صورت خراب ہے مری آیئنے توڑ دوں؟
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
گزشتہ پوسٹ پر ایک کرمفرما کا کمنٹ تھا کہ آخر پاکستان بنانے والوں نے لیڈر کیوں پیدا نہیں کےؑ؟ کسی نے شوخی میں کہا کہ وہ تو تھے 70 سال کے ۔۔تو سوال ہوا کہ 30-40 سال والے کیا واپس چلے گےؑ تھے۔۔بات تھی مذاق کی جیسے پولٹری کی طرح "لیڈر بریڈنگ فارم" کیوں نہیں بناےؑ تھے
لیکن یہ بات مزاق کی نہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ"پاکستان بناو" کے شور میں پاکستان تو بن گیا لیکن معاملہ کچھ یوں ہوا کہ "حلیم بناو تحریک " والوں نے جب آگ جلا کے دیگ چڑھادی تو پتا چلا کہ حلیم کیلےؑ نہ دالیں ہیں نہ گوشت۔۔ ماڈل اسلامی ملک کیا ہوتا ہے اور ہے تو کہاں ؟خلافت راشدہ۔۔ طارق بن زیاد کا سپین ۔۔ مغل دور حکومت کا نقشہ بھی واضح نہیں
1۔ سب سے پہلے معاملہ اٹھا تنخواہوں کا اور ملکی اخراجات کا ۔۔اللہ بھلا کرے،،سنا ہے کہ 10 کروڑ امیر ریاست بھاولپور نے دےؑ۔۔5 کروڑ حبیب بنک والوں نے اور 5 کروڑ ہی اصفہانی صاحب نے جو بنگال کے بہت بڑے صنعتکار تھے۔۔انڈیا نے ہمارے حصے کا پیسہ نہیں دیا۔۔یہ شکوہ بے کار ہے۔۔آُپ اس یقین پر شادی نہیں کرتے کہ فلاں خبیث الزماں شخص نے مرحوم دادا سے جو قرض لیا تھا وہ مل جاےؑ گا۔۔
2۔اس کے بعد پتا چلا کہ کمانڈر ان چیف دونو ملکوں کی فوج کا۔ فیلڈ مارشل اکن لک ہے اور ہمارا جنرل گریسی اسی کا ماتحت ہے۔ جب اسے کشمیر مپر حملے کا کہا گیا تو اس نے صاف انکار کیا کہ ایک فوج کے دو حصے آپس میں کیسے لڑ سکتے ہیں
3۔ پھر یہ صورت حال سامنے آیؑ کہ آییؑن تو ہے ہی نہیں۔۔ کیا یہ صورت حال مضحکہ خیز نہیں ہے کہ قرار داد پاکستان تو 7 سال پہلے منظور ہوچکی تھی۔۔مسلم لیگ کے پاس ایک سے بڑا ایک ماہر آییؑن و قانون تھا۔۔ اور آییؑن ہے کیا؟۔۔ایک چھوٹی سی کتاب "گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935"۔۔اس میں جہاں انڈیا لکھا ہے کاٹ کے پاکستان لکھو اور بس۔۔ترمیمات بعد میں ہوتی رہیں گی۔۔یہ کتنے دن کا کام تھا؟۔ آییؑن تیار ہوتا تو قایؑد اعظم ایک دن میں منظور کرا کے بحیثیت گورنر جنرل نافذ بھی کر دیتے
4 فورا" ایک مجلس "آییؑن ساز" نامزد کی گیؑ جس کے صدر خود قایؑد اعظم تھے۔ان کی 7 اگست کی تقریر سے بھی بڑا کنفیوژن پھیلا تھا کہ ہیں؟ یہاں ہندو مسلمان سکھ عیسایؑ سب برابر ہوں گے؟ تو پھر تقسیم کا ڈراما کس لےؑ ہوا؟ اس تقریرکی درد ناک کہانی الگ ہے جو میں ابھی نہیں دہراتا
5۔ وزیر اعظم لیاقت علی خان نامزد ہوےؑ تو ان کیلےؑ ایک کابینہ بھی نامزد ہویؑ ۔ یہ نامزدگیاں اس لےؑ ضروری تھیں کہ بھارت سے آنے والوں کا یہاں حلقہؑ انتخاب کویؑ نہیں تھا جہاں سے ووٹ لے کر وہ منتخب ہوتے۔اعتراض کون کرتا ۔باباےؑ قوم پر سب کا مکمل اعتماد تھا۔آییؑن بنانے کیلےؑ انہوں نے ایک محدود مدت دی تھی
6۔ لیکن ان سب نے (جن کو قایؑد اعظم نے بعد میں "کھوٹے سکے" کہا تھا ٗ) ۔۔کچھ اور پلان کر لیا تھا۔ قایؑد اعظم کو بیماری میں زیارت پہنچا دیا گیا ان کے ساتھ ذاتی معالج کرنل ا لٰہٰی بخش اور محترمہ فاطمہ جناح تھیں۔۔ان کی الگ الگ کتابیں اس "دور علالت" کی کچھ اور کہانی کہتی ہیں۔ کرنل الہٰی بخش کی کتاب انگریزی میں تھی "قایؑد اعظم کے آخری ایام"۔۔اب اردو میں بھی دستیاب ہے لیکن ایک طویل عرصہ اس پر پابندی رہی۔۔فاطمہ جناح کی کتاب "مایؑ برادر جناح" میں لکھا ہے:-
