میری ایک دوست ہے جو اپنے گھر کے بیسمنٹ کے ایک صوفہ پہ بیٹھ کر مجھے اپنی خامشی سناتی رہی، پھر میں نے ایک دن اپنا ایک قہقہہ ساتھ والے صوفہ پہ رکھ دیا ، اس نے چند قہقہے اپنے اندر انڈیلے- میں اب بھی اس کی خامشی سنتا رہتا ہوں مگر مجھے اپنے قہقہے کا پتا نہیں کہ وہ کدھر گیا..!
میں نے اس پہ ایک نظم لکھی (ایسی صورت حال میں میرے حصے صرف چند نظمیں ہی آتی ہیں)۔ نظم کا نام ہے
" ہر وقت کام میں جُتی لڑکی–"
کشور پروین کا تعلق سندھ سےہے۔کشور زیادہ تر غزل لکھتی ہیں، نظم بہت کم لکھتی ہیں مگر جب بھی نظم لکھتی ہیں کمال نظم لکھتی ہیں ۔ مجھے خوشی ہوئی کہ کشور پروین جی نے میری نظم پہ ایک نظم " مجھے جل تھل کر دو" لکھی جو میرے لیے ایک اعزاز ہے۔
میں قاری کی سہولت کے لیے دونوں نظمیں یہاں دے رہا ہوں ۔ میں کشور پروین کی خواہش کا احترام کرتے ان کی اوریجنل تصویر اس پوسٹ پہ نہیں لگا رہا مگر کشور پروین کی پرفائل تصویر لگا رہا ہوں
میری نظم
ہر وقت کام میں جُتی لڑکی
——————————————
قہقہے لگاتی تمہاری خامشی
میرے کانوں میں
نیزے گاڑھتی رہتی ہے
کان کے پردے پھاڑتی رہتی ہے
"آپ بات کریں"
اس جملے سے
تم کب آگے بڑھو گی
کتاب کا کوئی ایک صفحہ تو
اونچی آواز میں پڑھو
کسی سے اونچی آواز میں
پانی کے گلاس کا ہی کہو
کسی سے اونچی آواز میں
سیپرٹ چائے کا ہی کہو
جل تھل کرتی بارش میں
تم
چھت پہ کیوں سوکھی کهڑی ہو
بغیر آئینہ دیکھے
بننے سنورنے پر
تم کو کس نے مجبور کیا
کان میں لفظ پڑتے ہی
تم
جُت جاتی ہو ہر کام میں
سوائے محبت کے
میں نے جب یہ نا مکمل نظم
اسے سنائی تو
اس نے کہا
" پلیز آپ اس نظم کو پھاڑ دیں
کہیں
میں بولنے ہی نہ لگ جاوُں"۔۔!
مسعودقمر
————————————
اللہ کا بہت کرم ہے اس نے مجھے بہترین اور قابل ساتھیوں سے نوازاہے، جن سے بہت کچھ سیکھا ہے، ان ہی میں ایک نام مسعودقمر جی کا ہے –
مسعود قمر جی نے ایک نظم لکھی " ہر وقت کام میں جُتی لڑکی" یہ نظم پڑھنے کے بعد ذہن سے نکل ہی نہ سکی ، ہر وقت ساتھ ساتھ رہتی اور پھر میں نے اس نظم سے متاثر ہو کر ایک نظم لکھی۔
میں مسعود قمر جی کی بے حد شکر گزار ہوں کہ انہوں نے میری اصلاح اور نظم کی درستگی کی ، ورنہ میں اس قابل کہاں!
"مجهے جل تھل کرو" —————–
میری چیخ
میرا نوحہ
تمہارے کانوں تک پہنچتے
خامشی کے قہقہے بن جاتے ہیں
میں
بارش کے پانی سے نہیں
تیرے پیار کے ابر میں
جل تهل ہونا چاہتی ہوں
جب سے تو نے
خود کو آئینے سے نکالا ہے
میں نے
آئینہ دیکھنا چھوڑ دیا ہے
میں ہر طرح کے کاموں میں
جُتی ہونے کے باوجود
تیری محبت میں مشغول رہتی ہوں
اور
ہر کام ادھورا رہ جاتا ہے
سوائے محبت کے
آوُ
میری آواز سنو
اپنے پیار کے ابر سے
مجھے جل تھل کرو
میرا آئینہ بنو
کہ
میں خود کو دیکھ سکوں
ورنہ
محبت اور خامشی
میرے ادھورے وجود
اور
میرے ادھورے کاموں پر
قہقہے لگاتے رہیں گے
————–
کشور پروین