پلا مچھلی، ربڑی، چوڑیاں اور گھنگھرو
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے وہ تصور، جو حیدرآباد کا نام سنتے ہی ہم کرانچی والوں کے ذہن میں آتا ہے۔ اب کا تو مجھے علم نہیں گئے وقتوں میں جو کوئی کراچی سے حیدرآباد جاتا تھا وہ حیدرآباد پہنچنے سے پہلے یا واپسی میں “المنظر” کی پلا مچھلی کا ذکر ضرور کرتا تھا اور اس کے ہاتھ میں مٹی کے کلہڑ میں حاجی کی ربڑی، بستے میں رنگ برنگی چوڑیاں جن کی خاصی تعداد ریل یا بس کے جھٹکوں کی نذر ہوچکی ہوتی تھی اور کانوں میں ان گھنگھرؤں کی چھاچھم ہوتی تھی جو وہ رقص و موسیقی کی سرپرستی کے طور پر شاہی محلے میں سن کر آتا تھا اور جن کی جھنکار کا ذکر وہ صرف اپنے خاص دوستوں سے کرتا تھا۔
اور جب کبھی کراچی والوں کو بیرون کراچی کی سیاحت کا شوق چراتا تو غریب آدمی کی پہلی اور واحد منزل حیدرآباد ہی تھی۔ ایک عرصے تک جب کوئی مجھ سے پوچھتا کہ کراچی کے علاوہ اور کونسا شہر دیکھا تو میں فخر یہ طور پر حیدرآباد کا نام لے دیتا حالانکہ میں نے اس وقت تک حیدرآباد کچھ اس طرح دیکھا تھا کہ نہ دیکھنا برابر تھا۔ کسی رشتے کے سلسلے میں بزرگوں کی ایک ٹیم کے ساتھ وحدت کالونی کے ایک سرکاری کوارٹر میں چند گھنٹے گذارنے کے بعد ان بزرگوں کی معییت میں با ادب، با ملاحظہ کراچی واپس آگیا تھا۔ نہ پلا مچھلی کھائی، نہ ربڑی خریدی نہ چوڑیاں لیں۔ رہی رقص و موسیقی کی سرپرستی تو ان بزرگان ، جن میں میرے والد محترم بھی شامل تھے،کی موجودگی میں اس نوابی شوق کا سوال تو دور کی بات ہے، خیال بھی پیدا نہیں ہوسکتا تھا۔
اس کے بہت بعد دوبار حیدرآباد جانا ہوا۔ دوسری بار واقعی سیروسیاحت کی غرض سے اور تیسری بار کسی دوست کے والد کے انتقال پر پرسہ دینے میرپور خاص گئے تو ایک رات حیدرآباد کے ایک سرکاری سرکٹ ہاؤس میں گذاری۔یہ دعوا تو ہرگز نہیں کہ حیدرآباد بہت دیکھا لیکن جب بھی حیدرآباد کا خیال آتا ہے تو ایک ایسے درویش صفت، فقیر منش، راضی بہ رضا اور قناعت پسند شہر کا تصور ذہن میں ابھرتا ہے جو اپنے حال میں مست ہے۔ مستقبل کے لیے اس کے دل میں کوئی امنگ، کوئی ارمان نہیں۔ میرا یہ تاثر یکسر غلط بھی ہوسکتا ہے کہ چار عشروں سے میں حیدرآباد نہیں گیا اور ہوسکتا ہے کہ اب حیدرآباد بھی دیگر شہروں کے طرح اپنے آپ کو بدلنا چاہتا ہو، اپنے حال سے غیر مطمئن ہو اور اسے بھی دنیا کے دیگر “مادہ پرست” شہروں کی طرح آگے بڑھنے کی لگن ہو۔
لیکن ہوتا یہ ہے کہ جو کوئی پڑھ لکھ لیتا ہے وہ چار پیسے کمانے کراچی کا رخ کرتا ہے اور پھر وہیں کا ہو رہتا ہے۔ لگتا نہیں کی کراچی کی بغل میں آباد یہ خوبصورت، تاریخی اور پر فسوں شہر زیادہ نہیں تقریباً نصف صدی پہلے سندھ کا دارلحکومت تھا اور اب بھی سندھ کا دوسرا اور پاکستان کا ساتواں یا آٹھواں بڑا شہر ہے۔ پر فسوں اور سحر انگیز یہ تب تھا جب میں ںے اس شہر کے وہ پرانے حویلی نما مکانات اور چوبارے، گلیاں، بازار اور محلے دیکھے۔ اللہ جانے اب یہ سب کچھ ہے یا نہیں، ہمارے ٹی وی اور فلم والوں کو بھی کبھی توفیق نہیں ہوتی کہ بیرون ملک اور اندرون ملک کے بڑے شہروں کے چند ایک جدید مکانوں کی مصنوعی زندگی کے بجائے حقیقی زندگی اور حقیقی گھروں ، محلوں کی منظر کشی کریں۔ حیدرآباد اس قسم کے مناظر کے لئے ،آئیڈیل، شہر ہے کہ وہاں کا ماحول مادیت سے دور اور زندگی سے بہت قریب نظر آتا ہے۔
اور یہ وہ شہر ہے جو کراچی کے ہر ایک دکھ درد میں شریک رہا۔ خواہ وہ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کا انتخاب ہو، ایوب خان کے بدمست ہاتھی نما ساتھیوں کے فرقہ وارانہ حملے ہوں، بھٹو دور کے لسانی ہنگامے ہوں یا اپنے حقوق کے لئے آواز اٹھانے کی پاداش میں پکا قلعہ میں دوسو کے قریب جانوں کا نذرانہ ہو۔ حیدرآباد نے کبھی اپنے کراچی والے بھائیوں کو مایوس نہیں کیا اور اس کی سزا یوں پائی کہ جب سرکاری ملازمت کے لئے کراچی والوں کے دروازے بند کئے گئے تو اس بندش میں حیدرآباد اور سکھر کے باسیوں کو بھی شامل کردیا گیا اور بھٹو دور میں سرکاری ملازمت کے اشتہارات میں ڈومیسائل کے حوالے سے خصوصی طور پر لکھا جاتا تھا Domicile-Sindh, Excluding KARACHI,Hyderabad and Sukkur .
اور یہی حیدرآباد تھا جس نے حق کے لئے آواز بلند کرنے کے جرم میں شہر بدر کئے جانے والے کراچی کے بارہ طالبعلم رہنماؤں کو پناہ دی تھی اور یہی حیدرآباد تھا جہاں حیدرآباد سازش کیس میں ملک کے کرتا دھرتاؤں کی حرکتیں بے نقاب ہوئی تھیں۔ جمہوریت اور انسانی حقوق کی بحالی میں حیدرآباد ہمیشہ اپنے بڑے بھائی ، کراچی کے شانہ بشانہ رہا جہاں عثمان کینیڈی، وصی مظہر ندوی ، نواب مظفر حسین لوگ متحرک رہتے تھے اور ہمیں ان کے زریعے حیدرآباد کا حال معلوم ہوتا رہتا تھا۔
لیکن حیدرآباد کی اصل پہچان ،سندھ ،ہے۔ مرزا قلیچ بیگ کا سندھ۔، کلہوڑوں اور تالپوروں کا سندھ، جہاں سے رسول بخش تالپور جیسے مست ملنگ،مولا بخش چانڈیو جیسے وضع دار رہنما سیاست میں آئے۔ جس کی تاریخ غیرملکی استبداد اور ملکی جبر کے خلاف جدوجہد سے بھری ہوئی ہے۔ جہاں سیٹھ ویشنداس نہال چند، سندری اُتم چندانی، سادھو واسوانی، مخدوم جمیل الزماں، قمرالزماں شاہ، مکیش کمار چانڈیو، سادھو واسواںی جیسے بے شمار، سیاستدان، مخئیر سماجی کارکن، ادیب ، شاعر اور فنکار پیدا ہوئے تو دوسری طرف زبان وادب اور علم وہنر میں بھی یہ شہر کسی سے پیچھے نہیں بلاشبہ پاکستاںی فلمی صنعت کا سب سے بڑا نام، اداکار محمدعلی، اردو اور پنجابی فلموں کے مقبول فنکار مصطفے قریشی اور ان کی شریک حیات روبینہ قریشی، ممتاز شعراحمایت علی شاعر، قابل اجمیری، محسن بھوپالی، پروفیسر عنایت علی خان اور گلوکار احمد رشدی ان سب نے ایک بہت متحرک وقت حیدرآباد میں گذارا۔ اکثر کو ریڈیو پاکستان حیدرآباد نے اولین پہچان دی اور آہستہ آہستہ ان سب کی شہرت پورے پاکستان میں پھیل گئی۔
