جامع مسجد کی لوگ زیارت کرنے آتے ہیں تو وہ مسلمانوں کی بدولت ہے ، اگر تاج محل عجائب الدنیا ہے تو وہ مسلمانوں کی نشانی ہے، اس کے علاوہ اور بھی جو دیگر تاریخی مقامات ہیں جن پر آج کے حکمراں فخر کررہے ہیں تو وہ بھی مسلمانوں کی دین ہے،
حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں عروج کے بعد زوال ہے مؤرخ اگر کسی قوم کے عروج کی تاریخ لکھتا ہے تو وہ زوال کو بھی درج کرتا ہے، ہزار سال حکمرانی کے بعد یہاں بھی مسلمانوں کا زوال شروع ہوا اسباب تقریباً وہی تھے جو اندلس کے مسلمانوں کے تھے البتہ اتنی سی بات ضرور ہے کہ یہاں زوال کے بعد سامراجیت کا غلبہ ہوا جبکہ اندلس میں بادشاہت نے جھنڈا گاڑ دیا، ہندوستان میں جب سامراجیت کا غلبہ ہوا تو ان کا پورا نشانہ مسلمان تھے، اور ضمن میں یہاں کے برادران وطن بھی تھے وہ چاہتے تھے کہ ہر کوئی میری ماتحتی میں رہے لیکن یہاں کے غیور مسلمانوں کو گوارہ نہ ہوا اور آزادی کی جنگ چھیڑ دی بالآخر آزاد کراکے ہی دم لیا، اس کے بعد جمہوریت کا غلبہ ہوا اور ایک لمبے عرصہ تک یہ نظام قائم رہا لیکن کون جانتا تھا کہ اس کا بھی خاتمہ ہو کر رہ جائے گا اور فاشزم کی حکمرانی قائم ہو جائے گی، جمہوریت کو پامال کرکے ڈکٹیٹر کی حکمرانی چلے گی، ہندوستانی تاریخ اندلس کی تاریخ سے قدرے مختلف ہے وہاں تو یک لخت مسلمانوں کا صفایا کردیا گیا اور وہی تاریخ موجودہ حکومت دہرانے کی کوشش میں ہے اس پر وہ پورا زور صرف کررہی ہے لیکن یہاں کی کہانی تھوڑ مختلف ہے اور امید ہے تاریخ دہرائی بھی جا سکتی ہے جیسا کہ حالات کہ رہے ہیں، یہاں حکومت کی مجبوری یہ ہے کہ اس ملک میں اب بھی امن پسند اور جمہوریت پسند لوگ کثیر تعداد میں ہیں جو حکومت کے غلط فیصلوں کے خلاف ہمہ وقت کھڑے رہتے ہیں، اور بھر پور مخالفت کرتے ہیں لیکن فضا بدل بھی سکتی ہے،
اس لۓ ہمیں ہر وقت تیار رہنا ہے اور کوشش یہ ہو کہ مسلمانوں کے زوال کی تاریخ نہ دہرائی جائے بلکہ ان غلطیوں سے سبق حاصل کرنا ہے تاکہ دنیا میں ہمارا وجود باقی رہے،
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...