ازلی انتشار کی جگہ ایک پھنکارتے ناگ نے لے لی تھی . رگ و پے میں دوڑتے زہر کے زیرِ اثر وحشت کا رقص اس قدر تیز تھا کہ ناخن اپنا ہی جسم کھرچنے کے لیے حرکت میں آگئے۔ دل جیسے کنپٹیوں میں دھڑک رہا تھا۔ دماغ کے پرخچے ہر سو بکھرے تھے۔ جیسے کسی نے کانچ کے نازک گلدان پر وزنی پتھر دے مارا ہو۔
اتنی اذیت اس وقت بھی نہیں ہوئی تھی جب اس کا باپ دامن چھڑا کے ماں کو تنہا چھوڑ گیا تھا۔ وہ گلی میں دور تک باپ کے پیچھے دیوانہ وار بھاگا لیکن کمزور ٹانگوں کا توانا مرد سے کیا مقابلہ! اس کے بعد تو زندگی کی ہر دوڑ میں ناکامی اس کا مقدر بن گئی۔ اس کا ننھا ذہن ماں کی بے بسی اور دکھ کا اندازہ لگانے سے قاصر تھا لیکن یہ ٖضرور جانتا تھا کہ اب شام میں باپ کے آنے کی خوشی اس سے روٹھ گئی ہے، بچپن کا وہ منظر ذہن میں اُبھرا تو ناخنوں میں تیزی آگئی۔ خون کی بہتی لکیریں اسے سکون بخش رہی تھیں۔ اپنے غلاظت زدہ جسم سے شدید نفرت تو اس وقت بھی نہیں ہوئی تھی، جب ایک روز ماں کے کام پر جانے کے بعد اس کے وجود کی گٹھری کو بے رحمی سے کھولا گیا تھا۔ منہ میں کپڑا ٹھونسنے کے باوجود اس کی گھٹی گھٹی چیخیں دیواروں کا سینہ شق کر رہی تھیں۔۔۔۔۔۔ اس کی اذیت کا جواب لذت آموز قہقہے تھے۔ سگریٹ اور شراب کی بُو ۔۔۔ نکیلے ناخن اور تیز دانتوں سے لہولہان اس کا ناتواں جسم تب اس نے ایک عرصے بعد باپ کو پکارا تھا۔
"بابا۔۔۔۔۔۔ !" جواب میں ماں کی دل دہلاتی چیخیں اور دہاڑیں ہی سُن سکا۔ کتنی ساعتیں گزریں، کتنے ستم ٹوٹے ۔۔۔۔ اسے کئی دن بعد پتا چلا کہ اسکی کمزور ماں نے خود کو آگ میں جھونک ڈالا تھا۔
"ماں۔۔!" پُرانے زخم ہرے ہوئے تو وہ چلا اُٹھا ، "ماں۔۔ تو کیوں مر گئی؟ کاش تو مجھے جنم دینے سے پہلے مر جاتی۔۔۔۔" بھبک بھبک کر رو رہا تھا۔ ہر دکھ تکلیف ذلت اور اذیت کی ساتھی ماں ہی تو تھی۔ ماں کے بعد اس کی زندگی کی ناؤ جیسے طوفان میں پھنس کے رہ گئی۔۔۔ مزاحمت کی ہمت تھی نہ طاقت ۔ بہاؤ کے ساتھ بہتا ہی چلا گیا۔ پھر شاید قدرت کو اس پر رحم آیا اور روشنی اس کے لیے جزیرہ بن گئی۔ اس کی محبت نے احساس دلایا کہ کیچڑ میں لتھڑے کنول کی خوبصورتی دراصل زندگی کا استعارہ ہے۔ اپنی ذات کی ویرانی ختم کرنے کے لیے روشنی کا ساتھ ضروری تھا اور اس کے لیے اسے اپنے داغ دار ماضی کو دھونا تھا ۔ نئی امنگ اور توانائی کے ساتھ تنکے جوڑتے جوڑتے یک لخت تیز آندھی چلی اور سب کچھ اڑا کے لے گئی۔ وہ اپنے کام میں مصروف ، اپنے ساتھی کی خواہشات کی تکمیل کررہا تھاکہ بیڈ روم کا دروازہ کھلا اور اس کی زندگی کی سب سے بڑی خوشی ۔۔۔ اس کی روشنی چیخیں مارتی باہر کی طرف بھاگی ۔ اس کا حواس باختہ ساتھی اپنی بیٹی کے پیچھے دوڑا لیکن روشنی کو اندھیرے نگل چکے تھے۔۔۔۔۔۔ چوتھی منزل کی بالکونی سے چھلانگ لگا کر اس کی خوشی مر چکی تھی۔۔۔۔۔ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔۔۔۔۔!