اور یہ حیدرآباد نرا چوڑیوں اور ربڑی کے لئے ہی مشہور نہیں ۔ یہاں شیشہ سازی خصوصا چوڑی کی صنعت غالبا دنیا میں اپنی طرز کی ممتاز ترین صنعت ہے۔ اس کے علاوہ صنعت وحرفت، تعلیم اور مواصلات کے حوالے سے بھی حیدرآباد ایک بڑا نام ہے۔ پاکستان میں کون ہے جس نےزندگی میں کم ازکم ایک بار “ ٹریٹ بلیڈ” استعمال نہ کیا ہو۔ وزیرعلی انڈسٹریز ایک زمانے میں حیدرآباد کی صنعت وحرفت کے سرخیل ہوا کرتے تھے۔ میرے لڑکپن کا ایک دوست جو کراچی کے ایک بہت اچھے کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھتا تھانہ حیدرآباد کے نور محمد ہائی اسکول میں زیر تعلیم تھااور جب وہ ہوسٹل کے حالات سناتا تو ہم رشک بلکہ حسد کے مارے جل بھن جاتے کہ کراچی میں ایسا کوئی ہوسٹل کم از کم ہمارے علم میں نہیں تھا۔ جہاں تک مواصلات کا تعلق ہے پاکستان کی وہ کونسی ٹرین ہے جو حیدرآباد پر نہ رکتی ہو جو کہ ریلوے کا ایک بڑا مستقر ہے۔
ایک بار تین اور دوستوں کے ساتھ حیدرآباد جانا ہوا۔ اس سے پہلے ہماری کرکٹ ٹیم بھی وہاں ہوکے آ چکی تھی اور اپنے دوست مائیکل کا قصہ میں پہلے سنا چکا ہوں۔ ہمارے ایک دوست مائیکل کے ادھورے مشن کو پائہ تکمیل تک پہچانا چاہتے تھے لیکن بوجہ کم عمری اور اپنے اوپر عائد کردہ خودساختہ شرعی پابندیوں اور کچھ طبیعت بھی ایسی چیزوں سے منغض رہتی ہے ، میں نے حیدرآباد کے مشہور شاہی بازار میں قدم رکھتے ہی واپسی کا مطالبہ کردیا۔ اگلے روز ہم نیاز اسٹیڈیم ، رانی باغ اور اس وقت کے اجڑے اجڑے سے چڑیا گھر کی سیر کو گئے لیکن میرے ،سینئیر، دوستوں کو بلکہ ایک دوست کو گلہ رہا کہ کراچی سے کوئی بے وقوف ہی صرف نیاز اسٹیڈیم اور رانی باغ دیکھنے حیدرآباد آئے گا اور بات ان کی بھی سچ تھی، گو بات تھی رسوائی کی۔
اب اگر زندگی نے مہلت دی اور وقت اگر حیدرآباد لے گیا ( تو شاہی بازار نہیں جاؤں گاکہ اب اس کی عمر ہی نہیں رہی) تو نہ صرف پلا مچھلی اور ربڑی کھاؤں گا بلکہ سید محمد شاہ الوری، عبدالوہاب شاہ جیلانی جیسے بزرگوں کے مزارات کی زیارت کروں گا اور سرے گھاٹ، دولت آباد، نورانی بستی، مرزا محل ، گو ڈس ناقہ اور قدم گاہ مولا علی جیسی جگہوں کے اس شہر کو ایک اور نظر سے دیکھوں گا جس کی ٹھنڈی شام کبھی سندھ بھر میں مشہور تھی اور جس کی سڑکیں ، دروغ برگر دن راوی، عرق گلاب سے دھلا کرتی تھیں۔
ہماری بدقسمتی کہ جب کوئی شے قریب ہوتی ہے تو ہم اس سے لاعلم رہتے ہیں اور دور ہوجاتے ہیں تو اس کی یاد ستاتی ہے۔ اللہ جانے آج کیا ہوا کہ اپنے پڑوس کے اس سوئے سوئے سے اور کھوئے کھوئے سے شہر کی یاد نے بے طرح ستایا۔ بہرحال ملک خدا تنگ نیست، اور الحمدللہ، پائے گدا لنگ نیست۔۔ زندگی رہی تو حیدرآباد کی بمبئی بیکری کے کیک اور حاجی کی ربڑی اور المنظر کی پلا مچھلی سے کام و دہن کو شاد کروں گا۔ باقی جیسی رب کی مرضی۔
پس نوشت ۔۔ایک بات عرض کرنا بھول گیا کہ یہ تذکرہ حیدرآباد سندھ کا ہے۔