سور کے جسم کے اعضاء ہی کیوں انسان کے جسم کے متبادل اعضاء میں لگائے جارہےہیں؟ بندر یا کسی مویشی کے کیوں نہیں؟
جس جانور کے اعضاء، انسانی اعضاء کے متبادل ہونے کے قریب سائنسدانوں کو معلوم ہوتےہیں، صرف انکو ہی انسانوں کے بدل کے طور پر لگایاجاتا ہے۔ سور کے اعضاء کو ترجیح اس لیے دی جاتی ہے کیونکہ ایک سور بہت جلد چھوٹی عمر سے پختہ عمر کے ہو جاتے ہیں، بڑی تعداد میں بچے پیدا کرتے ہیں اور انکی بچپن اور جوانی دونوں میں انسانی اعضاء کے مقابلے کا سائز اور کام کرتے ہیں۔ مائکرو بایولوجیکل طور پر کنٹرول شدہ ماحول میں بھی سوروں کے اعضاء کو صحت کے اعلیٰ معیارات تک پہنچایا جا سکتا ہے۔
اب یہ بات کہی جاتی ہے کہ ، انسانوں کے ساتھ سائز، جسمانی اور جسمانی مماثلت سمیت متعدد یا وجوہات کی بناء پر، سور ترجیحی طور پر انسان کو اپنے اعضاء عطیہ دہندگان کی نوع بن سکتا ہے ( طبی جریدہ کوپر ایٹ ال۔، 2016 میں یہ بات کہی گئی تھی اور اسکا جائزہ لیا گیا)۔ اہم بات یہ ہے کہ خنزیروں کو جینیاتی انجینئرنگ کے ذریعے خلیات، ٹشوز اور اعضاء کے ذریعہ زینو ٹرانسپلانٹیشن xenotransplantation کے لیے بہتر بنایا جا سکتا ہے
خنزیر کے جسم کے تمام چھاتی اور پیٹ کے اعضاء انسانوں کی طرح ہوتے ہیں۔ چند اعضاء میں بے شک چھوٹے چھوٹے فرق ہوتے ہیں۔ جگر – انسانی جگر میں چار لاب ہوتے ہیں: دائیں، بائیں، کوڈیٹ اور کواڈریٹ۔ جب کہ کے سور کے جگر میں پانچ لاب ہوتے ہیں: دائیں لیٹرل، رائٹ سنٹرل، لیفٹ سینٹرل، لیفٹ لیٹرل، اور کوڈیٹ۔ان فرق کو پھر جینیاتی موڈییفیکیشن کے زریعے انسانی جسم کے قابل بنایا جاتا ہے۔ دوسرے جانور کے اعضاء میں یہ بات نہیں ہوتی
سور کے اعضاء کی پیوندکاری ، پرائمیٹ (بوزنے، بندروں) کے مقابلے میں فائدہ مند ہے، کیونکہ ایک سور کے اعضا کو چھ ماہ میں بالغ انسان کے اعضاء کے مقابلے کےسائز جتنا بڑھانا اور حاصل کرنا آسان ہوتا ہے۔ سور کے دل کے والوز کو معمول کے مطابق انسانوں میں ٹرانسپلانٹ کیا جاتا رہا ہے، اور ذیابیطس کے کچھ مریضوں کوسوروں کے لبلبے کے خلیوں سے بننے والی انسولین ملتی ہے۔
بندر، گائے یا کسی اور مویشی کے اعضاء کیوں پیوندکاری میں استعمال نہیں ہوسکتے؟
اگر ہم چمپینزی یا ایپ یا کسی اور مویشی (گائے ، بکری، بھیڑ وغیرہ) جیسے ڈونرز کے اعضاء کا استعمال کرتے ہیں تو ایسے ٹرانسپلانٹ اعضاء، ان وصول کنندگان کے لیے ایک خطرہ ٹرانسپلانٹ شدہ اعضاء کے ذریعے منتقل ہونے والے وائرس سے انفیکشن ہے۔ اینمل کنگڈم میں ہمارے قریبی کزنز کے طور پر، پرائیمیٹ دوسرے جانوروں کے مقابلے میں بہت زیادہ امکان رکھتے ہیں کہ وہ ان وائرس کو انسانوں تک لے جانے کی زیادہ صلاحیت رکھتے ہیں جو انسانوں کو متاثر کرسکتے ہیں جیسے کہ ایچ آئی وی، جس کی ابتدا چمپینزی میں ہوئی تھی۔
پرائمیٹ خود بہت زیادہ مہنگے بھی ہوتے ہیں اور انکی فارمنگ بھی بہت حد تک کافی مہنگی پڑسکتی ہے۔اسکے علاوہ ان کو پالنا کافی مشکل بھی ہوسکتا ہے، اور عطیہ کرنے والے اعضاء کی بڑھتی ہوئی مانگ کو پورا کرنے کے لیے کافی پریمیٹ کی افزائش کے قابل ہونے کا تصور کرنا مشکل ہے۔ وہ ایک اخلاقی مخمصے کا باعث بھی بنتے ہیں جو عمومی طور انسانوں کے ساتھ بہت سی خصوصیات کا اشتراک رکھتے ہیں ان جانوروں کا استحصال کرنے سےبہت سی تنظیمیں گریزاں ہوتی ہیں ۔
سوروں کی فارمنگ اور ان کی پرورش ایک صحت مند ماحول میں کی جا سکتی ہے، وہ بعض انسانی آبادیوں کے کھانے کے لیے آسانی سے اور بڑے پیمانے پر پالے جاتے ہیں، اور بشرطیکہ ان کے ساتھ کوئی ظالمانہ اور پرتشدد سلوک نہ کیا جائے، اسطرح کے اخلاقی مخمصے سوروں کی فارمنگ میں بہت کم پیش آتی ہے، بنسبت بندروں کی فارمنگ کے ۔ ایک چمپنزی کا دل انسانی جسم کے لیے بہت بڑا اور طاقتور ہوتا ہے، اور نارمل انسانی دل کے افعال کو صحیح سے پرفارم نہیں کرسکتا ۔ سور کے دل کا عطیہ دینے اس لیے مناسب سمجھا جاتا ہے کیونکہ ان کے دل تقریباً ایک ہی اس سائز اور شکل کے ہوتے ہیں جو انسانی دلوں کے ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...