وزیر اعظم پاکستان لیاقت علی خاں ایک بار قایؑد اعظم کی عیادت کیلےؑ آےؑ تو بڑے اچھے موڈ میں تھے اور کھانے کی میز پر بھی غیر معمولی خوشدلی کا مظاہرہ کرتے رہے۔ان کے جانے کے بعد قایؑد اعظم نے بڑے دکھ سے کہا "فاطی،،یہمیرا حال پوچھنے نہیں آےؑ تھے۔۔یہ دیکھنے آےؑ تھے کہ اب مین کتنے دن کا مہمان ہوں"
گورنر جنرل اور وزیر اعظم کے سیاسی اختلافات کی الگ کہانی ہے۔۔جیسے قایؑد اعظم کی کویٹہ سے آمد کی الگ کہانی ہے
7۔قایؑد اعظم کی جگہ الحاج خواجہ ناظم ا لدین کو گورنر جنرل بنا دیا گیا۔ لیاقت علی خان بدستور وزیر اعظم رہے۔ ان دونو کو ذاتی کردار کے حوالے سے باقی سب پر ایک فوقیت حاصل ہے
( الف) نوابزادہ خواجہ ناظم الدین واحد لیڈر تھے جو حج کر چکے تھے
(ب)۔۔نوابزادہ لیاقت علی خان واحد شخص تھے جنہوں نے ایک پیسے کا کلیم داخل نہیں کیا۔ کرنال کے پاس ان کی ریاست اور دہلی میں شاہانہ کوٹھی "گل رعنا "تھی جو انہوں نے سفارت خانے کو دے دی
8۔ ۔۔۔۔۔7 اکتوبر 1951 کووزیر داخلہ نواب مشتاق احمد گورمانی کی نگرانی میں لیاقت علی خان شہید کےؑ گےؑ۔۔کیوں؟ یہ تفصیل جاننے کیلےؑ میری وال پر پوسٹ موجود ہے۔وہ سنسنی خیز کہانی یہاں نہیں بیان کی جاسکتی
9 اب اس کے بعد دیکھےؑ پردہؑ غیب سے کیا ظہور میں آتا ہے۔۔وہ جو ناقابل یقین و تصور ہے۔۔گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین کو وزیر اعظم بنا دیا گیا۔۔یہ ایسا ہی ہوگا جیست صدر ممنون حسین کو وزیر اعظم لگادیا جاےؑ۔۔ گورنر جنرل بنایا گیا غلام محمد وزیر خزانہ کو جو ایک ہمہ وقت شراب کے نشے میں دھت رہنے والا مفلوج اور ذہنی مریض تھا۔اس کے بارے میں "شہاب نامہ" کا پورا باب ہے جو عبرت کیلےؑ پڑھنا چاہےؑ بلکہ نصاب میں پڑھانا چاہےؑ میں خود بھی اس سے ملا ہوں لیکن یہاں شہاب نامہ کا ایک اقتباس دیکھےؑ
"۔۔۔۔گورنر جنرل بولنے سے قاصر تھے۔ وہ کسی کی ماں بہن ایک کرنا چاہتے تو ایک سیکرٹری ان کے سامنے وہ صفحہ کر دیتا جس پر اردو کی غلیظ ترین گالیاں لکھی ہویؑ تھیں۔وہ ایک پر انگلی رکھ دیتا اور سیکرٹری اعلان کر دیتا گورنر جنرل صاحب فرماتے ہیں کہ اپ بڑے ما–چ—ہیں"
10۔ اس گورنر جنرل نے ایک سال بعد اسمبلی توڑی اورالحاج نواب خواجہ نآظم ا لدین گھر بیٹھ گےؑ۔کیا آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ پھر کس کو وزیر اعظم رکھا گیا؟ امریکہ میں پاکستان کے سفیر محمد علی بوگرہ کو۔ دو سال بعد وہ اپنی جگہ چلے گےؑ لیکن کوک متعارف کرا گےؑ (قیمت آج کے 30 پیسے) ۔۔
11۔برطرف اسمبلی کے اسپیکر مولوی تمیزالدین کا قد ساڑھے چار فٹ تھا۔۔کرسی پر بیٹھتے تو صرف گھنی داڑھی دکھایؑ دیتی تھی لیکن بلحاظ کردار وہ ہمالہ کی بلندی کو چھوتے تھے۔۔ان کو راہ میں قتل کےؑ جانے کا ڈر تھا پس انہوں نے برقعہ اوڑھا اور اسمبلی بر طرفی کے خلاف اپیل دایؑر کرنے سپریم کورٹ پہنچ گےؑ۔۔ وہاں بدنام زمانہ چیف جسٹس منیر نے "نظریہ ضرورت" لگا کے غلام محمد کے اقدام کو جایؑز قرار دیا پہلے اییؑن کے تحت اعزازی میجر جنرل اسکندر مرزا پہلا صدر بنا۔ اگلے دو سال میں چار وزیر اعظم آےؑ گےؑ یہاں تک کہ 1958 میں یہ کھیل ختم ہوا جب جنرل عیوب خان نے پہلا اییؑن ختم کرکے مارشل لا لگایا۔وہ 15 دن وزیر اعظم رہا۔۔پھر صدربن گیا۔۔ہمارا پہلا اییؑنی صدر اسکند مرزا جلا وطن کیا گیا اور اپمی ایرانی بیوی ناہید کے ساتھ لندن چلا گیا جہاں اسے ایک ہوٹل میں 1200 پونڈ پر مینیجر کی نوکری مل گیؑ
پہلے 11 سالوں میں لیڈر کیوں پیدا نہیں ہوےؑ۔۔ یہ ہیں اس کے11 اسباب۔۔۔و ما علینا الی الا بلاغ
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