دکھ کی ایک تیز لہر ابھری۔ ناخن ٹوٹ گئے لیکن جسم زخم مانگ رہا تھا۔ کسی تیز دھار آلے کی تلاش میں وہ چیزیں الٹ پلٹ رہا تھا کہ اچانک اس کی نظر کھڑکی پر پڑی۔ دروازہ اور کھڑکی اندر سے بند تھے تو یہ آیا کہاں سے ؟ ان جانے خوف کے زیرِ اثر اس نے دروازہ کھولنا چاہا مگر چٹخنی اپنی جگہ سے ہل بھی نہیں رہی تھی۔
"کون ہو تم ؟ کیا چاہتے ہو؟" اس کے منہ سے بمشکل نکلا۔
"ڈر گئے ؟ تم تو موت کو گلے لگا رہے تھے۔ پھر اتنی سی بات پر خوف کیسا؟ میں تمہاری مدد کرنے آیا ہوں ۔۔۔۔ تمہاری اذیت ختم کرنے ۔۔۔۔ ابھی تمہارا وقت نہیں آیا ۔ تم ایسے نہیں مر سکتے ۔۔۔ بے نام و نشاں!" طویل قامت شخص نے با ُرعب آواز میں کہا، "کسان بھی فصل کا سودا کرتے وقت اگلی فصل کے لیے کچھ رکھ چھوڑتا ہے تاکہ نئی فصل اگا سکے۔ میں تمھاری مایوسی اور محرومی کا ازالہ کرنا چاہتا ہوں۔"
اس کا خوف کچھ کم ہورہا تھا اور زخموں کی جلن بھی ۔ "میرے دکھ اور اذیت کا کوئی مداوا نہیں۔ میرا دنیا میں کوئی نہیں ہے۔ کسی کو میری ضرورت نہیں ہے۔" اپنے اندر کی گھٹن کسی اجنبی سے بیان کرنا اسے اچھا لگ رہا تھا ابدی سفر سے قبل اپنا سارا غبار نکال کر ہلکا پھلکا ہونا چاہئے تھا۔شاید یہ کوئی غیبی مدد ہے ۔اس نے سوچا۔
’’میرا جسم میرا سب سے بڑا دشمن ہے۔میری ماں کو اسی کی آگ چاٹ گئی اور آج میری محبت۔۔۔میری روشنی کو بھی اس کے تعفن زدہ اندھیرے نگل گئے۔میں خود کو نوچ ڈالنا چاہتا ہوں۔ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بکھرنا چاہتا ہوں۔‘‘اذیت آنسوؤں کی صورت بہہ رہی تھی اور وجود بری طرح لرز رہاتھا۔’’میرے زندہ رہنے سے تمھیں کیا فائدہ ہوگا۔کیوں مجھے روک رہے ہو۔؟‘‘
’’اگر میں کہوں کہ کل کا سورج تمھاری زندگی کو یک لخت بدلنے والا ہے تو پھر بھی اپنی بات پر قائم رہو گے۔تمھیں اتنی تکالیف سہنے کے بعد آسودگی کی زندگی بسر کرنے کا موقع مل رہا ہے۔اسے نہ گنواؤ،اپنا ارادہ ترک کرکے صرف ایک اختیار مجھے دے دو ۔"
طویل قامت شخص اب جیسے اس کی روح پڑھ رہا تھا ۔تذبذب کے عالم میں وہ اپنی وحشت اور دیوانگی بھول کر آسودگی کے بارے میں سوچنے لگا ۔
کیسی ہوتی ہے ایسی زندگی ؟اسے نہ کوئی تجربہ تھا اور نہ کوئی امید۔اب جب کہ وہ ایک فیصلے پر پہنچ ہی چکا ہے تو ایک بار آزمانے میں کیا حرج ہے۔۔۔لیکن اختیار کس بات کا؟کیا یہ کوئی شیطان ہے۔۔۔ اس کی روح کا سودا مطلوب ہے۔بہت پہلے پڑھی گئی ایک کہانی اس کے دماغ میں چکرانے لگی۔
’’تم غلط سوچ رہے ہو۔میں اگر شیطان ہوتا توتمھیں حرام موت سے نہ روکتا۔تم بس یہ سمجھ لو کہ تمھیں غیبی مدد مل رہی ہے۔‘‘اس نے کہا۔
