ہم سورج میں جو دہکتی آگ دیکھتے ہیں، وہ عام آگ نہیں، فیوژن ری ایکشن ہے جس میں ہائیڈروجن کے ایٹم مل کر ہیلئیم میں بدلتے ہیں اور اس ری ایکشن سے حاصل ہونے والی توانائی کا ایک بہت چھوٹا حصہ زمین تک پہنچ رہا ہے جس سے نہ صرف زمین کی تمام زندگی توانائی لے رہی ہے بلکہ اس کے مختلف روپ ہم پھر مختلف ذرائع سے اپنی توانائی کی ضروریات کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔ کیا توانائی کا یہ عمل زمین پر کیا جا سکتا ہے؟
یہ وہ سوال ہے جو توانائی کی ٹیکنالوجی کا بڑا چیلنج ہے اور اس میں پچھلے ساٹھ برس میں ہونے والی پیشرفت مشکلات کا شکار رہی ہے۔ اس سے وابستہ امید کم نہیں ہوئی اور اگرچہ اس پر خاصی پیشرفت ہوئی ہے مگر ابھی تک اسے قابلِ عمل بنانے میں وقت لگے گا۔ یہ ری ایکشن شروع کرنا اتنا مشکل نہیں مگر مسائل اسے ٹھیک طرح کنٹرول کرنے کے ہیں اور اس کے لیے جو آلہ ہے، وہ ٹوکاماک ہے۔
اس پر اس وقت ہم کیا کر رہے ہیں تو وہ یہ کہ جنوبی فرانس میں اس وقت آئیٹر ٹوکاماک نامی دنیا کے سب سے فیوژن ری ایکٹر کی تنصیب ہو رہی ہے۔ اس میں یورپی یونین، بھارت، جاپان، چین، کوریا، رشیا اور امریکہ مل کر کام کر رہے ہیں یعنی دنیا کی نصف سے زیادہ آبادی کا مالی اور سائنسی حصہ اس میں شامل ہے۔ اربوں یورو سے تعمیر ہونے والے اس ری ایکٹر میں امید ہے کہ پچاس میگا واٹ کی انجیکشن سے شروع ہونے والا ری ایکشن ہمیں پانچ سو میگا واٹ کی آؤٹ پٹ دے سکے گا۔
سورج کی سطح کا درجہ حرارت چھ ہزار ڈگری ہے جبکہ سورج کی کور میں یہ ڈیڑھ کروڑ ڈگری ہے۔ آئیٹر میں یہ پندرہ کروڑ ڈگری ہونا متوقع ہے یعنی سورج کے گرم ترین مقام سے دس گنا زیادہ گرم۔
یہ خود صرف ایک تجربہ ہے اور اگر اس میں ہم سائنسی اور تکنیکی مسائل حل کرنے میں کامیاب ہو گئے تو پھر یہ مستقبل کی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لئے انتہائی بڑی کامیابی ہو گی اور پھر فیوژن توانائی کو کمرشمل سطح پر شروع کرنا ممکن ہو سکے گا۔
اس پر تعمیری کام 2004 میں شروع ہوا۔ نصف سے زیادہ کام مکمل ہو چکا اور فرسٹ پلازما دسمبر 2025 میں متوقع ہے۔
اس تجربے سے کیا ملتا ہے، یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ اس کی اب تک کی تصاویر منسلک ہیں اور یہ سائٹ سیاحوں کے لئی کھلی ہے۔ اس کی تفصیل اس کی اپنی ویب سائٹ سے
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