کچھ سوچ بچار کے بعد اس نے اپنی موت کا اختیارطویل قامت شخص کو سونپ دیا۔اس کے جانے کے بعد ایک عجیب سے اطمینان اور سکون نے اسے اپنے حصارمیں لے لیا۔
اگلی صبح واقعی اس کی زندگی میں مثبت تبدیلی کا مژدہ لائی تھی ۔باپ جس کا وجود وہ تقریباً بھول چکا تھا،اسے ڈھونڈتا چلا آیا۔پروسٹیٹ کینسر نے ساری وجاہت اور شخصیت کو گہن لگادیا تھا۔بچپن کی تکالیف اور محرومیوں کا ازالہ اپنی بے پناہ دولت سے کرکے وہ زیادہ دن نہیں جی سکا۔مرنے سے قبل اپنی ساری جائیداد کے کاغذات اور ایک لفافہ اسے سونپ کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رویا تھا۔
اب وہ تھا اور بے شمار دولت۔شہر بدلا پھر ملک ۔۔۔!نگر نگر پھرا۔۔۔عیش و آرام کی زندگی کا لطف کیا ہو تا ہے؟حقیقی خوشیاں،آسودگی اور اطمینان۔۔۔
سارے مفاہیم اب اس کے سامنے عیاں تھے ۔کبھی کبھی اسے درد میں ڈوبی وہ رات آجاتی اور وہ شخص جس کے کہنے پر اس نے اپنا وجود بربادی کی جانب سے موڑ دیاتھا۔زخم بھر گئے تھے بس کچھ نشان باقی تھے ۔کامیابی کی منزل جیسے اس کے قدموں میں بچھ گئی تھی۔اپنے حلقے میں ذہین، فلطین، دولت مند اور وجاہت کا شکار ہونے کے سبب اسے وہ سب مل چکا تھا جس کی اسے خواہش تھی۔۔عزت ،رتبہ، شہرت!۔ اس کی کشش کے سبب صرف عورتیں ہی نہیں مرد بھی کھنچے چلے آتے تھے۔اپنے مقناطیسی وجود کا اندازہ تو اسے بچپن میں ہی خوب ہوگیا تھا ۔جب وہ چھوٹا تھاتو اس کی ماں کہتی ۔۔۔
’’میرے لال!تجھے دیکھ کر کوئی تجھ سے محبت کئے بنا نہیں رہ سکتا۔تیرا باپ بھی۔۔۔‘‘بات ادھوری چھوڑ کر وہ روپڑتی۔
روح کے زخم کچھ ماند پڑے تو صبا کی دلکشی اور وارفتگی نے اپنی جانب کھینچنا شروع کیا۔حصول میں کچھ رکاوٹ پیش نہ آئی اور وہ مزید ایک سنگ میل عبور کرگیا۔زندگی اپنی ڈگر پر رواں دواں چلی جارہی تھی ۔وہ خوشیوں کے ہلکورے لے رہا تھا ۔محبت بانٹ رہا تھا ۔
اطمینان اورسکون! یہی تواصل زندگی ہے۔سچ کہتا تھا وہ شخص لیکن ۔۔۔ کون تھا وہ ؟ کیا میراضمیریا ہم زاد !وہ سوچتا۔
اس روز وہ اپنی اسٹڈی میں تنہا بیٹھا کچھ کتابیں الٹ پلٹ کررہاتھا۔کبھی کبھی سارے شور ،ہنگامے اور گہما گہمی سے اکتا کر کتابوں کا سہارا لینا اس کا معمول تھا۔ایک کتاب کے عنوان نے اس کی توجہ اپنی طرف مبذول ہی کروائی تھی کہ کسی کھٹکے کی آوازآئی۔سامنے شیلف کے پاس وہی طویل قامت شخص کھڑا تھا ۔۔۔ اس کے وہم و گماں سے پرے !ایک اٹل حقیقت کا روپ دھارے ۔
’’تم ۔۔۔ ‘‘اس کے ہاتھ سے کتاب گر گئی۔
’’آج تمہاری مہلت ختم ہوگئی ۔یا د ہے تم نے اپنی موت کا اختیار مجھے سونپا تھا۔دن ۔۔۔وقت سب مجھے طے کرناتھا۔۔۔ہاں طریقہ جو تم چاہو ۔تم کیسے مرنا چاہو گے؟‘‘
’’میں جینا چاہتا ہوں ۔اب تو میرے سامنے خواہشات کا سمندر ہے اور تم مجھے اس سے دور کرنا چاہتے ہو۔‘‘زندگی سے منہ موڑنے کا تصورسوہانِ روح تھا۔
’’تم اپنی بات سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے ۔تمہارے پاس ایک گھنٹہ ہے ۔موت کو گلے لگاؤ یا اس سچ کو جسے تم نے دنیا سے چھپا رکھا ہے۔بتا دو سب کو اپنی اصلیت ۔پھربتانا کہ وہ تم سے محبت کرتے ہیں یا شدید نفرت‘‘۔
اس کا داغ دار ماضی ۔۔۔گناہ آلود راتیں ۔۔۔ غلاظت میں ڈوبا اس کا کل اس کے آج کو بچا سکے گا؟دنیا کی نظر میں باعزت کہلائے جانے کے بعد وہ دوبارہ اسی دلدل کا حصہ بن سکے گا؟
اس کا ذہن سود وزیاں میں مصروف تھااور نظر یں اس شخص پر گڑی تھیں جو گھڑی کی طرف دیکھ رہا تھا ۔دس منٹ کم ہوگئے تھے ۔اب اس کے پاس صرف پچاس منٹ تھے۔فیصلہ کرنے کے لئے یہ وقت تھوڑاتھا لیکن اس کا ذہن تیزی سے تمام صورت حال کا تجزیہ کررہا تھا۔اسے مہلت کیوں ملی،اس شخص کا مقصد کیا ہے ؟وہ اس بدبودار رات کی جزئیات اورگفتگو ذہن و دل میں اتارنے کی کوشش کررہا تھا تبھی کسی کتاب سے گرے ہوئے ایک لفافے نے اس کی توجہ اپنی جانب کردی۔
باپ سے شدید نفرت اوربے زاری کے سبب اس نے وہ آخری خط پڑھنا ضروری نہیں سمجھا تھا۔لفافہ چاک کرکے پڑھنا شروع کیاتو سارا عقدہ کھل گیا ۔
اپنی جبلت ، فطرت اور مقناطیسی کشش اسے باپ سے ہی ورثے میں ملی تھی۔ جن کی وجہ سے وہ بچپن میں اس کی ماں کو چھوڑ کے چلا گیا تھا ۔۔۔ حیوانی خواہشات پہلے غربت اور مجبوری کے پردے میں چھپی تھیں لیکن اب بھی شعلے کی طرح بھڑکنا۔۔۔خود ہی جلنا۔دوسروں کو بھی سلگانا اس کی خصلت کے سبب تھا۔
پندرہ منٹ۔ اب صرف پندرہ منٹ بچے تھے ۔وہ اپنی بیوی کے بارے میں سوچنے لگا جو اس کی حقیقت سے ناآشنا دیوانہ وار اسے چاہتی تھی ۔اس کا وجود مزید شرمندگی اور ذلت سہار پائے گا؟
سوچوں میں غلطاں وہ تیزی سے اٹھا،گیراج سے پیٹرول کا ڈبہ لیا اور اب وہ طویل قامت شخص کے روبرو تھا جو عجیب سے انداز میں مسکرا رہا تھا۔
اچانک اسٹڈی کا دروازہ کھلا۔
’’میں تمہیں ہر جگہ ڈھونڈ رہی تھی ۔‘‘ اس کی بیوی کی بےتابی اور ہاتھ میں موجود میڈیکل رپورٹ نے یک لخت اس پر ساری حقیقت آشکار کر دی ۔ وہ جان گیا تھا کہ اس کی موت کے لئے آج کا دن ہی کیوں چنا گیا ۔
پانچ منٹ بعد اسٹڈی میں لپکتے شعلے دو جسموں کو چاٹ رہے تھے اور اس کے باپ کا دیا گیا آخری خط ، اس کے باپ بننے کی نوید کے ساتھ بھسم ہورہا تھا!
آخری فصل جھلسنے پر اسٹڈی میں موجود تیسرے شخص کی جھنجلاہٹ عروج پر تھی !
https://www.facebook.com/groups/1690875667845800/permalink/1745543252379041/
“